برابر کی قوت کے انتظار میں نہ رہو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
چند اہم نکاتدو توجہ طلب نکات

پہلے دو آیات میں اسلامی جہاد کے متعلق اور فوجی احکام کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔
پہلی آیت میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو حکم دیا گیا ہے کہ: اے پیغمبر! مسلمانوں کو دشمن سے جہاد کرنے کی ترغیب دیجئے اور تحریک کیجئے (یَااٴَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ عَلَی الْقِتَالِ)۔
فوجی سپاہی جس قدر بھی تیار ہوں پھر بھی جنگ شروع ہونے سے پہلے ان کی روحانی تقویت درکار ہوتی ہے یعنی ذمہ داری کا احساس اجاگر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ چیز ساری دنیا کی آگاہ اور تربیت یافتہ فوجوں میں بھی ہوتی ہے کہ کمانڈر اور فوج کے افسر میدانِ جنگ کی طرف جانے سے پہلے یا میدانِ جنگ میں حملہ شروع کرنے سے پہلے مناسب مطالب کے ذکر سے ان کی جنگی جذبے کو ابھارتے ہیں اور شکست کے خطرے سے ڈراتے ہیں۔
البتہ مادی اور ان جیسے مکاتب فکر میں تشویق وترغیب کا دامن محدو ہوتا ہے لیکن آسمانی مکاتب ومذاہب میں بہت ہی زیادہ وسیع ہے، فرمان الٰہی کی طرف توجہ، خدا پر ایمان کی تاثیر اور شہدائے راہِ حق کے مقام کی یاد اور فضیلت وبے احساب ثواب جو ان کے انتظار میں ہے نیز معنوی افتخار واعزاز اور احسانات وعنایات جو میدان جنگ میں دشمن پر کامیابی میں موجود ہیں نمازیوں میں بہادری استقامت اور پامردی کی روح پھونکنے کا بہترین ذریعہ ہیں، اسلامی جنگوں میں بعض اوقات قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت مجاہدینِ اسلام کو اس طرح سے آادہ کردیتی تھیں کہ وہ برق اسا ہوجاتے اور عشق وجنون اور جذبے کی کامل تصویر بن جاتے۔
بہرحال آیت کا یہ حصّہ جہاد کی زیادہ سے زیادہ تبلیغ اور مجاہدین کے جذبہ کی تقویت کی اہمیت کو ایک اسلامی حکم کے طور پر واضح کرتا ہے۔
اس کے بعد آیت ایک دوسرا حکم دیتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر تم میں سے بیس افراد صاحبِ استقامت ہوں تو وہ دو سو افراد پر غلبہ حاصل کرلیںگے اور اگر تم میں سے سو افراد ہوں تو ہزار کافروں پر غالب آئیں گے (إِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ وَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَةٌ یَغْلِبُوا اٴَلْفًا مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا)۔ آیت اگرچہ ایک شخص کے دس افراد پر غالب آنے کے متعلق خبر کی صورت میں ہے لیکن بعد والی آیت کہتی ہے:
”الْآنَ خَفَّفَ اللهُ عَنکُمْ “
اب سے تم پر اس ذمہ داری میں تخفیف کردی گئی ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس سے مراد فرض اور حکم کا تعین ہے نہ کہ صرف ایک عام سی خبر ہے۔
لہٰذا مسلمان اس بات کے منتظر نہ رہیں کہ فوج کی تعداد دشمن کی فوج کے مساوی ہوجائے بلکہ یہاں تک کہ ان کی تعداد اگر دشمن کا دسواں حصّہ ہو تو بھی جہاد ان پر فرض ہے اس کے بعد اس حکم کی علت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: یہ اس بناء پر ہے تمھارے بے ایمان دشمن ایسے ہیں جو سمجھتے ہی نہیں (بِاٴَنَّھُمْ قَوْمٌ لَایَفْقَھُونَ)۔
یہ تاویل ابتداء میں عجیب وغریب نظر آتی ہے کہ علم وآگاہی اور کامیابی کے درمیان یا عدم آگہی اور شکست کے درمیان کیا ربط ہے لیکن فی الحقیقت ان دونوں کے درمیان بہت ہی نزدیکی اور مستحکم رابطہ ہے کیونکہ مومنین اپنے راستے کو اچھی طرح پہچانتے ہیںن اپنی خلقت کے ہدف کا ادراک رکھتے ہیں اور اس جہان میں جہاد کے مثبت نتائج اور دوسرے جہان میں جو زیادہ ثواب مجاہدین کے انتظار میں ہے اس سے باخبر ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ کس لئے لڑرہے ہیں اور کس لئے برسرِپیکار ہیں اور کس مقدس مقصد کے لئے فداکاری کررہے ہیں اور اگر اس راہ میں قربان اور شہید ہوجائیں تو ان کا حساب کتاب کس کے ہاتھ میں ہے، یہ واضح راستہ اور یہ آگاہی انھیں صبرو استقامت اور پامردی سکھاتی ہے، لیکن بے ایمان اور بت پرست ٹھیک طور پر نہیں جانتے کہ وہ کس لئے جنگ کررہے ہیں اور کس کے لئے لڑرہے ہیں اور اگر اس راہ میں مارے جائیں تو ان کے خون کی تلافی کون کرے گا، صرف ایک عادت اور اندھی تقلید یا خشک اور بے منطق تعصب کی وجہ سے اس مکتب کے پیچھے ہوئے ہیں راستے کی یہ تاریکی، ہدف سے ناآگاہی اور جنگ کے انجام اور نتیجے سے بے خبری اُن کے اعصاب کو کمزور کردیتی ہے، ان کے توانائی اور استقامت کو لے جاتی ہے اور ان کا کمزورسا وجود رہ جاتا ہے۔
لیکن مذکورہ بالا سنگین حکم کے بعد خداتعالیٰ کئی درجے تخفیف دیتا ہے اور کہتا ہے: اسی وقت خدا نے تمھیں تخفیف دی اور اس نے تمھارے درمیان کمزور اور سُست افراد موجود ہیں (الْآنَ خَفَّفَ اللهُ عَنکُمْ وَعَلِمَ اٴَنَّ فِیکُمْ ضَعْفًا)۔
اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ ان حالات میں اگر تم میں سے سو صبر واستقامت والے مجاہد ہوں تو وہ دو سو افراد پر غالب آئیں گے اور اگر ہزار آدمی ہوں تو دو ہزار پر حکمِ خدا سے کامیاب ہوں گے (فَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ وَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ اٴَلْفٌ یَغْلِبُوا اٴَلْفَیْنِ بِإِذْنِ اللهِ)۔ لیکن یہ بات کسی حالت میں فراموش نہ کریں کہ ”خدا صابرین کے ساتھ ہے (وَاللهُ مَعَ الصَّابِرِینَ)۔

 

چند اہم نکاتدو توجہ طلب نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma