جنگی قیدی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
چند قابلِ توجہ نکاتچند اہم نکات

گذشتہ آیات میں جہاد اور دشمن سے جنگ کرنے کے متعلق احکام کے اہم حصّے یان ہوئے ہیں، اب زیرِ بحث آیات میں جنگی قیدیوں کے بارے میں کچھ احکام ذکر کرکے اس جاری بحث کی تکمیل کی گئی ہے، کیونکہ جنگوں میں عموماً قیدیوں اور اسیروں کا مسئلہ پیش آیا ہے، جنگی قیدیوں سے انسانی حوالوں سے سلوک اور اسی طرح مقاصدِ جہاد بہت اہم موضوعات ہیں، اس سلسلے میں سب سے پہلے جو مطلب بیان ہوا ہے اس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: کوئی نبی یہ حق نہیں رکھتا کہ اس کے پاس جنگی قیدی ہوں تاکہ وہ زمین میں اپنے پاوٴں خوب محکم کرسکے اور دشمن کے پیکر پر کاری اور اطمینان بخش ضربیں لگاسکے (مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اٴَنْ یَکُونَ لَہُ اٴَسْریٰ حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْاٴَرْضِ)۔
”یثخن“ ”ثخن“ (بروزن ”شکن“) کے مادہ سے ضخامت، سختی اور سنگینی کے معنی میں آیا ہے۔
بعد ازاں اسی منسابت سے کامیابی، واضح غلبہ، قوت، قدرت اور شدّت کے مفہوم میں بولا جانے لگا، بعض مفسّرین نے ”حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْاٴَرْضِ“ کو دشمن کو قتل کرنے میں مبالغہ اور شدّت کے معنی میں لیا ہے اور کہا ہے کہ اس جملے کا معنی یہ ہے کہ جنگی قیدی بنانے کا عمل دشمن کے بہت سے افراد قتل کرنے کے بعد ہو لیکن ”فِی الْاٴَرْضِ“ (زمین میں) کو نظر میں رکھتے ہوئے اور اس لفظ کی اصل کا لحاظ رکھتے ہوئے کہ جو شدت وسختی کے معنی میں ہے، واضح ہوجاتا ہے کہ اس جملے کا حقیقی معنی یہ نہیں ہے بلکہ اس سے اصل مراد دشمن پر مکمل فوقیت حاصل کرنا، قوت وقدرت کا مظاہرہ کرنا اور اپنے تسلط کو مستحکم بنانا ہے لیکن چونکہ بعض اوقات دشمن کی سرکوبی اور اُسے قتل وغارت کرنا مسلمانوں کے مقام کے استحکام کا سبب بنتا ہے لہٰذا اس جملے کا ایک مصداق خاص حالات میں دشمن کو قتل کرنا بھی ہوسکتا ہے نہ یہ کہ اس جملے کا اصلی مفہوم ہے۔
بہرحال محلِ بحث آیت مسلمانوں کو ایک حساس جنگی نکتے کی طرف متوجہ کرتی ہے اور وہ یہ کہ مسلمان کبھی بھی دشمنوں کی مکمل شکست کے بغیر انھیں قیدی بنانے کی فکر میں نہ پڑیں کیونکہ جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے بعض نئے مسلمان میدانِ بدر میں اس کوشش میں تھے کہ جتنا ممکن ہو دشمنوں کو قید کیا جائے کیونکہ اس زمانے کی جنگوں کے رواج کے مطابق جنگ ختم ہونے پر ایک اہم رقم ”فدیہ“ یا ”خدا“ کے نام پر لے کر انھیں آزاد کردیا جاتا تھا۔
ہوسکتا ہے یہ کام بعض مواقع پر اچھا شمار ہو لیکن دشمن کی شکست کے بارے میں مکمل اطمینان کرلینے سے پہلے یہ کام خطرناک ہے کیونکہ قیدیوں کو پکڑنے اور ان کے ہاتھ باندھنے میں مشغول ہونا اور انھیں کسی مناسب جگہ کی طرف منتقل کرنا بہت سے مواقع پر مجاہدین کو جنگ کے اصل مقصد سے باز رکھتا ہے اور بشا اوقات توزخم خوردہ دشمن کے ئلے راہ ہموار کرتا ہ کہ وہ اپنے حملوں میں شدت پیدا کرے اور مجاہدین کو شکست دے دے جیسا کہ جنگ اُحد کے واقعہ میں غنائم کی جمع آوری نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو اپنی طرف مشغول رکھا اور دشمن نے موقع غنیمت پاکر ان پر کاری اور آخری ضرب لگائی۔
لہٰذا قیدی بنانا صرف اسی صورت میں جائز ہے کہ جب دشمن پر کامیابی کے حصول کے بارے میں کامل اطمینان ہو ورنہ قفاطع، تباہ کن اور پے درپے حملوں سے حملہ آور دشمن کی طاقت کو بیکار جائے، لیکن اطمینان حاصل ہوجانے کے بعد انسانی ہدف ضروری قرار دیتا ہے کہ قتل کرنے سے ہاتھ اٹھا لیا جائے اور انھیں قید کرلینے پر اکتفا کی جائے، یہ دونوں اہم فوجی اور انسانی نکات زیر نظر آیت کی مختصر سی عبارت میں بیان ہوئے ہیں۔
اس کے بعد قرآن اس گروہ کو جس نے اس حکم کے خلاف عمل کیا موردِ ملامت قرار دیتے ہوئے کہتا ہے: تم صرف مادی امور کی فکر میں ہو اور دنیا کی ناپائیدار متاع چاہتے ہو حالانکہ خدا تمھارے لئے عالمِ جاوداں اور دائمی سعادت چاہتا ہے (تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللهُ یُرِیدُ الْآخِرَةَ)۔
”عرض“ کا معنی ہے ”ناپائیدار امور“ اور چونکہ اس دنیا کے مادی سرمائے پائیدار نہیں ہیں لہٰذا انھیں ”عَرَضَ الدُّنْیَا“ کہا جاتا ہے۔
البتہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں جنگی قیدیوں کے مادی پہلووٴں کی طرف توجہ اور اصلی اہداف ومقاصد سے غفلت یعنی دشمن پر کامیابی حاصل کرنا نہ صرف سعادت اور اُخروی جزا پر ضرب لگاتی ہے بلکہ اس جہان کی زندگی، سربلندی، عزت اور آرام کے لئے بھی نقصاندہ ہے، حقیقت میں یہ اصلی مقاصد اس جہان کے پائیدار امور میں شمار ہوتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں وقتی اور جلدی گزر جانے والے منافع کے لئے آئندہ کے لئے دائمی منافع کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ یہ حکم اصل میں عزت وکامیابی اور حکمت وتدبیر کامل ہے چونکہ یہ خدا کی طرف سے صادر ہوتا ہے ”اور خدا عزیز وحکیم ہے (وَاللهُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ)۔
اگلی آیت میں دوبارہ انلوگوں کو سرزنش کرتے ہوئے کہ جو وقتی اور مادی مفادات کے لئے اہم اجتماعی مصالح کو خطرے میں ڈالتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اگر خدا کا فرمان سابق نہ ہوتا تو تمھیں ان قیدیوں کو قیدی بنانے پر بہت بڑی سزا اور عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ( لَوْلَاکِتَابٌ مِنْ اللهِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا اٴَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ)۔ ”لَوْلَاکِتَابٌ مِنْ اللهِ سَبَقَ“ کے بارے میں مفسّرین نے مختلف احتمالات ذکر کئے ہیں لیکن جو چیزی پوری آیت کی تفسیر کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے یہ ہے کہ اگر یہ نہ ہوتا کہ خدا نے پہلے سے مقرر کیا ہوا ہے کہ جب تک کوئی حکم وہ پیغمبر کے ذریعے اپنے بندوں سے بیان نہ کرے انھیں سزا نہیں دے گا، تمھیں اس بناء پر کہ تم مادی منافع کے حصول کے لئے قیدی بنانے کے پیچھے لگ گئے اور لشکرِ اسلام کی حیثیت اور اس کی مکمل کامیابی کو خطرے میں ڈال دیا تو سخت سزا دیتا لیکن جیسا کہ قرآن کی دوسری آیات میں تصریح ہوئی ہے کہ پروردگار کی سنت یہ ہے کہ وہ پہلے احکام بیان کرتا ہے پھر ان احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دیتا ہے مثلاً:
<وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّی نَبْعَثَ رَسُولًا
(بنی اسرائیل/۱۵)

 

چند قابلِ توجہ نکاتچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma