کفر کے گڑھے کے کنارے کھڑے لوگ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 15 - 17 سوره حج / آیه 11 - 14

تفسیر
کفر کے گڑھے کے کنارے کھڑے لوگ


گزشتہ آیتوں میں دو گروہوں کا تذکرہ ہورہا تھا ایک گمراہ کرنے والے لیڈروں کا، دوسرا گمراہ ہونے والے پیروکاروں کا لیکن زیرِ بحث آیتوں میں ایک تیسرے گروہ کا ذکر کیا جارہا ہے، یہ لوگ کمزور ایمان والے ہیں ۔
قرآن مجید اس گروہ کی یوں تعریف کررہا ہے، بعض لوگ صرف زبان سے الله کی عبادت کرتے ہیں جبکہ ان کا دلی ایمان بالکل سطحی اور کمزور درجے کا ہے ۔
(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اللهَ عَلیٰ حَرْفٍ) ۔ ”عَلیٰ حَرْفٍ“سے ہوسکتا ہے یہ مراد ہو کہ ان کا ایمان زبانی کلامی ہے اور دل میں صرف ایمان کی ایک معمولی سی جھلک پائی جاتی ہے، یا اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ وہ دائرہٴ ایمان کے مرکز پر نہیں بلکہ ایک طرف کنارے پر کھڑے ہیں کیونکہ ”حرف“ کا ایک معنی کسی پہاڑی یا گھاٹی کا کنارہ بھی ہوتا ہے، یہ عام مشاہدہ ہے کہ جو کوئی کسی کنارے پر کھڑا ہو، مضبوط نہیں ہوگا، بلکہ معمولی سی حرکت سے لڑھک جائے گا اور راستے سے ہٹ کر گرجائے گا، یہی حال کمزور ایمان والوں کا ہے کہ کسی معمولی سی چیز کے لئے ایمان برباد کردیتے ہیں ۔
ان کے ایمانی تزلزل کی تشریح قرآن مجید یوں بیان کرتا ہے کہ ”اگر دنیاوی منفعت میسر آجائے تو مطمئن اور پرسکون ہوجاتے ہیں اور اسے اسلام کی حقانیت کی دلیل سمجھتے ہیں، لیکن اگر کسی نقصان، کسی نعمت کے چھن جانے یا پریشانی کے ذریعے آزمائش اور امتحان میں مبتلا ہوجائیں تو شدید بے قراری اور اضطراب کا شکار ہوکر کُفر اختیار کرلیتے ہیں ۔
(فَإِنْ اٴَصَابَہُ خَیْرٌ اطْمَاٴَنَّ بِہِ وَإِنْ اٴَصَابَتْہُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلیٰ وَجْھِہِ) (۱) گویا انھوں نے دین وایمان کو مادی مفادات کے حصول کا ذریعہ سمجھ کر قبول کیا تھا کہ اگر ان کا مقصد پُورا ہوا تو دینِ برحق ورنہ باطل وبے بنیاد۔
ابنِ عباس اور دوسرے متقدمین مفسّرین نے اس آیہٴ مجیدہ کی شانِ نزول اس طرح بیان فرمائی ہے کہ بعض اوقات بدوٴں کا گوئی گروہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوتا اور اس کی دلی مراد برآتیں، یعنی ان کے مویشی اچھے بچّے دیتے ان کے اولاد نرینہ ہوتی اور ان کی مال و دولت میں اضافہ ہوتا تو وہ خوش ہوکر اسلام اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے حلقہٴ بگوش عقیدت ہوجاتے، لیکن اگر اس کے برعکس ان کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوتیں، کوئی فرد بیمار پڑجاتا یا مال مویشی میں کوئی نقصان ہوجاتا تو شیطانی وسوسے ان کے دلوں میں گھر کرلیتے اور کہتے کہ ان تمام مصیبتوںکا ذمہ دار یہ دین ہے، جسے تم نے قبول کیا ہے، نتیجةً وہ اس دین سے پھرجاتے ۔(۲)
توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے مادی مفادات کو ”خیر“ سے تعبیر کرتا ہے اور ان مفادات کے حاصل نہ ہونے کہ فتنہ (آزمائش کا ذریعہ) سے ”شر“ سے نہیں، گویا کہ قرآن مجید یہ تصریح فرمارہا ہے کہ دنیاوی ناخوشگوار حادثات شر اور برائی نہیں ہیں، بلکہ آزمائش وامتحان کا ذریعہ ہیں ۔
آیہٴ مجیدہ کے آخر میں یہ فرمارہا ہے ”اس طرح سے وہ دُنیا وآخرت دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں“
(خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةَ) ۔ یہی تو واضح گھاٹا اور نقصان ہے کہ دنیا وآخرت دونوں ہی برباد ہوجائیں ۔ (ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِینُ)
حقیقت یہ ہے کہ تمام مذکورہ بالا قسم کے لوگ دین کو مادی مفادات کی عینک سے دیکھتے ہیں اور مادی مفادات کے حصول کو دین کی حقانیت کی دلیل خیال کرتے ہیں، ایسے لوگ جو آج کل بھی با افراط موجود ہیں اور ہر زمانے میں رہے ہیں، در اصل ایمان کو شرک اور بُت پرستی سے آلودہ کرلیتے ہیں، البتہ ان کا بُت بیوی، مال مویشی یا دیگر مفادات ہیں، ظاہر ہے کہ اس طرح کا ایمان مکڑی کے جالے سے بھی سے زیادہ نازک ہوتا ہے ۔
بعض مفسّرین نے اس آیہٴ مجیدہ سے منافقین مُراد لیے ہیں، ہماری نظر میں اس آیہٴ مجیدہ کے ذیل میں وہ منافقین جن کے دل میں ایمان بالکل نہ ہو شمار نہیں کیے جاسکتے ورنہ مفہوم آیہٴ مجیدہ کے ظاہری معنیٰ کے خلاف ہوجائے گا کیونکہ
”مَنْ یَعْبُدُ اللهَ“ ”اطْمَاٴَنَّ بِہِ“ اور ”انقَلَبَ عَلیٰ وَجْھِہِ“ کے الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ جن لوگوں کا ذکر اس آیت میں ہورہا ہے، ان کے دل میں کمزور ایمان والے منافقین مراد لیے جائیں تو کوئی حرج نہیں، اس کے بعد اس گروہ کے الودہ ایمان خصوصاً توحید وایمان بالله سے روگردانی کے بعد کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہہ رہی ہے: ”وہ خدا کو چھوڑ کر اس کا پکارتے ہیں جو انھیں نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان۔

(یَدْعُوا مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَایَضُرُّہُ وَمَا لَایَنْفَعُہُ) اگر وہ واقعی مفادات مادی کے خواہاں اور نقصانے سے گریزاں ہیں اور ان کی نگاہ میں کِسی دین کی حقانیت کا یہی معیاد ہے تو پھر بتوں کی پرستش کی طرف کیوں مائل ہوجاتے ہیں، کیونکہ بُت تو نہ کسی کو کچھ دے سکتے ہیںاور نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں، کسی بھی صلاحیّت سے عاری بُت انسان کی زندگی کو کِسی طور پر نہیں کرسکتے بیشک یہ بڑی گہری گمراہی ہے ۔
(ذٰلِکَ ھُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیدُ) ان کی گمراہی کا فاصلہ ”راہِ راست“ سے اس قدر زیادہ ہوگیا ہے کہ دوبارہ ہدایت کی امید بہت کم ہوگئی ہے ۔
اس کے بعد اس کی بدتر کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے ”وہ اس کو پکارتے ہیں جس سے فائدے کی نسبت نقصان کی امید زیادہ ہے
(یَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّہُ اٴَقْرَبُ مِنْ نَفْعِہِ) کیونکہ یہ مصنوعی معبود دُنیا میں ان لوگوں کی فکری نہج کو بہت پست کرکے خرافات کی طرف لے جاتے ہیں اور آخرت میں جلانے والی آگ تحفہ دیتے ہیں بلکہ سورہٴ انبیاء کی آیت نمبر ۹۸ کے مصداق۔
<إِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ حَصَبُ جَھَنَّمَ اٴَنْتُمْ لَھَا وَارِدُونَ
”بیشک تم الله کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو جو دوزخ کا ایندھن ہیں اور تم ہی اس میں جانے والے ہو“۔
آیہٴ مجیدہ کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے: ”کیا یہی بُرے سرپرست اور مونس ہیں“
(لَبِئْسَ الْمَوْلَی وَلَبِئْسَ الْعَشِیرُ) ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ گزشتہ آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ بُت نہ کسی کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں اور نہ نفع، مگر بعد کی آیت میں یہ بیان ہُوا ہے کہ ان کا نقصان نفع سے زیادہ قریب سے تو کیا یہ دونوں آیتیں متضاد ہیں؟ اس کا جواب ہم روز مرّہ کی گفتگو میں ڈھونڈ سکتے ہیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی چیز کو ہر قسم کے خواص سے عاری جانتے ہیں اور پھر اس کی اسی جہت کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے، اس کو ضرر و نقصان کا منبع کہہ دیتے ہیں مثلاً ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص سے راہ و رسم نہ بڑھاوٴ کیونکہ وہ نہ دُنیا میں تمھارے کام آسکتا ہے نہ آخرت میں اور پھر اس کی مذموم صفات کو اور بڑھا کرنے کے لئے یوں کہتے ہیں بلکہ وہ تمھاری بدبختی اور ذلّت کا سبب ہے ۔ مزید برآں یہ جو اُن کی طرف کسی کو نقصان نہ پہنچانے کی نسبت دی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کا کچھ بگاڑنے کی صلاحیّت نہیں رکھتے، لیکن جس نقصان کا ذکر ہے وہ ایک فطری اور لازمی نقصان ہے جو ان کی پوچا کرنے والوں کو ہوتا ہے ۔
افعل تفضیل کا صیغہ جیسا کہ
”اقرب“ اس کے بارے میں پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ جن دو چیزوں کے درمیان موازنہ اور مقابلہ کیا جارہا ہے، مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ ترکِ گناہ پر تھوڑی دیر صبر وتحمل کرنا دوزخ کی آگ سے بہتر ہے، تو اس سے ہماری مُراد ہرگز یہ نہیں ہوتی کہ دوزخ کی آگ میں کوئی اچھائی پائی جاتی ہے جس کے مقابلے میں صبر کرنا زیادہ اچھّا ہے، بلکہ یہاں یہ معنی ہے کہ دوزخ کی آگ ہر طرح کی اچھائی سے عاری ہے ۔
اس آیہٴ مجیدہ کی مندرجہ بالا تفسیر جناب طوسی نے ”تبیان“ اور جناب طبرسی نے ”مجمع البیان“ میں بیان فرمائی ہے، البتہ بعض مفسرین مثلاً جناب فخر الدین نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زیرِ بحث دونوں آیتوں میں الگ الگ بُت مراد لیے گئے ہیں، پہلی آیت میں پتھر، لکڑی اور دیگر جمادات کے بے جان اور بے حس بتوں کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں انسان نما طاغوتی بتوں کا ذکر ہے اوّل الذکر بُت کسی قسم کا نقصان یا فائدہ نہیں پہنچا سکتے، جبکہ موٴخر الذکر
”ائمہ ضالّ“ ہونے کے ناتے نقصان تو پہنچا سکتے ہیں، مگر فائدہ نہیں اور بالفرض کوئی چھوٹی موتی خوبی ان میں ہو بھی تو نقصان کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہ ہوگی انھوں نے اپنے خیال کے ثبوت کے طور پر ”لَبِئْسَ الْمَوْلَی وَلَبِئْسَ الْعَشِیرُ“کا جملہ پیش کیا ہے، لہٰذا کوئی تضاد باقی نہیں رہتا ۔(3)
قرآن مجید کا اسلوب بیان یہ ہے کہ اچھے اور بُرے کا موازنہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ نتیجہ نکالنے میں کوئی دشواری نہ ہو، لہٰذا زیر بحث آخری آیت میں ارشاد ہورہا ہے: ”وہ لوگ جو ایمان لائے، جنھوں نے نیک کام کیے، الله ان کو ایسے باغات سے نوازتا ہے، جن کے تلے نہریں بہتی ہیں ۔
(إِنَّ اللهَ یُدْخِلُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِھَا الْاٴَنْھَارُ) ۔ ان کا طرزِ عمل نہایت واضح، ان کے نظریات وافکار اور عملی خطوط متعین ہیں، ان کا سرپرست خود الله ہے اور ان کے ہمدم ومونس، انبیاء، شہداء، صالحین اور فرشتے ہیں ”بیشک الله جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے انجام دیتا ہے“ (إِنَّ اللهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیدُ) ۔ اتنی اعلیٰ اور بڑھیا جزاء اور بدلہ دینا اس کے لئے اتنا ہی آسان ہے، جتنا ضدی اور ہٹ دھرم مشرکین اور ان کے گمراہ سربراہوں کو عبرتناک سزائیں دینا ۔
مندرجہ بالا موازنے میں وہ لوگ جو صرف زبانی کلامی ایمان لاتے ہیں، دراصل دین کے ایک کنارے پر کھڑے ہیں اور معمولی سے وہم اور وسوسے روگرداں ہوجاتے ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ ان کا کوئی نیک عمل بھی نہیں، لیکن صالحین اور مومنین دائرہ اسلام کے مرکز میں واقع ہیں اور کڑی سے کڑی آزمائش بھی ان کو متزلزل نہیں کر سکتی، ان کے ایمانی درخت کی مضبوط جڑیں ہیں اور ان کے اعمال صالح اس کے میٹھے پھلوں کی طرح شاخوں پر عیاں ہیں، زیرِ بحث آیتوں کے مفہوم کا ایک رُخ یہ ہے اور دوسرا یہ کہ گمراہ گروہ کے معبود کسی قسم کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، بلکہ مہلک وضرر رساں ہیں، جبکہ مومنین کا سرپرست صاحبِ قدرت ہے اور ان کے لئے طرح طرح کا دور قسم قسم کی نعمتیں مہیا کرتا ہے ۔


 

 


۱۔ ”انقَلَبَ عَلیٰ وَجْھِہِ“ اگر اس جملے میں ”انقَلَبَ“ سے بازگشت مراد لیں تو اس جملے کا یہ معنی ہوسکتا ہے کہ ایمان کی بالکل مخالف سمت کی طرف منھ کرلیتا ہے، گویا ہمیشہ سے ایمان سے لاتعلق تھا ۔
۲۔ تفسیر خوارزمی، ج۲۳، ص۱۳، اور تفسیر قرطبی، ج۶، ص۴۴۰۹


3۔ البتہ ”المیزان“ کے فاضل موٴلف نے ”یدعو “ سے ”یقول“ مراد لیا ہے، جو آیت کے ظاہری معنیٰ سے بعید ہے ۔
سوره حج / آیه 15 - 17 سوره حج / آیه 11 - 14
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma