قیامت، تمام اختلافات کے خاتمے کا دن

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 18 سوره حج / آیه 15 - 17

شان نزول


مندرجہ بالا آیات میں سے پہلی آیت کی شان نزول بعض مفسرین نے یوں بیان کی ہے: ”بنی اسد“ اور بنی غطفان کہ جن کے ساتھ رسول الله کا ایک معاہدہ تھا، ان کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ ہمیں خدا، محمد کی مدد بند نہ کردے، اس صورت میں ہم اپنے حلیف یہودیوں سے کٹ جائیں گے اور ان سے کھانے پینے کی اشیاء نہیں لے سکیں گے، چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی اور ان تنبیہ کی گئی اور ان کی شدید مذمت کی گئی ۔
بعض دوسرے مفسرین نے شانِ نزول کے ضمن میں یہ کہا ہے کہ مسلمانوں کا گروہ جو کُفّار پر شدّتِ غضب کی بناء پر کسی اقدام کے لئے بے قرار اور بے تاب تھا، یہ کہتا تھا کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی مدد کے سلسلے میں الله کا وعدہ کیوں پُورا نہیں ہورہا؟ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی اور ان کی جلد بازی پر ان کی سرزنش کی گئی ۔(۱)


تفسیر
قیامت، تمام اختلافات کے خاتمے کا دن


گذشتہ آیتوں میں کمزور ایمان والے لوگوں کے بارے میں بات ہورہی تھی، زیرِ بحث آیتوں میں بھی ایک اور رُخ سے انہی کے بارے میں فرمایا جارہا ہے جو شخص اس وہم میں مبتلا ہے کہ الله دنیا وآخرت میں اپنے پیغمبر کی مدد نہیں کرے گا اور غیظ وغضب میں پیچ وتاب کھارہا ہے، اس سے جو بن پڑے کر گزرے چاہے اپنے گھر کی چھت سے رسہ باندھر کر اس سے لٹک جائے، اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے اور موت کی وادی میں جاپہنچے اور دیکھ لے، کیا اس طرح کا کلیجہ ٹھنڈا ہوتا ہے ۔
(مَنْ کَانَ یَظُنُّ اٴَنْ لَنْ یَنصُرَہُ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ لِیَقْطَعْ فَلْیَنظُرْ ھَلْ یُذْھِبَنَّ کَیْدُہُ مَا یَغِیظُ) اس تفسیر کو عظیم مفسرین نے ایک قابلِ توجہ احتمال کے طور پر پیش کیا ہے ۔(۲)

اس تفسیر کے مطابق
”لَنْ یَنصُرَہُ اللهُ“ کی ضمیر پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی طرف پلٹتی ہے اور ”سماء“ سے مراد گھر چھت ہے (کیونکہ ”سماء“ لفظ ہر اس چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے جو اُوپر کی طرف ہو) ”لیقطع“ دم گھٹنے، سانس بند ہونے اور موت کی حالت تک پہنچ جانے کے معنی میں ہے، اس کے علاوہ کئی اور احتمالات بھی ہیں، مگر ان سب کا ذکر ضروری نہیں، صرف دو قابل ملاحظہ ہیں ۔
۱۔ (سماء) سے مراد آسمان ہے، وہ لوگ جن کا خیال ہے کہ الله اپنے پیغمبر کی مدد نہیں کرے گا، وہ آسمان کی طرف جائیں ۔ یعنی آسمان پر چڑھ جائیں، اس میں ایک رسی لٹکائیں اور اس کا پھندا بناکر زمین و آسمان کے درمیان پھانسی پالیں تاکہ ان دم گھٹ جائے (یا لٹک کر خود رسی کو کاٹ لیں تاکہ دھڑام زمین پر آرہیں) پھر دیکھو ان کو کچھ سکون میسر آتا ہے؟
۲۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ مذکورہ ضمیر پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی بجائے خود ان اشخاص کی طرف پلٹتی ہے، یعنی ان کی طرف جو اس بدگمانی کا شکار ہیں اس طرح زیرِ بحث آیت کامعنیٰ یہ ہوگا کہ ”وہ افراد جن کا یہ خیال ہے کہ خدا کی مدد نہیں کرتا اور ان کے ایمان کی وجہ سے روزی بند ہوجاتی ہے، جو کچھ ان سے ہوسکتا ہے کرلیں، آسمان کی طرف چلے آئیںاور اپنے آپ کو ایک رسّی سے لٹکائیں پھر اسی رسی کو کاٹ کر گریں تو کیا یوں ان کا غصّہ ٹھنڈا ہوگا“ قابل توجہ بات یہ ہے کہ تمام مفسرین نے کم حوصلہ، زود رنج اور کمزور ایمان والے اشخاص کے بارے میں نفسیاتی لحاظ سے روشنی ڈالی ہے کہ جس وقت ان کی حالت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ ان کو آگے راہ نہ ملے تو وہ گھبرا کر جنونی حرکتیں کرنے لگتے ہیں، کبھی دیواروں پر مُکّے برساتے ہیں، تو کبھی یہ چاہتے ہیں کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں، آخرکار اپنے قہر وغضب کو ختم کرنے کے لئے خودکشی پر آمادہ ہوجاتے ہیں، جبکہ ان میں سے کوئی بھی حرکت ان کی مشکل حل نہیں ہوسکتی، اس کے برعکس اگر وہ صبر وتحمل سے کام لیں، الله پر بھروسہ رکھیں، خود اعتمادی پیدا کریں اور مسائل کا مقابلہ استقامت سے کریں تو مسائل کا حل یقیناً ممکن ہے اس کے بعد کی آیت گزشتہ تمام آیتوں کا مفہوم سمیٹے ہوئے بیان کرتی ہے، اس طرح ہم نے قرآن کو کُھلی نشانیوں کی صورت میں نازل کیا ہے
(وَکَذٰلِکَ اٴَنزَلْنَاہُ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ) ۔ معاد اور قیامت کے وجود کے ضمن میں دلائل دیتے ہوئے، انسان کا جنینی دور نباتات کی نمو، بالیدگی اور مردہ زمینوں کی سرسبزی وشادابی کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ بتول کی نااہلی کے دلائل ہیں اور آخر میں ان لوگوں کے بارے میں بیان ہے جو دین کو مادی مفادات کا ذریعہ سمجھے ہوئے ہیں، اس کے بعد آیت آخر میں بیان کرتی ہے اس سب کچھ کے باوجود صرف واضح اور کھُلی نشانیاں ہی کافی نہیں ہیں، بلکہ قبول حق کے لئے ذہنی آمادگی کی ضرورت ہے ۔
”اور الله جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے“
(وَاٴَنَّ اللهَ یَھْدِی مَنْ یُرِیدُ)
ہم نے اکثر کہا ہے کہ الله ارادہ اور خواہش بغیر کسی وجہ کے نہیں ہوا کرتی، وہ حکیم ومدبر ہے اور اس کے تمام اقدامات کسی خاص قانون کے تحت ہوتے ہیں، جو شخص اس کی راہ میں جہاد کے لئے اٹھ کھڑا ہو اور دل سے ہدایت کا خواہاں ہو تو وہ اس کی واضح راہنمائی کرتاہے ۔(3)

زیر بحث آخری آیت چھ مختلف مذاہب کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جن میں ایک مسلمان اور مومن ہیں: صاحبانِ ایمان اور یہودیوں، صائبیوں، عیسائیوں، مجوسیوں اور مشرکوں کے درمیان، قیامت کے دن، الله فیصلہ فرمائے گا اور حق کو باطل سے الگ کرے کر دکھائے گا ۔
(إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ ھَادُوا وَالصَّابِئِینَ وَالنَّصَاریٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِینَ اٴَشْرَکُوا إِنَّ اللهَ یَفْصِلُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ) ۔
قیامت کے دن جتنے نام آئے ہیں ان میں ”یوم فصل“ یعنی حق کو باطل سے الگ کرنے کا دن ”یوم البروز“ چھپے ہوئے حقائق سے آشکار ہوجانے کا دن اور اختلافات مکمل طور پر ختم ہوجانے کا دن بھی ہیں، ضرور بالضرور اس دن تمام اختلافات کو مٹادے گا کیونکہ وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے
(إِنَّ اللهَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَھِیدٌ) ۔


چند اہم نکات
۱۔ آیتوں کا ایک دوسرے سے تعلق


اس آیہٴ مجیدہ کا تعلق پچھلی آیت سے اس طرح ہے کہ پچھلی آیہٴ میں ہدایت چاہنے والوں کی ہدایت کا ذکر تھا، چونکہ ہر دل ہدایت پسند نہیں ہوا کرتا اور تعصّب ہٹ دھرمی اور اندھی تقلید ہدایت حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں لہٰذا فرمایا گیا ہے کہ یہ دھڑے بندیاں اختلافات قیامت تک باقی رہیں ہے، صرف اس دن تمام چھپے ہوئے حقائق واضح ہوں گے اور اختلافات ختم ہوجائیں گے، علاوہ بر ایں پہلی آیتوں میں تین قسم کے لوگوں کے بارے میں بات ہورہی تھی، ایک وہ جو بلا کسی دلیل وثبوت کے خدا اور قیامت پر بحث کرتے ہیں، دوسرے وہ جو دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں اور تیسرے کمزور ایمان والے جو ہوا کے رُخ پر اُڑنے والے ہیں، کبھی اُدھر ہوجاتے ہیں، اس آیت میں صاحبانِ ایمان کے مقابلے میں آنے والے گروہوں میں سے بعض نمونے کے طور پر بیان کئے گئے ہیں اس سے قطع نظر گذشتہ آیتوں میں قیامت کے اغراض ومقاصد کے بارے میں گفتگو تھی جبکہ یہ آیہ کہتی ہے قیامت کا ایک مقصد اختلافات کو مکمل ختم کرکے یگانگت کو معرض وجود میں لانا ہے ۔


۲۔ مجوسی کون ہیں؟


سارے قرآن مجید میں صرف اس آیہٴ میں
”مجوس“ آیا ہے، اس لحاظ سے کہ مجوسیوں کو مشرکین کسی نبی کی امت اور کسب کے پیرو تھے البتہ آج کل زردتشت کی تاریخ میں مجوسیوں کا کوئی ذکر نہیں اور مورخین نے زرتشت کو حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کے گیارہ یا چھ سات صدیاں پہلے لکھا ہے (اعلام القرآن، ص۵۰۰) اس حیران کن اختلاف سے ظاہر ہے کہ زرتشتی تاریخ کس قدر مبہم ہے، مشہور یہ ہے کہ زرتشت ”اوستا“ نامی کتاب رکھتا تھا جو ایران پر سکندرِ اعظم کے قبضے کے وقت ناپید ہوگئی اور ساسانی بادشاہوں کے زمانے میں دوبارہ لکھی گئی ۔(4) زرتشتوں کے نظریات کے بارے میں بھی خاص معلومات نہیں ملتیں البتہ دو مبداء (خیر وشر یا نور وظلمت) کا عقیدہ مشہور ہے، بھلائی اور نور کے خدا ”اہوزامزدا“ اور برائی اور ظلمت کے خدا ”اھریمن“ کہتے ہیں، ہوا ، پانی، مٹی اور آگ چار عناصر کا احترام کرتے ہیں، آگ سے خاص لگاوٴ رکھتے ہیں، جہاں بھی ہوں، چھوٹا موٹا آتشداں ضرور بنالیتے اس لئے ان کو آتش پرست بھی کہتے ہیں ۔

بعض لفظ
”مجوس“ کو جو اس مذہب کے علماء اور پیشواوٴں کے لئے بولا جاتا ہے ”مغ“ سے مشتق سمجھتے ہیں اور لفظ ”موٴبد“ جو آج کل ان کے علماء کے لئے مستعمل ہے در اصل ”مغود“ سے ہی ہے، اسلامی روایات میں انھیں کسی نبی(علیه السلام) کی امّت قرار دیا گیا ہے، بعد میں یہ لوگ بھٹک کر شرک آمیز نظریات اپنا بیٹھے، ایک روایت ہے کہ مکہ کے بعض مشرکین نے رسول الله سے عرض کیا کہ آپ تو ”ھجر“ کے باسی مجوسیوں سے بھی جزیہ لیتے ہیں، تب آپ نے فرمایا:
”ان المجوس کان لھم نبی فقتلوہ وکتاب احرقوہ“
”مجوسی ایک نبی کی امّت تھے جسے انھوں نے قتل کردیا اور ایک کتاب رکھتے تھے جسے انھوں نے جلا ڈالا“۔(5)
”اصبغ بن نباتہ“ سے ایک اور روایت ہے کہ حضرت امیر(علیه السلام) نے ایک دفعہ بر سر منبر فرمایا:
”سلونی قبل اٴن تفقدونی“
”اپنے درمیان مجھے نہ پانے سے پہلے مجھ سے جو چاہو پوچھ لو“
مشہور زمانہ منافق اشعث بن قیس کھڑا ہوا اور پوچھا: یا امیرالمومنین! مجوسیوں سے جزیہ کس طرح لیا جاسکتا ہے جبکہ نہ وہ کسی نبی کی امت میں ہیں، نہ کسی کتاب کے پیرو؟
آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”قد انزل الله الیھم کتاباً وبعث الیھم نبیاً“
”الله نے ان پر ایک کتاب نازل کی تھی اور ایک نبی ان کی طرف بھیجا تھا“۔(6)
امام سجاد، علی بن الحسین علیہما السلام نے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”سنوا بھم سنة اھل الکتاب، یعنی المجوس“
”مجوسیوں سے اہل کتاب کا سا برتاوٴ کیا کرو“(7)
یاد رہے کہ مجوسی کی جمع مجُوس ہے ۔


۳۔ صائبین کون ہیں؟


مذکورہ بالا آیت سے اجمالی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صائبین بھی کسی آسمانی دین کے پیرو تھے، خصوصاً جبکہ ان کا ذکر یہود ونصاریٰ کے درمیان کیا گیا ہے، بعض مفسرین انھیں حضرت یحییٰ بن زکریا(علیه السلام) جنھیں عیسائی یحییٰ تعمید دھندہ کہتے ہیں کے پیرو سمجھتے ہیں، دوسرے مفسرین کے مطابق صائبین وہ لوگ ہیں جنھوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے نظریات کو مخلوط کرکے ایک نیا مذہب بنالیا ہے، لہٰذا یہ لوگ دونوں کے درمیان واسطہ سمجھے جاتے ہیں ۔

”صائبین“ بہتے پانی سے خاص عقیدت رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی زیادہ تر آبادیاں بڑے بڑے دریاوٴں کے کنارے واقع ہیں، بعض مفسرین نے ان پر ستارہ پرست ہونے کا الزام بھی لگایا ہے، اگرچہ مذکورہ بالا آیہٴ مجیدہ اس پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ ان کا ذکر مشرکین کی صف میںنہیں کیا گیا (مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ کی پہلی جلد سورہٴ بقرہ کی آیت نمبر۶۲ کی تشریح سے رجوع کیجئے ۔


۴۔ توحید سے انحراف کرنے والے گروہوں کی ترتیب


مذکورہ بالا آیت میں تحریف شدہ پانچ مذاہب کا ذکر کیا گیا ہے ان کی ترتیب غالباً توحید سے درجہٴ انحراف کے مطابق ہے، مسلمانوں کے بعد سب سے پہلے یہودیوں کا ذکر کیا گیا ہے، کیونکہ توحید سے ان کا انحراف کچھ کم درجے کا ہے ۔ اس کے بعد صائبین کا ذکر ہے جو عقائد کے اعتبار سے یہودیوں اور نصاریٰ کے درمیان ہیں اس لئے دوسرے نمبر پر ہیں، تیسرے نمبر پر تثلیث کے قائل نصاریٰ کا ذکر ہے، ان کے بعد سارے عالم کوو خیر وشر کے دو حصّوں میں تقسیم کرنے والے اور ہر شعبے کے لئے دو مبداء کے قائل مجوسی ہیں، آخر میں بت پرست اور مشرکین جو توحید کے بالکل برعکس ہیں کا ذکر کیا گیا ہے ۔
 

 


۱۔ ابوالفتوح رازی اور فخر الدین رازی کی تفاسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
۲۔ تفسیر مجمع البیان، تبیان، فخر الدین رازی، ابوالفتوح رازی، صافی، قرطبی اور المیزان ملاحظہ فرمائیں ۔
3۔ ”اٴَنَّ اللهَ یَھْدِی مَنْ یُرِیدُ“اس جملے کے بارے میں مشہور یہی ہے کہ اس میں مبتداء محذوف ہے اور دراصل یہ جملہ یوں ہے: ”الاٴمر ان الله یھدی من یرید“ دوسرا احتمال یہ ہے کہ ”انّ“ (الف پر زبر اور زیر دونوں) کے معنی میں ہو اور درمیان میں کوئی لفظ محذوف ہو۔
4۔ تفسیر المیزان، ج۱۴، ص۳۹۲
5۔ 6، 7۔ وسائل الشیعہ: ج۱۱، ابواب جہاد العدد، باب ۴۹، ص۹۶

سوره حج / آیه 18 سوره حج / آیه 15 - 17
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma