یہ سب چیزیں سجدہ کس طرح کرتی ہیں؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 19 - 24 سوره حج / آیه 18

تفسیر
عالم کی تمام موجودات اس کی بارگاہ میں سر بسجود ہیں


گزشتہ آیتیں مبداء ومعاد کے بارے میں زیر بحث آیت اسی مضمون کی تکمیل کرتے ہوئے مسئلہ توحید اور خدا شناسی کو پیش کردیتی ہے، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو مخاطب کرکے کہا جارہا ہے: کیا تو نہیں دیکھتا کہ آسمانوں پر رہنے والے اور وہ جو روئے زمین پر ہیں سب کے سب الله کی بارگاہ میں سر بسجود ہیں اور سورج چاند ستارے پہاڑ،درخت اور چلنے پھرنے والے جانور بھی
(اٴَلَمْ تَریٰ اٴَنَّ اللهَ یَسْجُدُ لَہُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ) ۔
اور بہت سے لوگ بھی سجدہ کرتے ہیں جبکہ دوسرے بہت سے انکار کرتے ہیں اور مستور جب عذاب ٹھہرتے ہیں
(وَکَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ وَکَثِیرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ) ۔ اس کے بعد کہا جارہا ہے: ”یہ لوگ خدا کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور جو خدا کے حضور بے وقعت ہو اس کی کوئی توقیر نہیں کرتا اور وہ سعادت وثواب سے بہرور نہیں ہوتا (وَمَنْ یُھِنْ اللهُ فَمَا لَہُ مِنْ مُکْرِمٍ) ۔ ”بیشک خدا جس کام کو قرین مصلحت سمجھتا ہے انجام دیتا ہے“ صاحبانِ ایمان کو باعزت واحترام اور منکرین کو ذلیل وخوار کرتا ہے (إِنَّ اللهَ یَفْعَلُ مَا یَشَاءُ)


چنداہم نکات
۱۔یہ سب چیزیں سجدہ کس طرح کرتی ہیں؟


قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں تمام موجودات کے سجدہ کرنے، تسبیح وتقدیس کرنے، حمد بیان کرنے اور نماز پڑھنے کا ذکر ملتا ہے، یہ واضح کیا گیا ہے کہ مذکورہ بالا چار عبادتیں صرف انسانوں ہی سے مخصوص نہیں بلکہ جمادات تک اس میں شریک ہیں، اگرچہ سورہٴ رعد (دسویں جلد) اور سورہٴ اسراء (بارہویں جلد) میں علی الترتیب آیت ۵ اور ۴۴ کی تشریح کرتے ہوئے ہم نے اسی موضوع پر کسی قدر بحث کی ہے لیکن یہاں بھی اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر کچھ اشارے کرنا چاہتے ہیں، زیر بحث آیت میں جس سجدے کا ذکر ہے اس کی دو قسمیں ہیں یعنی عالم موجودات کی تمام چیزیں یا سجدہٴ تکوینی کرتی ہیں یا سجدہٴ تشریعی فطرت اور عالم اسباب کے قوانین کے تحت ہر ایک شے کسی شرط کے کمال خضوع وخشوع کے ساتھ تسلیم حق رہتے ہوئے اپنے کام میں سجدہٴ تکوینی ہے، کائنات کا ایک ذرّہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں حتّیٰ کہ بڑے بڑے نافرمانوں نمرود اور فرعون کے دماغوں کے خلیے اور ان کے جسموں کے تمام ذرات بھی یہ سجدہ کرتے رہے ہیں ۔
محققین کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ کائنات کے تمام ذرّات ایک قسم کا ادراک وشعور رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے زبانِ حال سے الله کی حمد وتسبیح بجالاتے ہیں، اور یہی ان کا سجدہ اور نماز ہے (اسی مفہوم کو ہم نے سورہٴ اسراء کی آیت نمبر ۴۴ کی تشریح کے ذیل میں بیان کیا ہے) اور اگر ذرّات کا شعور تسلیم نہ کیا جائے تو ذرّات کا عالمِ ہستی کے خاص نظام کے تحت محو کار رہنا کسی طور پر قابلِ انکار نہیں ہے، البتہ سجدہٴ تشریعی ذوالعقول کی طرف سے معرفت وشعور کے ساتھ بارگاہ ربُ العزّت میں سجدہ ریز ہونے کو کہتے ہیں ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان بھی اسی کائنات میں سے ہے اور جبکہ مذکورہ بالا آیت میں تمام کائنات کے سجدے کا ذکر ہوا تو انسان بھی اس میں آگیا، پھر انسان کا ذکر الگ سے کیوں کیا گیا؟
تھوڑی سی توجہ کرنے سے جواب بالکل واضح ہوجاتا ہے، وہ اس طرح کہ اس آیت میں لفظ
”سجدہ“ ”تشریعی وتکوینی“ دونوں قسم کے سجدوں کو دامن میں لئے ہوئے ہے، چنانچہ سورج، چاند ستارے، پہاڑ درخت اور جانوروں کے لئے تکوینی، لیکن انسان کے لئے تشریعی مراد لیا گیا ہے، جسے بہت سے لوگ بجالاتے ہیں، جبکہ بعض لوگ روگردانی بھی کرتے ہیں، اور ”کَثِیرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ“ کا مصداق بنتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ایک لفظ کا جامع اور وسیع مفہوم میں استعمال اس کے کئی ایک مصادیق کے ہوتے ہوئے بھی کسی خلل کا سبب نہیں ہوتا، یہ اصول تو انھوں نے بھی مانا ہے جو کسی مشترک کا متعدد معانی میں استعمال صحیح نہیں سمجھتے چہ جائیکہ جو صحیح سمجھتے ہوں (غور کیجئے گا) ۔


۲۔ کیا فرشتوں کا سجدہ ”تشریعی“ ہے؟


بیشک
(یَسْجُدُ لَہُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ) کے جملے میں فرشتے بھی شامل ہیں، لیکن ان کا سجدہ کونسا ہے ”تکوینی“ یا ”تشریعی“؟ اگر فرشتوں کی عقل وشعور اور صاحب ارادہ ہونے کو مدّنظر رکھا جائے تو ان کا سجدہ ”تشریعی“ نظر آتا ہے یعنی ارادہ اور اختیار کے ساتھ باخضوع وخشوع بطور عبادت انجام پاتا ہے، سورہٴ تحریم آیت۶ میں ارشاد ہوتا ہے:
<لایعصون الله ما امرھم ویفعلون مایوٴمرون
”الله کے کسی حُکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم دیا جاتا ہے بجالاتے ہیں“


۳۔ چند سوالات اور ان کے جوابات


۱۔
”مَنْ فِی الْاٴَرْضِ“ کے جُملے کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہاجاسکتا ہے کہ کیوں آیا ہے، اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ ”کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ“ کا جملہ ”مَنْ فِی الْاٴَرْضِ“ کے جملہ کی وضاحت کے لئے آیا ہے، یعنی زمین پر رہنے والے دو گروہ ہیں، ایک الله تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکنے والا مومنین کا گروہ، دوسرا باغی کافروں کا گروہ، بعض مفسرین نے ایک اور خیال کا اظہار کیا ہے، وہ یہ کہ ”مَنْ فِی الْاٴَرْضِ“ کا جملہ جو عمومی حیثیت رکھتا ہے ”سجود تکوینی“ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس میں تمام انسان حتّیٰ کہ کافروں کے وجود کا ایک ایک جز بھی شامل ہے، جبکہ ”کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ“ کا جملہ صرف ”سجود تشریعی“ کی طرف اشارہ ہے، جس کے لحاظ سے ان کا عنل مختلف ہے ۔
ایک احتمال اور بھی ہے کہ
”مَنْ فِی الْاٴَرْضِ“ در اصل زمین پر رہنے والے فرشتوں کے لئے آیا ہے، جس طرح ”مَنْ فِی السَّمَاءِ “ آسمان پر رہنے والے فرشتوں کے لئے ہے اور ”کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ“ زمین پر بسنے والے انسانوں کے لئے آیا ہے ۔
۲۔ زیرِ بحث آیت میں آسمان وزمین پر بسنے والوں کا ذکر ہے، خود آسمان وزمین کا کیوں نہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ
”نجوم“ کے ذکر سے خود آسمان کا ذکر کیا گیا ہے اور ”جبال“ جو زمین کا ایک اہم حصّہ ہے، کے ذکر سے زمین کا ذکر کیا گیا ہے ۔
۳۔ آخری سوال یہ ہے کہ آیت کے شروع میں
”الم تر“ (کیا تو دیکھتا نہیں) کیوں فرمایا گیا ہے، حالانکہ موجودات عالم کا تکوینی سجدہ آنکھ سے دیکھا نہیں جاسکتا ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عربی زبان میں
”روٴیت“ ”علم“ کے معنی میں بھی کرتا ہے، اس کے علاوہ کبھی کبھی بہت ہی واضح حقائق کو مشاہدے کے ذیل میں ذکر کیا گیا ہے، مثلاً کیا آپ دیکھتے نہیں کہ فلاں شخص زیادہ حاسد اور بخیل ہے یا فلاں شخص عالم اور عادل ہے، حالانکہ حسد، بخل علم اور عدل ایسی صفات نہیں ہیں کہ جو دیکھی جاسکیں دراصل یہاں ان الفاظ سے مراد علم ویقین کا ادراک ہے ۔

سوره حج / آیه 19 - 24 سوره حج / آیه 18
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma