دو مدّمقابل گروہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 25 سوره حج / آیه 19 - 24

شان نزول


شیعہ اور سنی مفسرین میں سے بعض نے مذکورہ بالا آیات میں پہلی آیت کی شان نزول یوں نقل کی ہے: جنگِ بدر میں مُسلمانوں کی طرف سے جناب امیر حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب میدان کارزار میں نکلے اور ولید بن عتبہ، عتبہ بن ربیع اور شیبہ بن ربیعہ کو قتل کیا، تو یہ آیت نازل ہوئی اور مجاہدین کا یہ واقعہ بیان کیا، ابوذرغفّاری قسم کھایا کرتے تھے کہ یہ آیت ان جوانمردوں کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔(۱)
لیکن متعدد بار اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ کسی آیت کا کسی ذات کے ساتھ مخصوص ہونا اس کے عمومی مفہوم پر اثر انداز نہیں ہوتا ۔



تفسیر
دو مدّمقابل گروہ


گزشتہ آیتوں میں مومنین سے ایک گروہ اور کفار کے مختلف گروہوں کا ذکر کیا جاچکا ہے، اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ مومنین اور غیر مومنین اپنے پروردگار کے بارے میں جھگڑا کررہے ہیں ۔
(ھٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّھِمْ)(2)
کفار کے پانچ گروہ ایک طرف اور مومنین کا دوسری طرف اگر بغور سوچیں تو معلوم ہوگا کہ تمام ادیان میں اختلاف کی بنیاد پروردگار کی ذات وصفات پر ہی ہے نتیجةً اختلافات نبوت اور معاد وقیامت تک بڑھ جاتے ہیں، لہٰذا ہمیں کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم یہاں لفظ ”دین“ کو مقدر مانیں اور کہیں کہ ان کہ جھگڑا اپنے پروردگار کے دین کے بارے میں ہے، واقعہ یہ ہے کہ تمام تر اختلاف کی جڑ اور بنیاد توحید میں اختلاف ہے اور اصل میں تمام مسخ شدہ اور تحریف شدہ باطل ادیان کسی نہ کسی کے ”شرک“ میں مبتلا ہیں، جس کے آثار ان کے تمام تر عقائد سے ظاہر ہوتے ہیں ۔
اس کے بعد کی آیت میں کفار کے لئے چھ قسم کی سزاوٴں کا ذکر ہے، وہ کفار جو جان بوجھ کر دیدہ ودانستہ حق کا انکار کرتے ہیں سب سے پہلے ان کے کپڑوں اور لباس کا ذکر ہے، ارشاد ہوتا ہے کہ ان کے کپڑے آگ سے تیار کئے جائیں گے
(فَالَّذِینَ کَفَرُوا قُطِّعَتْ لَھُمْ ثِیَابٌ مِنْ نَارٍ) ۔ ہوسکتا ہے اس سے مراد یہ ہو کہ واقعی آگ کے ٹکڑے الگ کرکے لباس کی طرح سیئے جائیں گے یا اس سے مراد ہو کہ آگ ان کو چاروں طرف سے لباس کی طرح گھیر لے گی ۔
اس کے بعد ”حمیم“ کا ذکر ہے یعنی دوزخ کا کھولتا ہوا مائع ان کے سروں پر انڈیلا جائے گا ۔
(یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُئُوسِھِمْ الْحَمِیمُ) ۔(3)
یہ حمیم ان کے بدن کے ظاہر وباطن کو اس طرح متاٴثر کرے گا کہ یہ ان کے اندر کو بھی پگھلادے گا اور باہر کو بھی
(یُصْھَرُ بِہِ مَا فِی بُطُونِھِمْ وَالْجُلُودُ) ۔(4)

تیسرا یہ کہ جلانے والے آہنی تازیانے یا گرز ان کے لئے تیار ہیں ۔
( وَلَھُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِیدٍ)(5)
چوتھی سزا ان کی یہ ہوگی کہ جب کبھی وہ تکالیف سے تنگ آکر دوزخ سے نکلنے کی کوشش کریں گے، فوراً ان کو وہیں لوٹا دیا جائے گا اور یوں مخاطب کیا جائے گا کہ جلادینے والا عذاب چکھو
(کُلَّمَا اٴَرَادُوا اٴَنْ یَخْرُجُوا مِنْھَا مِنْ غَمٍّ اٴُعِیدُوا فِیھَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ) ۔
اس کے بعد والی آیت میں موازنہ کرتے ہوئے صالحین اور مومنین کی خوشحالی کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ دونوں گروہوں کی کیفیت کی تشخیص میں آسانی ہوسکے، مومنین کی جزا کے بھی پانچ درجات بیان کئے گئے ہیں ۔
۱۔ پہلے ارشاد ہوا ہے: ”الله صاحبان ایمان اور اعمال صالح کرنے والوں کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے درختوں کے نیچے نہریں بہتی ہیں
(إِنَّ اللهَ یُدْخِلُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِھَا الْاٴَنْھَارُ) گویا کفار کو آگ میں جلائے جانے کے مقابلے میں مومنین نہروں والے باغوں میں آرام وسکون میں ہوں گے ۔
۲۔ مومنین کے لباس اور زیب وزینت کی کیفیت یوں بیان کی گئی ہے کہ سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے جڑے ہوں گے اور ریشمی پوشاکیں زیب تن کئے ہوں گے
(یُحَلَّوْنَ فِیھَا مِنْ اٴَسَاوِرَ مِنْ ذَھَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُھُمْ فِیھَا حَرِیرٌ) ۔(6)
۳۔ اس طرح مومنین جنّت میں بہترین لباس زیب تن کئے ہوئے ہوں گے اور ان کے ہاتھوں میں جڑاء کنگن ہوں گے جس سے اس دنیا میں ممانعت تھی کیونکہ دنیا میں ایسے لباس اور آرائش غرور وغفلت کا باعث بنتے ہیں، علاوہ ازیں دیگر عوام کی محرومیت کا باعث بنتے ہیں لیکن جنّت میں تو یہ مسائل ہی نہیں، لہٰذا پابندیاں اٹھادی جائیں گی اور دنیا میں ممانعت کی تلافی کردی جائے گی ۔
البتہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اُس جہاں کی ماہیت وکیفیت اس دنیا سے بالکل الگ ہے، لہٰذا جس کیفیت کو ہم نے مروجہ الفاظ سے بیان کیا ہے اور دنیوی الفاظ استعمال کرکے جو معانی ہمارے ذہنوں میں اُبھرتے ہیں وہاں اس سے کہیں ارفع واعلیٰ حقائق ومصادیق موجود ہوں گے ۔
۴، ۵۔ مومن کی چوتھی اور پانچویں جزا اور نعمتیں خالصتاً معنوی ہیں، ارشاد ہوتا ہے، انھیں پاکیزہ باتوں کی طرف رہنمائی کی جائے گی
(وَھُدُوا إِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ) یعنی ایسی روح پرور اور نشاط آفرین جو صاف سُتھرے الفاظ اور پُرمغز معنیٰ پر مشتمل ہو اور رُوح کو مدارج کمال کی طرف ان کی ہدایت کی جائے گی (وَھُدُوا إِلَی صِرَاطِ الْحَمِیدِ)(7) یعنی خدا شانسی کی راہ، قرب پروردگار عالم کی راہ عشق وعرفان کی راہ، بیشک الله مومنین کو ان مفاہیم کی طرف ہدایت کرکے روحانی لذّت کے آخری درجہ تک لے جاتا ہے ۔

ایک مشہور مفسّر علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ
”طیّب من القول“ سے مراد توحید اور اخلاص ہے اور ”صراط الحمید“ سے مراد ولایت اور الله کے مقرر کرئہ رہبروں کی قیادت کو قبول کرنا ہے، ہماری نظر می یہ حدیث زیرِ بحث آیت کا بہترین مصداق ہے ۔
مذکورہ بالا آیتوں کی شان نزول اور مختلف تفاسیر وتعبیرات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ تکلیف دہ اور اذیّت ناک شدید عذاب کفار کے اس گروہ کے لئے ہے جو الله کے بارے میں جھگڑتے ہیں، اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں، کفار کے ان سرغنوں اور سرداروں میں سے کچھ ان لوگوں کی طرح ہیں جو میدانِ بدر میں جناب امیر(علیه السلام)، حضرت حمزہۻ اور حضرت عبیدہ بن حارث کے مقابلے میں نکلے تھے ۔

 

 


۱۔ طبرسی نے مجمع البیان، فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر، آلوسی نے روح المعانی، سیوطی نے اسباب النزول اور قرطبی نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے ۔
2۔ ”خصمان“ میں تثنیہ ہے مگر ”اختصمو“ جو ”خصمان“ کا فعل ہے، جمع ہے، یہ اس لئے ہے کہ مخالف دو اشخاص نہیں بلکہ دو گروہ ہیں، مزید برآں کہ یہ دو مخالف گروہ صرف دو معنوں میں نہیں ہیں بلکہ چند معنوں میں ہیں، ہر گروہ باقیوں سے پیکار کے لئے کھڑا ہوتا ہے ۔
3۔ ”حمیم“ یعنی گرم اور جلادینے والا پانی ۔
4۔ ”یصھر، صھر“ (بروزن قہر) کے مادہ سے ہے، اس کا معنی چربی پگھلانے کے ہیں البتہ ”صھر“ بروزن ”فکر“ دولھا کے معنی میں ہے ۔

5۔ ”مقامع“ ”مقمع“ بروزن منبر کی جمع ہے، اس کا معنی ہے آہنی گرز اور کوڑا، جو کسی کو روکنے یا سزا دینے کے لئے مارا جاتا ہے ۔
6۔ ”اساروا“ ”اسورة“ (بروزن مشورہ) کی جمع ہے اور یہ بھی ”سوار“ (بروزن کتاب) کی جمع ہے، اس کا معنی ذست بند یا کنگن کے ہیں، ”سوار“ فارسی کے لفظ ”دستوار“ سے عربی میں منتقل ہوا ہے اور عربی میں اس کی یہ صورت ہوگئی ہے ۔
7۔ لفظ ”حمید“ ”محمود“ کے معنی میں اس شخص کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو قابل ستائش ہو، یہاں الله مراد ہے، اس بناپر ”صراط الحمید“ یعنی وہ راہ جو الله تعالیٰ کے قرب اور خوشنودی کے مقام کی جاتی ہو، البتہ آلوسی نے ”روح المعانی“ میں بیان کیا ہے کہ یہاں ”حمید صراط“ کی صفت بیانیہ ہے، اس صورت میں معنیٰ یہ ہوگا کہ قابل تعریف راستے کی طرف رہنمائی کی جائے گی، لیکن ہماری نظر میں پہلا مطلب زیادہ صحیح ہے ۔
سوره حج / آیه 25 سوره حج / آیه 19 - 24
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma