بُردبار لوگوں کے لئے بشارت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 36 - 38 سوره حج / آیه 34 - 35

تفسیر
بُردبار لوگوں کے لئے بشارت


گذشتہ آیتوں کے حوالے سے منجملہ قربانی کے مضمون سے شاید یہ سوال پیدا ہو کہ اسلامی شریعت میں یہ کیسی عبادت ہے کہ خداوند قدّوس کی خوشنودی اور رضا کے حصول کے لئے جانوروں کی قربانی دی جائے، آیا خداکو قربانی کی ضرورت ہے؟ آیا یہ حکم دوسرے ادیان میں بھی آیا ہے یا صرف یہ مشرکین کا طریقہ کار تھا؟ انھیں سوالات کی وضاحت کے ذیل میں قرآن مجید زیرِ بحث پہلی آیت میں فرمارہا ہے، قربانی اور خدا کے لئے جانور ذبح کرنے کا حکم صرف ہی نہیں دیا گیا بلکہ ”ہم نے ہر امت کے لے ایک قربانگاہ قرار دی ہے تاکہ وہ روزی کے طور پر دیئے جانے والے جانوروں کو قربان کرتے ہوئے ان پر الله کا نام لیں“ (وَلِکُلِّ اٴُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللهِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِنْ بَھِیمَةِ الْاٴَنْعَامِ) ۔
راغب اپنی ”مفردات“ میں کہتے ہیں کہ
”نسک“ کے معنی عبادت کے ہیں ”ناسک“ بمعنی ”عابد“ ہے لہٰذا مناسک حج، یعنی وہ مقامات یا اقامت گاہیں، جہاں یہ عبادت بجالائی جاتی ہے یا پھر خود انہی اعمال کے معنیٰ میں ہے ۔
لیکن مجمع البیان میں جناب طبرسیۺ اور ”روح البیان“ میں جناب ابوالفتوح رازی کے بقول ”منسک“ بروزن ”منصب“ ہے اور ایک احتمال کے مطابق عبادات میں سے علی الخصوص ”قربانی“ کے معنی میں ہے ۔(۱)
اس بناء پر اگرچہ ”منسک“ ایک عام مفہوم رکھتا ہے جس میں منجملہ عبادات کے ”مناسکِ حج“ بھی شامل ہیں ۔اور زیرِ بحث آیت (”لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللهِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِنْ بَھِیمَةِ الْاٴَنْعَامِ“ تاکہ اس پر الله کا نام لیں ) کے قرینے سے بالخصوص ”قربانی“ کے معنی میں ہے ۔

بہرحال ہمیشہ سے قربانی کے متعلق سوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں، لیکن زیادہ تر سوالات کی وجہ سے فضول اور بیہودہ رسمیں ہیں، جو اس عبارت کے ساتھ نتھی کردی گئی ہیں، مثلاً ایک خاص رسم کے تحت مشرکین کا بتوں کے لئے قربانی کرنا، مگر اس کے برعکس الله کے نام پر اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قربانی کرنا جو دراصل کسی کا راہِ خدا میں جان نثاری اور اپنی قربانی دینے کی آمادگی کے جذبے کا مظہر ہے اور جانور کے قربانی کے بعد اس کے گوشت سے غرباء ومساکین اور محتاجوں کی خوراک کے لئے استفادہ کرنا وغیرہ صریحاً منطقی اور قابل فہم ہے، لہٰذا آیت کے آخر میں مذکور ہے، تمھارا خدا معبود یکتا یگانہ ہے (اور اس کا پروگرام بھی ایک ہی ہے) (فَإِلَھُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ) ۔
”جب حقیقت یہی ہے تو اس کے حضور سرتسلیم خم کردو“ (فَلَہُ اٴَسْلِمُوا) ۔ اور احکامات خدا کے سامنے ”جھک جانے والوں کو خوشخبری سنادو“ (وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِینَ) ۔(2)
بعد والی آیت میں ”مخبتین“ (انکساری کرنے والوں اور بردبار لوگوں کی صفات کو چار حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں دو حصّے روحانی ہیں اور دو مادّی ۔
۱۔ پہلے فرمایا جارہا ہے: وہ لوگ ایسے ہیں کہ جونہی الله کا نام ان کے سامنے لیا جائے تو ان کے دل خوف الٰہی سے معمور ہوجاتے ہیں (الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُھُمْ) ۔ یہ خوف صرف الله کے غلیظ وغضب کی وجہ سے ہی سے نہیں اور نہ ہی اس کی رحمت بے پایاں میں کسی قسم کے شک وشبہ کی وجہ سے ہے، بلکہ یہ خوف ان ذمہ داریوں اور فرائض کی وجہ سے ہے جو ان کے کندھوں پر ہیں اور انھیں یہ ڈر ہے کہ کہیں ان کی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہ ہوجائے مزید برآں یہ خوف الله کی بے انتہا عظمت وجلالت و کی وجہ سے ہے جس کا ان کو ادراک ہے، کیونکہ انسان ہیبت وجلالت سے خائف ہوتا ہے ۔(3)

۲۔ زندگی میں پیش آنے والے مصائب وآلام پر نہایت صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں (وَالصَّابِرِینَ عَلیٰ مَا اٴَصَابَھُمْ) ۔
حالات کیسے ہی سنگین کیوں نہ ہوں اور ان مشکل حالات کی وجہ سے ان کو کتنی ہی تکلیف کیوں نہ پہنچے یہ لوگ گھبرا کر گھٹنے نہیں ٹیک دیتے اور نہ ہی ان کے اطمینان وسکون میں فرق آتا ہے اور نہ وہ اپنے موقف سے دستبردار ہوتے ہیں اور نہ رحمتِ خدا سے مایوس ہوتے ہیں اور نہ ہی کبھی کسی لفظ کے ذریعے کفرانِ نعمت کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں، غرضیکہ ہر حال میں یہ استقامت وپامردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منزل رواں دواں رہتے ہیں اور کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں ۔
۳، ۴۔ نماز قائم کرتے اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (وَالْمُقِیمِی الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُونَ)
یعنی ایک طرف الله کے ساتھ ان کا گہرا ربط ہے اور دوسری طرف ان کی جڑیں خلقِ خدا میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں، مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات اظہار من الشمس ہوجاتی ہے کہ ”اخبات“ عجزو انکساری اور تسلیم کہ جو مومنین کی خاص صفات میں سے ہیں، صرف باطنی پہلو نہیں رکھتیں، بلکہ اس کے آثار ظاہر وآشکار ہونے چاہئیں ۔

 
 


۱۔ اسی بناء پر کہا جاتا ہے: ”نسکت الشاة“ یعنی میں نے بھیڑ ذبح کی ۔
2۔ ”مخبتین“ ”اخبات“ کے مادہ سے ہے ”خبت“ (بروزن ”ثبت“ ) سے لیا گیا ہے جو ہموار اور وسیع وعریض زمین کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جس پر تمام انسان آرام سے چل پھر سکتا ہے، بعد ازآن یہ مادہ اطمینان اور انکساری کے معنیٰ میں استعمال ہونے لگا، کیونکہ زمین پر چلنے والا مطمئن اور اس کے پاوٴں تلے زمین منکسر ومتواضع ہوتی ہے ۔
3۔ خداخوفی کے علل واسباب کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد۷ میں سورہٴ انفال کی آیت ۲ کی تفسیر کے ذیل میں ہم شرح وبسط کے ساتھ بحث کرچکے ہیں ۔
 

 

سوره حج / آیه 36 - 38 سوره حج / آیه 34 - 35
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma