پہلی آیت کے بارے میں منقول ہے کہ پیغمبر اکرم کے مخلص اصحاب میں سے ایک نے آپ سے عرض کیا :
میں ایک بوڑھا ، نابینا اور عاجز شخص ہوں یہاں تک کہ میرے پاس کوئی ایسا شخص بھی نہیں جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے میدان جہاد میں لے جائے تو کیا میں جہاد میں شرکت نہ کروں تو معذورہوں ؟
پیغمبر اکرم خاموش رہے تو پھر پہلی آیت نازل ہوئی جس میں ایسے افراد کو اجازت دی گئی ہے
اس شانِ نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ نابینا افراد تک پیغمبر اکرم کو اطلاع دئے بغیرجہاد میں شرکت سے پہلو تہی نہیں کرتے تھے اور اس احتمال کی بنا پر کہ شاید ان کا وجود اس حالت میں بھی مجاہدین کی تشویق یا کثرت ِ لشکر کے لئے مفید ہو وہ رسول اللہ سے اپنی ذمہ داری کے بارے میں پوچھتے تھے ۔
دوسری آ یت کے بارے میں بھی روایات میں ہے کہ غریب انصار سے سات افراد رسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوئے اور تقاضا کیا کہ انھیں جہاد میں شرکت کے لئے وسائل مہیا کئے جائیں لیکن چونکہ پیغمبر اکرم کے پاس انھیں مہیا کرنے کے لئے وسائل نہ تھے تو آپ نے انھیں نفی میں جواب دیا۔ وہ اشک آلودہ نگاہوں سے آپ کی بار گاہ سے گئے او ربعد میں ” بکاوٴن“ ( رونے والے ) کے نام سے مشہور ہوئے ۔