دشمنوں سے لاتعلقی ضروری ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
چند اہم نکات ایک بے مثال تجارت

پہلی آیت ایک اچھی اور قطعی تعبیر کے ساتھ پیغمبر اور مومنین کو مشرکین کے لئے استغفار سے منع کرتی ہے اور کہتی ہے :مناسب نہیں کہ پیغمبر اور صاحب ایمان افراد مشرکین کے لئے طلب مغرفت کریں ( مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا اٴَنْ یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ
اس کے بعد تاکید کے طور پر اور عمومیت کے لئے مزید کہا گیا ہے : یہاں تک کہ وہ ان کے نزدیکی ہی کیوں نہ ہوں (وَلَوْ کَانُوا اٴُوْلِی قُرْبَی
اس کے بعد اس امر کی دلیل بیان کی گئی ہے : جب مسلمانوں پر واضح ہو گیا کہ مشرکین اہل جہنم ہیں اب ان کے لئے طلب مغفرت کے کوئی معنی نہیں ہیں ( مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اٴَنَّھُمْ اٴَصْحَابُ الْجَحِیم)ِ ۔یہ بالکل فضول کا م اور نامناسب آرزو ہے ۔ کیونکہ مشرک کسی طرح بھی قابل بخشش نہیں ہے اور جو شرک کی راہ پر ہیں ان کے لئے راہ نجات کا تصور نہیں ہوسکتا۔
علاوہ ازیں استغفار اور طلب بخشش ایک طرح سے مشرکین کے ساتھ محبت ، وابستگی اور لگاوٴ کا اظہار بھی ہے او ریہ وہ چیز ہے جس سے قرآن میں بار ہا منع کیا گیا ہے ۔
قرآن سے آگاہ اور آشنا مومنین نے چونکہ اس آسمانی کتاب میں پڑھ رکھا تھا کہ حضرت ابراہیم (ع) نے اپنے چچا آزر کے لئے استغفار کی تھی تو ممکن تھا ان کے ذہن میں فوراً یہ سوال پیدا ہوتا کہ آزر مشرک تھا او راگر یہ کام ممنوع ہے تو خدا کے اس عظیم پیغمبر (ع) نے کیوں انجام دیا لہٰذا زیر نظر آیت میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ابرہایم کی استغفار اپنے بات (کے بمنزلہ چچا) کے لئے ایک وعدہ کی بنا پر تھی جو انھوں نے ا س سے کیا تھا لیکن جب وہ ان پر واضح ہو گیا کہ وہ دشمن خدا ہے تو انھوں نے اس سے بیزاری اختیار کرلی اور پھر ا س کے لئے استغفار نہیں کی ( وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَھِیمَ لِاٴَبِیہِ إِلاَّ عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَہَا إِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ اٴَنَّہُ عَدُوٌّ لِلَّہِ تَبَرَّاٴَ مِنْہُ)۔
آیت کے آخر میں قرآن مزید کہتا ہے : ابراہیم وہ تھے جو بار گاہ خدا میں خاضع اور غضب الہٰی سے خائف بزرگوار تھے اورحلیم و برد بار تھے ۔

 (ان ابراھیم لا واہ حلیم
ہوسکتا ہے یہ جملہ ابراہیم (ع) کے آزر کے لئے استغفار کرنے کے وعدہ کی دلیل کے طور پر ہو کیونکہ ایک تو آپ حلیم و بر د بار تھے اور دوسری صفت آپ کی ”اواہ “ بیان ہو ئی ہے جو بعض تفاسیر کے مطابق رحیم اور رحمن کے معنی میں ہے۔ ان صفات کا تقاضا تھا کہ آپ آزر کی ہدایت زیادہ کوشش کرتے اگرچہ وہ وعدہٴ استغفار اور اس کے گذشتہ گناہوں کےلئے طلب بخشش کی صورت میں ہو۔
یہ احتمال بھی ہے کہ مندرجہ بالا جملہ اس امر کے لئے ہو کہ حضرت ابراہیم (ع) میں جو خشوع و خضوع تھا اور آپ میں خدا کی مخالفت کا جو خوف تھا اس کی وجہ سے وہ حق کے دشمنوں کے لئے استغفار کرنے کو بالکل تیار نہ تھے ۔ بلکہ یہ کام اس زمانے سے مخصوص تھا جب آپ کو آزرکی ہدایت کی امید تھی لہٰذا صرف ا س کی دشمنی واضح ہوتے ہی آپ نے اس کام سے صرف نظر کرلیا ۔
اگر سوال ہو کہ اس وقت مسلمانوں کو کیسے معلوم ہوگیا کہ ابراہیم (ع) نے آزر کے لئے استغفار کی تھی تو ہم جواب میںکہیں گے سورہٴ توبہ کی یہ آیات، جیسا کہ ہم ابتداء میں اشارہ کرچکے ہیں پیغمبر خدا کی عمر کے آخری حصے میں نازل ہوئی تھیں جبکہ مسلمان پہلے سے سورہ ٴ مریم کی آیت ۴۷ پڑھ چکے تھے ۔ اس میں ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) نے ” ساٴستغفرک ربی “کہہ کر آزر سے استغفار ککا وعدہ کیا تھا ۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ خدا کا پیغمبر کسی سے فضول اور بلاوجہ وعدہ نہیں کرتا اور جب وہ وعدہ کرتا ہے تو اس کی وفا بھی کرتا ہے ۔
نیز سورہ ٴ منتحہ کی آیت ۴ میں بھی وہ پڑھ چکے تھے کہ حضرت ابراہیم کی استغفار صراحت سے آئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :
و اغفرلی لابی انہ کان من الضآلّین ( الشعراء ۔۸۶)

چند اہم نکات ایک بے مثال تجارت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma