چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
واضح حکم کے بعدسزا دشمنوں سے لاتعلقی ضروری ہے

۱۔ ایک جعلی روایت : کئی سنی مفسرین نے صحیح بخاری ، مسلم اور دیگر کتب سے سعید بن مسیب کے واسطے سے اس کے باپ سے ایک جعلی رویات نقل کی ہے وہ یہ ہے کہ جب ابو طالب کی موت کا وقت آیا تو پیغمبر اکرم ان کے پاس گئے جبکہ ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ ان کے پا س بیٹھے تھے تو پیغمبر اکرم نے ان سے فرمایا: اے چچا آپ ” لا الہ الااللہ “ کہیں تاکہ میں اس کے ذریعے پروردگارکے ہاں آپ کی شفاعت کروں ۔ اس وقت ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ نے ابو طالب کی طرف رخ کیا اور کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ ( اپنے باپ ) عبد اللہ کے دین سے منہ پھیر لو۔ پیغمبر خدا نے ان سے وہی بات بار بار کہی ۔ مگر ابو جہل اور عبد اللہ وہی کہتے ہوئے روکتے رہے ۔ آخری بات جو ابو طالب نے کہی وہ یہ تھی ۔ ” عبد المطلب کے دین پر اور ” لا الہ الا اللہ “ کہنے سے اجتناب کیا ۔ اس وقت پیغمبر اکرم نے فرمایا : میں آپ کے لئے استغفار کرتار ہوں گا یہاں تک کہ مجھے اس سے روکاجائے اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی ” ما کان للنبی و الذین اٰمنوا “ ( تفسیر المنار او راہل سنت کی دیگر تفاسیر )
اس حدیث میں جعلی ہونے کی نشانیاں صاف نظر آرہی ہیں ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مفسرین اور محدثین کے درمیان مشہور ہے کہ سورہٴ براٴت ۹ ھ ء میں نازل ہوئی بلکہ بعض کے نظرئیے کے مطابق یہ آخری سورت ہے جو پیغمبر اکرم پر نازل ہوئی ۔ جبکہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ جناب ابو طالب کی وفات مکہ میں رسول اللہ کی ہجرت سے پہلے ہوئی ہے ۔
اسی واضح تضاد کی بناء پر متعصبین مثلا ًصاحب المنار نے ہاتھ پاوٴں مار ے ہیں ۔ کبھی کہا ہے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ، ایک دفعہ مکہ میں اور ایک دفعہ مدینہ میں ۹ ء ھ میں ۔ اس بے دلیل دعویٰ سے انھوں نے اپنے خیال میں اس واضح تضاد کو بر طرف کرنے کی کوشش کی ہے کبھی کہا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ آیت مکہ میں وفات ابوطالب کے وقت نازل ہوئی ہو ۔
پھر بعد میں رسول اللہ کے حکم سے سورہٴ توبہ میں رکھ دی گئی ہو جبکہ یہ دعویٰ بھی بالکل دلیل سے عاری ہے ۔ کیا بہتر نہ تھا کہ بجائے ایسے بے سند توجہات کرنے مذکورہ روایت اور ا س کی صحت میں تردد کیا جاتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس میں شک نہیں کہ حضرت ابو طالب کی وفات سے پہلے خدا تعالیٰ قرآن کی چند آیات میں مسلمانوں کو مشرکین کی دوستی اور محبت سے منع کرچکا تھا اور ہم جانتے ہیں کہ استغفار کرنا دوستی اورمحبت کے اظہار کا ایک واضح ترین مصداق ہے اس کے باوجود کسی طرح ممکن ہے کہ ابو طالب دنیا سے مشرک کے طور پر چلے جائیں اور پھر رسول اللہ قسم کھائیں کہ میں تو اسی طرح تمہارے لئے استغفار کرتا رہوں گا جب تک خدا مجھے اس سے منع نہ کر دے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ فخرالدین رازی اس کا تو انکار نہیں کرسکا کہ یہ آیت باقی سورہ تو بہ کی آیات کی طرح مدینہ میں پیغمبر اکرم کی آخری عمر میں نازل ہوئی ہے لیکن ایسے مسائل میں اپنے مشہور تعصب کی بناء پر ایک اور توجیہ کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ رسو ل اللہ ابو طالب کی وفات کے بعد اسی طرح مسلسل سورہ توبہ کے نزول تک ان کے لئے استغفار کرتے رہے ۔ یہاں تک ایک مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور انھیں منع کیا گیا ۔ اس کے بعد کہتا ہے : اس میں کیا حرج ہے کہ یہ چیز پیغمبر اور مومنین کے لئے اس وقت تک جائز ہو۔
اگر فخرالدین رازی اپنے آپ کو تعصب کی قید سے آزاد کرلیتا تو اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوجاتا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم اتنی طویل مدت تک ایک مشرک شخص کے لئے استغفار کریں جبکہ بہت سی قرآنی آیا ت جو اس وقت تک نازل ہو چکی تھیں ۔ مشرکین کے ساتھ ہر قسم کی محبت اور دوستی کی مذمت کرچکی تھیں ۔ ۱
تیسری بات یہ ہے کہ وہ اکیلا شخص جس نے یہ روایت نقل کی ہے وہ سعید بن مسیب ہے اور اس کی امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی مشہور ہے ۔ اس بناء پر اس کی بات پر حضرت علی (ع) ان کے والد اور ان کی اولاد کے بارے میں ہر گز اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔
علامہ امینی نے مذکورہ بات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد واقدی سے ایک بات نقل کی ہے جو قابل توجہ ہے واقدی کہتا ہے :۔
سعید بن مسیب حضرت امام سجاد علی بن الحسین علیہ السلام کے جنازے کے قریب سے غذرا او ران کی نماز جنازہ نہ پڑھی( اور ایک فضول عذر کے ) اس کام سے اجتناب کیا لیکن ابن حزم کے بقول جب لوگوں نے اسے پوچھا کہ کیا تم حجاج کے پیچھے نماز پڑھتے ہو یا نہیں تو اس نے کہا کہ ہم حجاج سے بد تر کے پیچھے نما پڑھ لیتے ہیں ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ جیسا کہ اسی تفسیر کی پانچویں جلد میں ہم کہہ آئے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ حضرت ابو طالب پیغمبر اسلام پر ایمان لے آئے تھے ۔ اس سلسلے میں ہم نے واضح مدرک اور دلائل پیش کئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ جو کچھ جناب ابو طالب کے ایمان نہ لانے کے بارے میں کہا گیا ہے وہ ایک بہت بڑی تہمت ہے ۔ تمام شیعہ علماء او ربہت سے سنی علماء مثلاًابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں قسطلانی نے ارشاد الباری میں اور زینی وحلان نے تفسیر حلبی کے حاشیہ پر اس امر کی تصریح کی ہے ۔
ایک باریک بین محقق اگر اس لہر کی طرف توجہ کرے جو بنی امیہ کے حکام کی طرف سے حضرت علی (ع) کے خلاف سیاسی مقاصد کے تحت اٹھی تھی تو وہ اچھی طرح اندازہ لگا سکتا ہے کہ جو شخص بھی آپ سے رشتہ اور تعلق رکھتا تھا وہ اس سازش سے امان میں نہیں تھا ۔ در حقیقت حضرت ابو طالب کا اس کے علاوہ کوئی گناہ نہیں تھا کہ وہ اسلام کے عظیم پیشوا علی بن ابی طالب علیہ السلام کے باپ تھے ۔ کیاان لوگوں نے ابو ذر جیسے عظیم مجاہد ِ اسلام پر حضرت علی (ع) سے عشق و محبت اورمکتب عثمان سے مقابلے کی وجہ سے ایسی تہمتیں نہیں لگائیں ۔
حضرت ابو طالب جو ساری زندگی پیغمبر اسلام کے حامی اور ان کے محافظ رہے اور آپ ہر طرح سے فرمانبرداری کرتے رہے ، ان کے ایمان کے سلسلے میں مزید اطلاع کے لئے اسی تفسیر کی جلد پانچ کے صفحہ۱۶۶تا صفحہ ۱۷۱ ( اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔
۲۔ حضرت ابراہیم (ع) نے آزر سے استغفار کاوعدہ کیوں کیا؟ دوسرا سوال جو یہاں سامنے آتا ہے یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے چچا آزر سے استغفار کاوعدہ کیونکر کیا جبکہ زیر بحث آیت اور قرآن کی دیگر آیات کے مطابق آپ نے یہ وعدہ پورا کیا ، حالانکہ وہ ہر گز ایمان نہیں لایا اور وہ مشر کوں اور بت پرستوں میں سے تھا او رایسے افراد کے لئے استغفار کرنے کی ممانعت ہے ۔
اس سوال کے جواب میں اس نکتے کی طرف توجہ کرنا چاہئیے کہ مندرجہ بالا آیت سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم کو توقع تھی کہ انتظار تھا کہ اس طریقے سے آزر، ایمان او ر توحید کی طرف مائل ہ وجائے گا اور ان کی استغفار حقیقت میں یہ تھی کہ خدا وند اسے ہدایت کر اور اس کے گذشتہ گناہوں کو بخش دے لیکن جب آزر نے حالت شرک میں اپنی آنکھیں دنیا سے بند کیں اور حضرت ابراہیم کے لئے مسلم ہو گیا کہ وہ پر وردگار کی دشمنی میں امر ہے اور اب اس کی ہدایت کی کوئی گنجائش نہیں رہی تو آپ نے اس کے لئے استغفار کو ختم کردیا ۔
اس معنی کے مطابق مسلمان بھی اپنے مشرک دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے، جب تک وہ بقید حیات ہیں اور ان کی ہدایت کی امید ہو سکتی ہے استغفارکریں یعنی خدا سے ان کے لئے ہدایت اور بخشش دونوں طلب کریں لیکن جب وہ حالت ِکفر میں مر جائیں تو ان کے لئے اب استغفار کا کوئی موقع نہ رہے گا۔
باقی رہا یہ جو بعض روایات میں آیا ہے کہ امام صا دق (ع) نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم (ع) نے وعدہ کیا تھا کہ اگر آزر اسلام لے آیا تو اس کے لئے استغفار کریں گے( نہ کہ اسلام لانے سے پہلے ) اور جس وقت ان پر واضح ہو گیا کہ وہ دشمن خدا ہے تو آپ نے اس سے بیزاری اختیار کی ۔ اس بناء پر ابراہیم کا وعدہ مشروط تھا اور چونکہ شرط پوری نہ ہوئی اس لئے انھوں نے کبھی اس کے لئے استغفا رنہیں کی۔
یہ روایت مرسل اور ضعیف ہونے کے علاوہ ظاہر یا صریح آیات ِ قرآن کے مخالف ہے کیونکہ زیر بحث آیت کا ظہور یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے استغفار کی ۔ سورہٴ شعراء کی آیت ۸۶ میں صراحت سے ہے کہ ابراہیم (ع) نے خدا سے اس کی بخشش کا تقاضا کیا تھا ۔ ارشاد ہوتا ہے :
واغفر لابی انہ کان من الصآلّین
اس کا دوسرا شاہد وہ مشہور جملہ ہے جو ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ جن تک آزر زندہ تھا حضرت ابراہیم نے بار ہا اس کے لئے استغفار کی لیکن جب وہ حالتِ کفر میں مر گیا اور اس کی دین ِ حق سے عداوت مسلم ہو گئی تو آپ بھی اس کام سے رک گئے۔
بعض مسلمان چونکہ اپنے بزرگ مشرکین کے لئے جو حالت کفر میں مر گئے تھے استغفارکرنا چاہتے تھے لہٰذا قرآن نے صراحت کے ساتھ انہیں منع کیا اور تصریح کی ابراہیم کا معاملہ بالکل ان سے مختلف تھا وہ تو آزر کی زندگی میں اور ا س کے ایمان کی امید پر ایسا کرتے تھے نہ کہ اس کی موت کے بعد ۔
۳۔ دشمنوں سے ہر قسم کا تعلق توڑ لینا چاہئیے :زیر بحث آیت کوئی واحد آیت نہیں ہے جو مشرکین سے ہر قسم کا رابطہ منقطع کرنے کی بات کرتی ہے ۔ بلکہ قرآن کی متعدد آیات سے یہ امر اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کا رابطہ ، رشتہ داری ، قطع تعلق اور عدم رشتہ داری مکتبی اور مذہبی بنیادوں پر ہو نا چاہئیے اور یہ رشتہ ( خدا پر ایمان اور اس قسم کے شرک اور بت پرستی سے مقابلہ )مسلمانوں کے تمام روابط پر حاوی ہو نا چاہئیے کیونکہ یہ رشتہ داری بنیادی ہے او ریہ رابط تمام اجتماعی اور معاشرتی امور پر حاکم ہے ۔ سطحی اور ظاہری رشتے ناتے اس کی ہر گز نفی نہیں کرسکتے۔ یہ درس کل کے لئے بھی تھا اور آج کے لئے بھی ہے ۔یہ ہر زمانے اور ہر دور کے لئے ایک سبق ہے ۔

 

۱۱۵۔ وَمَا کَانَ اللهُ لِیُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ ھَدَاھُمْ حَتَّی یُبَیِّنَ لَھُمْ مَا یَتَّقُونَ إِنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ۔
۱۱۶۔ إِنَّ اللهَ لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یُحْیِ وَیُمِیتُ وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیرٍ۔
ترجمہ
۱۱۵۔ ایسا نہ تھا کہ خدا کسی قوم کو ہدایت ( اور ایمان ) کے بعد سزا دے مگر یہ کہ جس سے انھیں بچنا چاہئیے اسے ان کے لئے بیان کردے( او رو ہ اس کی مخالفت کریں ) کیونکہ خدا ہر چیز سے دانا ہے ۔
۱۱۶۔ آسمانوں اور زمیں کی حکومت اس کے لئے ہے ( وہ ) زندہ کرتا ہے او رمارتا ہے اور خدا کے علاوہ کوئی ولی اور مدد گار نہیں ہے ۔
 

شان نزول

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ کچھ مسلمان فرائض ، و واجبات کے نزول سے پہلے اس دنیا سے چل بسے ۔کچھ لوگ رسول اللہ کی خدمت میں آئے اور ان کے انجام کے بارے میں پریشانی کا اظہار کیا ان کا خیال تھا کہ شاید فوت شدہ مسلمان عذاب الہٰی میںگرفتار ہوں کیونکہ انھوں نے یہ فرائض انجام نہیں دئیے تھے اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور اس با ت کی نفی کی گئی ۔ (مجمع البیان ، محل آیت کے ذیل میں )۔
بعض دوسرے مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت سابقہ آیات میں وارد صریح ممانعت سے پہلے مسلمانوںکے مشرکین کے لئے استغفار کرنے اور ان سے اظہار محبت کرنے کے بارے میں نازل ہوئی اور انھیں اظمینان دلایا ہے کہ ان کی استغفار جو خدا کی ممانعت سے پہلے تھی اس پر ان کا مواخذہ نہیں ہوگا۔

 


۱۔ سورہ ٴ نساء مسلماً سورہ براٴت سے پہلے نازل ہوئی اس کی آیت ۱۳۹ میں اور سورہ آل ِ عمران بھی براٴت سے پہلے نازل ہوئی اس کی اایت ۳۸ میں صراحت سے کفار سے دوستی اور محبت کرنے کو منع کیا گیا ہے اور خو د اسی سورہ توبہ کی زیر بحث آیت سے پہلے کی آیات میں خدا تعالیٰ اپنے پیغمبر سے بالصراحت کہتا ہے :۔ ان ( کفار ) کے لئے استغفار کرو یانہ کرو خداانھیں نہیں بخشے گا ۔
 
واضح حکم کے بعدسزا دشمنوں سے لاتعلقی ضروری ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma