ایک آیت میں آٹھ احکام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیر ۲۔ ایفائے عہد کی اہمیت:

اس آیت میں چند اہم اسلامی احکام بیان ہوئے ہیں یہ پیغمبراکرم پر نازل ہونے والے آخری احکامات میں سے ہیں یہ سب کے سب یا ان میں سے زیادہ تر حج اور خانہ خدا کی زیارت سے مربوط ہیں احکام یہ ہیں :
۱۔ سب سے پہلے ایمان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ شعائر خدا وندی کو نہ تو ڑو او ران کی حرمت کا خیال رکھو (۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّہِ ) ۔
اس سلسلے میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے کہ شعائراللہ سے کیا مراد ہے لیکن آیت کے دوسرے حصوں سے اس کی مناسبت اور اس کے سالِ نزول

 ( دس ہجری ) جو پیغمبر اکرم کے حجة الوداع کا سال تھا ، کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شعائراللہ سے کیا مراد مناسک حج اور حج کا پر گرام ہے، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سب کا احترام کریں اس تفسیر کا شاہد یہ ہے کہ قرآن میں لفظ شعائر عام طور پر مراسم حض کے بارے میں استعمال ہوا ہے ۔ ۱
۲۔ حرام مہینوں کا احترام کرو اور ان مہینوں میں جنگ و جدال سے احتراز کرو( وَ لاَ الشَّہْرَ الْحَرامَ ) ۔
۳۔ وہ قربانیان جو حج کے لئے لاتے ہو چاہے وہ نشانی کے (ہَدْی۲)
ہوں یا نشانی والی ( قلائد 3)
جاتے ہیں اور ان ہ رکوئی علامت اور نشانی لگادی جاتی ہے ۔
ہوں ، انھیں حلال نہ سمجھو او رانھیں رہنے دو کہ وہ قربان گاہ تک پہنچ جائیں اوروہاںقربان ہوں( وَلا الھدی وَ لاَ الْقَلائِدَ ) ۔
۴۔ خانہٴ خدا کے تمام زائرین کو ان کو ان عظیم اسلامی مراسم کے لئے پوری آزادی ہونا چاہئیے اور اس سلسلے میں افراد، قبائل ،خاندانوں کا کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئیے اس لئے جو لوگ خدا کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں ، حتی کہ جو تجارتی فائدے کے لئے زیارتِ بیت اللہ کے قصد سےآتے ہیں ان سے بھی کوئی مزاحمت نہ کی جائے چاہے وہ تمہارے دوست ہوں یا دشمن ، بس اتنا کافی ہے کہ وہ مسلمان ہیں خانہ خدا کے زائر ہیں ۔یہی ان کے مامون و محفوظ ہونے کے کافی ہے ( وَ لاَ آمِّینَ الْبَیْتَ الْحَرامَ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنْ رَبِّہِمْ وَ رِضْواناً ) ۔
بعض مفسرین اور فقہا کا نظریہ ہے کہ جملہ عام ہے یہاں تک غیر مسلموں پر بھی محیط ہے یعنی اگر مشرکین بھی خانہ خدا کی زیارت کے قصد سے آئیں تو ان کی بھی مزاحمت نہ کی جائے۔ لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ سورہ توبہ جس کے متعلق مشہورہے کہ نوہجری میں نازل ہو ئی اس کی آیة ۲۸ میں مشرکین کے مسجد الحرام کی طرف آنے سے منع کیا گیا ہے اور سورہ مائدہ پیغمبر اکرم کی آخری عمر دس ہجری میں نازل ہوئی اور شیعہ سنی روایات کے مطابق ا س کا کوئی بھی حکم منسوخ نہیں ہوالہٰذا یہ تفسیر صحیح نہیں ہے اور حق یہی ہے کہ یہ حکم مسلمانوں سے مخصوص ہے ۔
۵۔ ششکار کی حرمت زمانہ احرام کے لئے ہے اس لئے فرمایاگیا ہے : جب حج یا عمرہ کے احرام سے نکل جاوٴ تو پھر شکار کرنا تمہارے لئے جائز ہے

 (وَ إِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا ) ۔
۶۔ زمانہ جاہلیت کے بت پرست ( حدیبیہ کے موقع پر ) خانہ خدا کی زیارت میں تم سے مزاحم ہو ئے اور انھوں نے تمہیں خانہ خدا کی زیارت کے مناسک انجام نہیں دینے دئیے۔ اس واقعہ کو اس بات کا سبب نہیں بنا چاہئیے کہ ان کے اسلام لے آنے کے بعد پرانی دشمنی کو زندہ کرو اور خانہ خدا کی زیارت میں ان کے لئے رکاوٹ بنو(وَ لا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ اٴَنْ صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ اٴَنْ تَعْتَدُوا ) ۔4
یہ حکم اگر چہ خدا کی زیارت کے بارے میں نازل ہوا ہے لیکن حقیقت میں اس سے ایک عمومی قانون معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کو کینہ پرور نہیں ہونا چاہئیے اور جو حوادث گذشتہ دور میں گزر چکے ہوں انھیں اپنے ذہن پر سوار نہیں کرلینا چاہئیے اور ان کے انتقام کے در پے نہیں ہونا چاہیئے۔
دیکھا جائے تو ہ رمعاشرے کے نفاق اور تفرقہ بازی کے علل و اسباب میں سے ایک یہی وجہ ہے کہ اسلامی حکم جو کہ اس وقت نازل ہوا جبکہ پیغمبر اسلام کی حیات کا آفتاب آستانہ غروب پر تھا، مسلمانوں کے درمیان نفاق کی آگ بھڑکنے سے روکنے کے لئے نازل ہوا ۔ اس سے اس کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے ۔
۷۔ اس کے بعد بحث کی تکمیل کے لئے فرمایا گیا ہے : بجائے اس کے کہ تم اپنے پرانے دشمن اور موجود ہ دوستوں سے انتقام کے لئے ایک ہو جاوٴ۔ تمہیں چاہئیے کہ نیکی اور تقویٰ کی راہ میں ایک دوسرے سے دستِ تعاون بڑھاوٴ۔ نہ یہ کہ گناہ اور تجاوز میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے لگو (وَ تَعاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوی وَ لا تَعاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَ الْعُدْوانِ) ۔
۸۔ آیت کے آخر میں گذشتہ احکام کو محکم کرنے کے لئے اور ان کی تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے : پر ہیز گاری اختیار کرو اور حکم ِ خدا کی نافرمانی سے بچو ۔ کیونکہ خدا کا عذاب اور اس کی سزائیں بڑی سخت ہیں ( وَ اتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ شَدیدُ الْعِقابِ ) ۔
نیکی میں ساتھ دینا ضروری ہے
زیر نظر آیت میں تعاون کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے وہ اسلامی احکام کی ایک عمومی بنیاد ہے جو تمام اجتماعی اور سیاسی مسائل کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔ اس کے مطابق تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نیک اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور ایک دوسرے کا ساتھ دیں لیکن باطل مقاصد، غلط، اعمال اور ظلم و ستم میں میں تعاون اورہم کاری بالکل ممنوع ہے ، چاہے ان کا مرتکب قریبی دوست یا سگا بھائی کیوں نہ ہو۔
یہ اسلامی قانون بالکل اس قانون کے برعکس ہے جو زمانہ جاہلیت کے عرب میں بلکہ آج کے دور جاہلیت میں بھی رائج و حاکم ہے جاہلیت کا قانون یہ ہے کہ (انصر اخاک ظالما او مظلوماً)یعنی اپنے بھائی ( یا دوست اور ہم پیمان ) کی حمایت او رمدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔
اس زمانے میں اگر ایک قبیلے کے کچھ لوگ کسی دوسرے قبیلے کے بعض افراد پر حملہ کرتے تھے تو قبیلہ کے باقی افراد ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے اور اس تحقیق کی زحمت نہ کرتے کہ حملہ عادلانہ تھا یا ظالمانہ۔ یہ قانون بین الاقوامی سطح پر آج بھی حکم فرما ہے اور اکثر ایک معاہدے میں منسلک ممالک یا جن کے مفادات مشترک ہیں اہم عالمی معاملات میں ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اور قانون عدالت کا بالکل پاس نہیں کرتے اور ظالم و مظلوم کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں دیکھتے۔ اسلام نے اس قانون ِ جاہلیت پر خطِ تنسیخ کھنیچ دیا ہے اسلام کا حکم ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے تعاون اور ہمکاری صرف نیک ، اچھے کاموں میں کرنا چاہئیے نہ کہ گناہ ، تعّد ی اور ظلم میں ۔
یہ بات جالبِ نظر ہے کہ ”بر “ اور تقویٰ “ دونوں الفاظ مندرجہ بالا آیت میں ایک ساتھ آئے ہیں ان میں سے ایک لفظ اثباتی پہلو رکھتا ہے جو کہ مفید افعال و اعمال کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا لفظ نفی کا پہلو رکھتا ہے جو کہ غلط کاموں سے رک جانے کی طرف اشارہ ہے ۔ گو یا تعاون و ہم کاری نیکیوں کی طرف دعوت دینے میں بھی ہونا چاہئے او ربرائیوں کا مقابلہ کرنے میں بھی ۔
فقہ اسلامی میں اس قانون سے حقوق سے متعلق مسائل معلوم کئے جاتے ہیں ۔ اسی کی مدد سے چند ایک ایسے معاملات اور تجارتی معاہدوں کو حرام قرار دیا گیا ہے کہ جو گناہ کی کمک او رمدد کا پہلو رکھتے ہیں ۔ مثلاً شراب ساز ی کے کار خانے کے لئے انگور بیچنا یا حق و عدالت کے دشمنوں کے ہاتھ ہتھیار بیچنا یا کام کی کسی جگہ کو غیر شر عی اور خلافِ شریعت معاملات او رکا رو بار کے کرائے پر دینا( البتہ ان احکام کے بارے میں کچھ شرائط ہیں جو فقہی کتب میں بیان کی گئی ہیں ) ۔
اگر اسلامی بنیاد تمام معاشروں میں فراہم ہو جائے اور لوگ شخصی ، نسلی اور قرابتی تعلق کو پیش نظر رکھے بغیر ان لوگوں کو ساتھ دیں جو مثبت اور اصلاحی کاموں کے لئے قدم بڑھاتے ہیں اور ظالم اور تجاوز کرنے والے لوگ چاہے کسی طبقے سے ہوں ان کا ساتھ نہ دیں تو بہت سی اجتماعی خرابیاں اور مشکلیں دور ہا جائیں ۔ اسی طرح اگر دنیا کی حکومتیں بین الاقوامی سطح پر ظالم اور تجاوز کرنے والے شخص یا حکومت سے تعاون نہ کریں تو تعدی، تجاوز، زیادتی ، استعمار اور استشمار دنیا سے ختم ہو جائیں ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے بعض حکومتیں تجاوز کرنے والوں اور ستم گروں کی حمایت کرنے لگتی ہیں اور ان سے مفادات رکھنے والے کھلے بندوں انھیں حمایت کا یقین دلاتے ہیں لہٰذا موجودہ حالات میں بہتری کی توقع نہیںکی جانا چاہئیے۔
اسلامی روایات میں اس سلسلے میں بہت تاکید کی گئی ہے ۔ نمونے کے طور پر ہم چند ایک روایات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
۱۔ پیغمبر اکرم سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا :
اذا کان یوم القیامة نادی مناد این الظلمة ؟ و اعوان الظلمة ؟ و اشباہ الظلمة ؟ حتیٰ من برء لھم قلما و لاق 5
لھم دواتاً، قال ، فیجتمعون فی تابوت من حدید ثم یرمی بھم فی جھنم۔
جب قیامت بپا ہوگی تو منادی ندا کرے گا :
کہاں ہیں ظالم ؟
کہاں ہیں ظالموں کے مدد گار؟
کہاں ہیں وہ لوگ جنھوں نے اپنے آپ کو ظالموں سے مشابہ بنایا تھا؟
حتیٰ کہ ان لوگوں کو بھی پکارا جائے گا جنھوں نے ان ظالموں کے لئے قلم تراشایاں ان کی دوات میں صوف ڈالا ان سب کولوہے کے ایک صندوق میںڈا ل کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔ 6
۲۔ صفوان جمال ، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے ۔ وہ کہتے ہیں : میں آپ (علیه السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ (علیه السلام) نے فرمایا: تمہارے تمام کام اچھے ہیں سوائے ایک کام کے ۔
میں نے عرض کیا : آپ پر قربان جاوٴں وہ کونساکام ہے ؟
امام (علیه السلام) نے فرمایا: تو اپنے اونٹ اس شخص ( یعنی  ہارون )کو کرایہ پر دیتا ہے ۔
میں نے عرض کیا : بخدا عیاشی، ہوس بازی اور حرام شکار کے لئے تو کرایہ پر نہیں دیتا، صرف اس ( مکہ کے ) سفر کے لئے دیتا ہوں ۔ پھر میں خود بھی اونٹوں کے ساتھ نہیں جاتا اپنے کسی بیٹے یا کسی اور شخص کو ان کے ساتھ بھیجتا ہوں ۔
امام (علیه السلام) نے فرمایا: صفوان : کیا ان سے کرایہ لیتے ہو؟
میں نے عرض کیا: جی ہاں ۔
آپ (علیه السلام) نے فرمایا: کیا تم چاہتے ہوں کہ وہ اس وقت تک زندہ رہیں اور اپنے منصب پر باقی رہیں جبتک تمہارا کرایہ ادا نہ کریں ۔
میں نے کہا: جی ہاں ۔
آپ نے فرمایا: جو ان کی بقاء کی خواہش رکھے وہ انہی میں سے ہے اور جوان میں سے ہو وہ جہنم کی آگ میں جائے گا ۔
صفوان کہتے ہیں : میں فوراً گیا اوراپنے تمام اونٹ بیچ ڈالے ہیں ۔
یہ خبر ہاروں کو ہوئی تو اس نے مجھے بلوابھیجا اور مجھ سے کہنے لگا: صفوان! میں نے سنا ہے کہ تم نے اپنے اونٹ بیچ ڈالے ہیں ۔
میں نے کہا : میں بوڑھا ہو گیا ہوں ، میرے بیٹے اور دوسرے لوگ ان کی صحیح دیکھا بھال نہیں کرسکتے۔
ہاروں بولا: یہ بات نہیں ، میں جانتا ہوں تمہیں کسی شخص نے اس کاحکم دیا ہے ، ہاں موسیٰ بن جعفر (علیه السلام) نے تمہیں یہ حکم دیا ہے ۔
میں نے کہا: میرا موسیٰ (علیه السلام) بن جعفر (علیه السلام) سے کیا واسطہ؟
ہارون بولا : چھوڑو اس بات کو ، واللہ تمہاری گذشتہ نیکیاں نہ ہوتیں تو میں تمہاری گردن اڑانے کا حکم دیتا ۔ 7
یاعلی کفر باللہ علی العظیم من ھذٰہ الامة عشرة  وبایع السلاح من اھل الحرب۔
اے علی ! اس امت کے دس گروہ خدا کے منکر ہو گئے ہیں  اور ایک وہ ہے جو اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ ہتھیار بیچتا ہے جبکہ وہ مسلمانوں سے حالتِ جنگ میں ہوں ۔ 8
 

۳۔حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزیرِ وَ ما اٴُہِلَّ لِغَیْرِ اللَّہِ بِہِ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطیحَةُ وَ ما اٴَکَلَ السَّبُعُ إِلاَّ ما ذَکَّیْتُمْ وَ ما ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اٴَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْاٴَزْلامِ ذلِکُمْ فِسْقٌ الْیَوْمَ یَئِسَ الَّذینَ کَفَرُوا مِنْ دینِکُمْ فَلا تَخْشَوْہُمْ وَ اخْشَوْنِ الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکُمُ الْإِسْلامَ دیناً فَمَنِ اضْطُرَّ فی مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجانِفٍ لِإِثْمٍ فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحیمٌ ۔
ترجمہ
۳۔ مردار کا گوشت ، خون ، سورکا گوشت، وہ جانور جو غیر خدا کے نام پر ذبح ہوں ، وہ جانور جن کا گلا گھونٹ دیاجائے اور تشدد کر کے انھیں مار دیا جائے ۔ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائےں ، وہ جانور جو دوسرے جانور کے سنیگ مارنے سے مر جائیں اور درندہ جانور کے شکار کا باقی ماندہ مگر یہ کہ ( بر موقع اس جانور کے پاس جاپہنچیں اور ) اسے ذبح کرلیں او روہ جانور جو کسی بت کے اوپر ( یا اس کے سامنے ) ذبح کیے جائیں ( سب کے سب ) تم پر حرام ہیں اور (اسی طرح ) قسمت آزمائی کے لئے مخصوص تیر کی لکڑیوں سے جانور کا گوشت تقسیم کرنا ۔ یہ تمام اعمال فسق او رگناہ ہیں ۔ آج کے دن کفار تمہارے دین ( کے زوال ) سے مایوس ہو گئے ہیں لہٰذا ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ( میری مخالفت سے ) ڈرو۔ آج کے روز میں تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا او راپنی نعمت تم پر تمام کردی اور اسلام کو تمہارے لئے ( ہمیشہ رہنے والے ) دین کی طور پر قبول کرلیا لیکن وہ لوگ کہ بھوک کی حالت میں جن کا ہاتھ کسی اور کھانے تک نہ پہنچے اور وہ گناہ کی طرف مائل بھی نہ ہوں ( تو ان کے لئے کوئی حرج نہیں کہ وہ ممنوع گوشت میں سے کھالیں ) خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے ۔

 

 

 

 


 

 

 

 

 

۱- بقرہ ۱۵۸ اور حج ۳۲، ۳۶۔
۲ ” ھدی “ جو ” ہدیة“ کی جمع ہے ،اس کا مطلب ہے وہ چاپائے جو قربانی کے طور پر خانہ خدا کے لئے ” اھداء“ کئے جاتے ہیں ۔
۳ ”قلائد “ جو ” قلادہ “ کی جمع ہے ، اس کا معنی ہے وہ چیز جو انسان یا کسی جانور کے گلے میں ڈالی جائے یہاں اس سے مراد وہ چوپائے ہیں کو مراسم حج میں قربانی کے لئے لائے
4 ۔ اہل لغت اور مفسرین کے کلمات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ ” جَرم“ ( بروزن ”گرم“) اصل میں درخت سے غیر مناسب پھل توڑنے کے معنی میں ہے بعد ازاں یہ لفظ ہر اس کام کے لئے استعمال ہونے لگا جو ناخوش آیندہ ہو نیز ناپسند یدہ کام کے لئے کسی کو اکسانے کے مفہوم میں بھی بولا جانے لگا ۔ اس لئے یہاں ” لایجرمنکم “ ” لا یحسلنکم، ‘ کے معنی میں ہے یعنی ” تمہیں غلط کام پر نہ اکسائے “۔
5۔“ لیقہ“ عربی زبان میں کپڑے کے اس ٹکڑے یاریشم کی روٹی کو کہتے ہیں ، جودوات میں ڈالی جاتی ہے ، تاکہ وہ اپنے اندر سیاہی کو جذب کرلے اور اسے بہہ جانے سے روکے۔
6- وسائل الشیعہ، جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۱۔
7- و سائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۳۲۔
8- وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۷۱۔
تفسیر ۲۔ ایفائے عہد کی اہمیت:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma