کیسے ممکن ہے کہ مسیح (علیه السلام) خدا ہو؟۔

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
ے اہل کتاب: ہمارا رسول تمہاری طرف آگیا ہےتفسیر

گذشتہ مباحث کی تکمیل کے لئے اس آیت میں حضرت مسیح (علیه السلام) کی الوہیت کے دعویٰ پر شدید حملہ کیا گیا ہے اور اسے ایک واضح کفر قرار دیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : یہ امر مسلم ہے کہ جن لوگوں نے کہا ہے کہ مسیح بن مریم خدا ہے وہ کافر ہوگئے ہیں اور در حقیقت انھوں نے خدا کا انکار کیا ہے
(لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللهَ ہُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ) ۔
اس جملے کا مفہوم واضح ہونے کے لئے ہمیں جاننا چاہئیے کہ عیسائی خدا کے بارے میں بے بنیاد دعوے کرتے ہیں ۔
پہلا وہ تین خدا وٴں کو عقیدہ رکھتے ہیں جسے سورہٴ نساء کی آیہ ۱۷۰ میں باطل قرار دیا گیا ہے :
لا تقولوا ثلاثة انتھوا خیراً لکم انما اللہ الہ واحد
یعنی  یہ نہ کہوکہ تین خدا ہیں ،اس عقیدے سے باز آجاوٴ۔ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے ، معبود تو فقط تنہا خدا ہے ۔ ۱
دوسرا وہ عالم ہستی پیدا کرنے والے کو ان تین میں سے ایک خدا شمار کرتے ہیں اور ” باپ خدا “ ۲
نیز یہ بھی ہے :
خد ایعنی جو خود بخود وجود میں آیا تمام مخلوقات کے خالق اور ساری کائنات کے مالک کا نام اور وہ ایک لامتناہی اور ازلی روح ہے جو اپنے وجود حکمت قدرت اور عدالت میں انواعِ مختلف کے ساتھ ایسا ہے جس میں تغیرو تبدل نہیں ہے ۔ ( قاموس کتاب مقدس ص ۳۴۴)
کہتے ہیں ۔ سورہ ٴ مائدہ ۷۳ میں قرآنِ مجید نے اس عقدے کو بھی باطل قرار دیا ہے :
لقد کفرو الذین قالوا ان اللہ ثالث ثلاثة و ما من الٰہ الاالٰہ واحد
یعنی کافر کہتے ہیں کہ خدا تین میں سے تیسرا ہے ۔ جب کہ ایک اکیلے معبود کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔3
تیسرا  وہ کہتے ہیں کہ تینوں خدا تعداد حقیقی کے باوجود ایک ہیں اس عقیدے کو وہ ” وحدت در تثلیث“ بھی کہتے ہیں اس بات کی طرف زیر نظر آیت میں اشارہ کیا گیا ہے وہ کہتے ہیں کہ خدا مسیح بن مریم ہے او رمسیح بن مریم خدا ہے اور دونوں روح القدس سے مل کر تین متعدد ذاتیں ہونے کے باوجود ایک ہیں ۔
سہ گانہ تثلیث کے تمام پہلو جن میں سے ہر ایک عیسائیت کا عظیم ترین انحراف ہے ، قرآن کی ایک ہی آیت میں باطل قرار دئے گئے ہیں ۔
عقیدے تثلیث کے بطلان کے بارے میں تفصیلی وضاحت اسی جلد میں سورہٴ نساء کی آیہ ۱۷۱کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں ۔
ہم نے جو کچھ مندرجہ بالا سطروں میں کہا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ فخر الدین رازی او ربعض دیگر مفسرین کو اس آیت کے سمجھنے میں یہ جو اشکال ہوا ہے کہ کوئی عیسائی بھی صراحت سے خدا اور مسیح کے اتحاد کے عقیدہ کا اظہار نہیں کرتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں مسیحیت کی کتب پر کافی احاطہ نہیں ہے کیونکہ موجودہ عیسائی کتب میں ” وحدت در تثلیث“ کا مسئلہ بالوضاحت پیش کیا گیا ہے ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسی کتابیں اس زمانے میں ان مفسرین کے ہاتھ نہ لگی ہوں۔
اس کے بعدعقیدہ الوہیت کے بطلان کے لئے قر آن کہتا ہے : اگر خدا چاہے کہ مسیح ، اس کی والدہ اور زمین میں بسنے والے تمام لوگوں کو ہلاک کردے تو کون اسے روک سکتا ہے ( قُلْ فَمَنْ یَمْلِکُ مِنْ اللهِ شَیْئًا إِنْ اٴَرَادَ اٴَنْ یُہْلِکَ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَاٴُمَّہُ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ حضرت مسیح (علیه السلام) اور ان کی والدہ مریم دیگر انسانوں کی طرح انسان ہونے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ اس بناپر مخلوق ہونے کے لحاظ سے وہ دیگر مخلوقات کی طرح ہیں لہٰذا نابودی ان کے لئے بھی ہے اور وہ چیز جس کے لئے نیستی کا تصور ہوسکے کس طرح ممکن ہے کہ وہ ازلی و ابدی خدا ہو۔
دوسرے لفظوں میں اگرمسیح (علیه السلام) خدا ہو تو خالق کائنات اسے ہلاک نہیں کر سکتا اور اس طرح اس کی قدرت محدود ہو جائے گی اور ایسی ہستی خدا نہیں ہوسکتی کیونکہ خدا کی قدرت اس کی ذات کی طرح غیر محدود ہے ( غور کیجئے گا) ۔
آیت میں ” مسیح بن مریم “ کے الفاظ کا تکرار ہے شاید اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو کہ تم خود معترف ہو کہ مسیح (علیه السلام) مریم کے فرزند تھے اور وہ ماں کے بطن سے پیدا ہوئے ان پر ایک مرحلہ حالتِ جنین کا گذرا، پھر وہ نو زائیدہ بچے کی حالت میں رہے اور انھوں نے تدریجاً پرورش پائی اور بڑے ہوئے۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ خدا ایک چھوٹے سے محیط مثلاً شکم مادر میں رہے اس میں یہ تمام تغیرات اور تحویلات پیدا ہوں نیز جنین اور شیر خوارگی کے عالم میں وہ ماں کا محتاج ہو۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ زیر بحث آیت میںحضرت عیسیٰ (علیه السلام) کے ذکر کے ساتھ خصویت سے ان کی والدہ کے نام کے ساتھ لفظ ” وامہ“ آیا ہے یوں مادر عیسیٰ (علیه السلام) کو دنیا کے دیگر لوگوں سے ممتاز کیا گیا ہے ، ممکن ہے یہ تعبیر اس بنا پر ہو کہ عیسائی پو جا پاٹ کیوقت ان کی والدہ کی پرستش بھی کرتے ہیں اور اس وقت کے کلیسا وٴں میں دیگر مجسموں کے علاوہ جناب مریم کا مجسمہ بھی ہوتا ہے جس کی وہ تعظیم اور پر ورش کرتے ہیں ۔ سورہٴ مائدہ کی آیت ۱۱۶ میں بھی اس مطلب کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ۔
و اذقال اللہ یا عیسیٰ بن مریم اٴ انت قلت للناس اتخذونی و امی الھین من دون اللہ
روزقیامت جب خدا کہے گا : اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر میر او رمیری والدہ کی پرستش کرو۔
جولوگ بغیر باپ کے پیدا ہونے کو مسیح (علیه السلام) کی الوہیت کی دلیل سمجھتے ہیں ، آیت کے آخر میں انھیں جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ سب خدا کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جیسی مخلوق چاہے پیدا کرتا ہے ( تو چاہے تو کسی کو بغیر ماں باپ کے پیدا کرے جیسے اس نے حضرت آدم(علیه السلام) کو پیدا کیا ، وہ چاہے تو ماں باپ کے توسط سے پیدا کرے ۔
جیسے عام انسانوں کو پیدا کرتا ہے اور وہ چاہے تو کسی کو صرف ماں کے توسط سے پیدا کرے جیسے اس نے حضرت مسیح (علیه السلام) کو پیدا کیا ہے خلقت کو یہ تنوع کسی اورچیزکا نہیں بلکہ اس کی قدرت کی دلیل ) اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ( وَلِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا یخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَاللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ۔

 

۱۸۔ وَقَالَتْ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی نَحْنُ اٴَبْنَاءُ اللهِ وَاٴَحِبَّاؤُہُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوبِکُمْ بَلْ اٴَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَشَاءُ وَلِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا وَإِلَیْہِ الْمَصِیر
ترجمہ
۱۸۔ یہودو نصاریٰ کہتے تھے کہ ہم خدا کے بیٹے ہیں اور اس کے ( خاص) دوست ہیں ( ان سے ) کہہ دو کہ پھر بھی وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے بلکہ اس کی مخلوقات میں سے انسان ہو وہ جسے چاہتا ہے ( اور اہل پاتا ہے ) اسے بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ( اور مستحق سمجھتا ہے ؟) اسے سزا دیتا ہے ۔ آسمانوں اور زمین کی حکومت او رجو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کے لئے اور تمام موجودات کی باز گشت اسی کی طرف ہے ۔

 

 

 

 


 
۱۔ اس آیت کی تفسیر اس جلد کی ابتداء میں گذر چکی ہے ۔
۲۔ عیسائی کتب میں ہے :
باپ خدا بیٹے کے واسطے سے پوری کائنات کا خالق ہے ( قاموس کتاب مقدس ص ۳۴۵)
3۔ اس کی تفسیر انشاء اللہ عنقریب آئے گی ۔
ے اہل کتاب: ہمارا رسول تمہاری طرف آگیا ہےتفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma