قصاص اور در گذر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیرہم نے تورات نازل کی

اس آیت میں ان حدودِ الہٰی کا ایک حصہ بیان کیا گیا ہے جو تورات میں ہیں ، فرمایا گیا ہے : ہم نے تورات میں قانون ِ قصاص مقرر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کسی بے گناہ کو قتل کردے تو مقتول کے اولیاء قاتل کو اس کے بدلے قتل کر سکتے ہیں (وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیہَا اٴَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ) ۔
اور اگر کوئی دوسرے کی آنکھ کو نقصان پہنچائے اور اسے ختم کردے تو وہ اس کی آنکھ نکال سکتا ہے ( وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ) ۔
نیز کان کاٹنے کے بدلے مد مقابل کا کان کاٹا جا سکتا ہے (وَالْاٴُذُنَ بِالْاٴُذُنِ ) ۔
اسی طرح کسی کی ناک کاٹنے کے بدلے جائز ہے کہ مجرم کی ناک کاٹی جائے( وَالْاٴَنفَ بِالْاٴَنفِ ) ۔
اور اگر کوئی کسی کا دانت توڑ دے تو وہ بھی اس کادانت توڑ سکتا ہے (وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ) ۔
اسی طرح جو بھی کسی کو کوئی زخم لگائے تو وہ اس کے بدلے قصاص لے سکتا ہے (وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ) ۔
لہٰذا حکم ِ قصاص بغیر کسی نسلی ، طبقاتی ، اجتماعی ، قبائلی اور شخصی امتیاز کے جاری ہو گا اور اس سلسلے میں کسی کے لئے بھی کسی پہلو سے کوئی فرق اور تبعیض نہیں ہے ( البتہ دیگر اسلامی احکام کی طرذح اس حکم کی بھی کچھ شرائط ہیں جو فقہی کتب میں موجود ہیں کیونکہ یہ حکم بنی اسرائیل سے مخصوص نہیں ہے اسلام میں بھی اس کی نظیر موجود ہے جیسا کہ سورہٴ بقرہ کی آیہ ۱۷۸ میں مذکورہ ہے کہ جو آیہ قصاص ہے ) ۔
ناروا امتیازات اور تفریقات جو اس زمانے میں مروج تھیں انھیں یہ آیت ختم کرتی ہے جیساکہ بعض تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے اس زمانے میں یہودِ مدینہ کے دو گروہوں میں ایک عجیب عدم مساوات موجود تھی اور وہ یہ کہ بنی نضیر کو کائی شخص بنی قریظہ کے کسی شخص کو قتل کردیتا ہے تو اس سے قصاص نہ لیا جاتا لیکن اس کے بر عکس بنی قریظہ کا کوئی شخص بنی نضیر کے کسی شخص کو قتل کردیتا تو وہ اس کے بدلے قتل کیا جا تا ۔
جب مدینہ میں اسلام آیا تو نبی قریظہ نے اس بارے میں پیغمبر اسلام سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: خون کسی کا ہو کوئی فرق نہیں ۔
اس پر بنی نضیر اعتراض کرنے لگے اور کہنے لگے :
آپ ہما را مقام نیچے لے آئے ہیں اور اسے پست کردیا ہے ۔
زیر نظر آیت اسی ضمن میں نازل ہو ئی اور انھیں بتا یا گیا کہ نہ صرف اسلام میں بلکہ یہودیوں کے دین میں بھی مساوات کا یہ قانون موجود ہے ۱
لیکن اس بنا پر کہ کہیں یہ گمان نہ ہو کہ خدا نے قصاص کو لازمی قرار دیا ہے اور مقابلہ بمثل کی دعوت دی ہے ، مزید فرمایا گیا ہے ، : اگر کوئی اپنے حق سے در گذر کرے اور عفو و بخشش سے کام لے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ شمار ہو گا اور جس طرح اس نے در گذر سے کام لیا ہے خدا اس سے در گذر کرے گا
(فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہِ فَھُوَ کَفَّارَةٌ لَہُ وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الظَّالِمُونَ
گویا قصاص ایک صدقہ و عطیہ ہے جو مجرم کو بخش دیا گیا ہے یہاں” تصدق“ کی تعبیر اور خدا کی طرف سے ” تصدق“ کرنے والے کو عفو کا وعدہ ، یہ سب کچھ عفو و در گذر کا شوق پیدا کرنے کے لئے ہے ۔ کیونکہ اس میں شک نہیں کہ قصاص کے ذریعے کھوئی ہوئی چیز تو ہاتھ میں نہیں آسکتی یہ تو فقط وقتی سکون ن و اطمنان دیتا ہے لیکن خدا کی طرف سے عفو و بخشش کا وعدہ در اصل ایک دوسری صورت میں اس کی تلافی ہے جو وہ ہاتھ سے دے بیٹھا ہے اور اس طرح سے اس کی پریشانی ختم ہو جاتی ہے اور یہ ایسے لوگوں کے لئے عمدہ اور بہترین تشویق ہے ۔ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے ، آپ (علیه السلام)نے فرمایا:
جو شخص معاف کردیتا ہے ، خدا بھی اسی طرح کے گناہ معاف کردیتا ہے ۔ ۳
یہ جملہ در حقیقت ان لوگوں کے لئے ایک دندان شکن جواب ہے جو قانون قصاص کو غیر عادلانہ سمجھتے ہیں اور اسے ایک آدم کش قانون قرار دیتے ہیں ۔ پوری آیت پر غو ر و خوض سے معلوم ہوتا ہے کہ قصاص کی اجازت مجر موں کو خوف زدہ کرنے کے لئے ہے تاکہ بے گناہ لوگ ان کے اقدامِ ِ جرم سے مامون رہیں لیکن اس کے باوجود عفو و باز گشت کا راستہ بھی کھلا رکھا گیا ہے ۔ خوف و امید کی یہ کیفیت پیدا کوتے ہوئے اسلام چاہتا ہے کہ ظلم و زیادی کو بھی رو کے اور جتنا ہو سکے او رمناسب ہو خون کو خون سے پاک کرنے کی پیش بندی بھی کرے۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : اور جو لوگ خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ ظالم ہیں( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الظَّالِمُون) ۔
اس سے بڑ ھ کر کیا ظلم ہو گا کہ ہم جھوٹے احساسات اور جذبات سے مغلوب ہو کر قاتل سے اس بہانے سے صرفِ نظر کرلیں کہ خون کو خون سے نہ دھو یا جائے اور قاتلوں کے ہاتھ دوسرے لوگوں کو قتل کرنے کے لئے کھلے چھوڑ دیں ، اور اس طرح سے بے گناہوں پر ظلم و ستم کریں ۔
توجہ رہے کہ موجودہ تورات میں بھی سفر خروج کی اکیسویں فصل میں ہے کہ :
اور اگر دوسرے کو اذیت پہنچائی گئی ہو تو اس وقت جان کے عوض جان دی جائے ۔ آنکھ کے عوض آنکھ ، دانت کے بدلے دانت ، ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور پاوٴں کے بدلے پاوٴں اور خلانے کے بدلے جلایا جائے ، زخم کے عوض زخم اور تھپڑ کے بدلے تھپڑ۔ 4

 

۴۶۔ وَقَفَّیْنَا عَلَی آثَارِہِمْ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنْ التَّوْرَاةِ وَآتَیْنَاہُ الْإِنجِیلَ فِیہِ ہُدًی وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنْ التَّوْرَاةِ وَہُدًی وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِینَ ۔
ترجمہ
۴۶۔ اور ان ( گذشتہ انبیاء) کے بعد ہم نے عیسیٰ کو مقرر کیا تاکہ اس سے پہلے جو تورات میں بھیجا گیا تھا اس کی تصدیق کرے اور ہم نے اسے انجیل دی کہ جس میں ہدایت او رنور تھا( اور اس کی یہ آسمانی کتاب بھی ) تورات کی تصدیق کرتی تھی جو اس سے پہلے تھے اور متقیوں کے لئے ہدایت او رموعظہ ہے ۔

 

 

 

 

 


 
۱۔تفسیر قرطبی جلد ۳ صفحہ ۲۱۸۸۔
۲۔ بہت سے مفسرین نے یہ آیت کے بارے میں ایک اور احتمال بھی پیش کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ” لہ“ کی ضمیر مجرم کے بارے میں ہے اس طرح آیت کا معنی یہ ہو گا : جو شخص اپنے حق سے درگذر کرے تو اس سے جان کا قصاص بر طرف ہوجائے گا اور یہ اس کے عمل کا کفارہ شمار ہو گا لیکن آیت کا ظہور وہی ہے جو ذکر ہو چکا ہے ۔
۳۔نو ر الثقلین ج ۱ ص ۶۳۷۔
4۔سفر خروج ۔ جملہ ۲۳، ۲۴ اور ۲۵۔
تفسیرہم نے تورات نازل کی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma