قرآن کے مقام و مرتبے کا تذکرہ ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
شانِ نزول وہ جو قانونِ الہٰی کے مطابق حکم نہیں کرتے

گذشتہ انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اس آیت میں قرآن کے مقام و مرتبے کا تذکرہ ہے ” مھیمن “ در اصل ایسی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز کی محافظ، شاہد، امین اور نگہدار ہو۔ قرآن چونکہ گذشتہ آسمانی کتب کے اصولوں کی مکمل حفاظت و نگہداری کرتا ہے اور ان کی تکمیل کرتا ہے لہٰذا اسے ” مھیمن “ قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے ہم نے اس آسمانی کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے ، جبکہ یہ گذشتہ کتب کی تصدیق کرتا ہے ( اور اس کی نشانیاں اور علامات اس کے مطابق ہیں جو گذشتہ کتب نے بتائی ہیں ) اور یہ ان کا محافظ و نگہبان ہے ( وَاٴَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنْ الْکِتَابِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ ) ۔
بنیادی طور پر تمام آسمانی کتابیں اصول ِ مسائل میں ہم آہنگ ہیں اور سب کا ہدف و مقصدایک ہی ہے یعنی سب انسانی تربیت، ارتقاء اور تکامل کے در پے ہیں اگر چہ فروعی مسائل میں تکامل و ارتقاء کے تدریجی قانون کے مطابق مختلف ہیں اور ہر نیا دین بالاتر مرحلے کی طرف قدم بڑھا تا ہے اور جامع ترین پروگرام پیش کرتا ہے ۔
”ِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ “کے بعد”مھَیْمِنًا عَلَیْہِ “ کا ذکر جو تم پر نازل ہو ئے ہیں (فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ ) ۔یہ جملہ فاء تفریح کے ساتھ آیا ہے جو گذشتہ ادیان کے احکام کی نسبت احکام اسلام کی جامعیت کا نتیجہ ہے ۔ یہ حکم گذشتہ آیات کے اس حکم کی منافی نہیں کہ جن میں پیغمبر کویہ بتا دیا گیا ہے کہ ان کے درمیان خود فیصلہ کریں یا انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں ۔ کیونکہ یہ آیت کہتی ہے کہ جب اہل کتاب کے درمیان فیصلہ کرنا چاہو تو قرآن کے احکام کے مطابق فیصلہ کرو ۔
پھر مزید فرما یا گیا ہے کہ جو لوگ چاہتے ہیں کہ احکام الہٰی کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال لیں ، تم ان کے ہواو ہوس اور خواہشات کی اتباع نہ کرو ۔ اور حق میں سے جو کچھ تم پرنازل ہوا ہے اس سے منہ نہ پھیرو(وَلاَتَتَّبِعْ اٴَھْوَائَھُمْ عَمَّا جَائَکَ مِنْ الْحَقِّ ) ۔
بحث کی تکمیل کے لئے فرما یا گیا ہے : تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے دین ، شریعت ، طریقہ اور واضح راستے کا تعین کردیا ہے ( لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَةً وَمِنْھَاجًا ) ۔”شرع“ اور ” شریعة“ اس راستے کو کہتے ہیں جو پانی کی طرف جاتا ہو اور وہاں کا کر ختم ہو تا ہو اور دین کو شریعت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ حقائق اور ایسی تعلیمات تک پہنچا تا ہے جو پاکیزگی ، طہارت اور انسانی زندگی کا سر مایہ ہیں ” نھج“ اور” منھاج “ واضح راستے کو کہتے ہیں راغب مفردات میں ابن عباس سے نقل کیا ہے :
” شرعة “ اور ” منھاج “ میں یہ فرق ہے کہ ” شرعة“ اسے کہا جا تا ہے جو قرآن میں وارد ہوا ہے اور منہاج سے مرادوہ امور ہیں جو سنت ِ پیغمبر میں وارد ہو ئے ہیں ۔
یہ فرق اگر چہ جاذب ِ نظر ہے لیکن اس کے لئے کوئی قطعی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے ۔ ۱
لیکن ہمارے پاس اس فرق کے لئے بھی کوئی واضح دلیل نہیں کیونکہ یہ دونوں الفاظ بہت سے مواقع پر ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے : خدا میں یہ طاقت تھی کہ وہ تمام لوگوں کو ایک ہی امت قرار دے دیتااور سب کو ایک ہی دین کا پیرو بنا دیتا لیکن یہ بات تدریجی تکامل کے قانون اور مختلف تربیتی مراحل کے اصول سے مناسبت نہیں رکھتی تھی (وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَکُمْ اٴُمَّةً وَاحِدَةً وَلَکِنْ لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ ) ۔
لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ ۔یعنی تاکہ تمہیں ان چیزوں کے متعلق آزمائے جو تمہیں دی گئی ہیں ۔
یہ جملہ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں اور وہ یہ کہ خدا نے وجود انسانی میں مختلف قسم کی استعدادیں اور صلاحیتیں پیدا کی ہیں اور وہ آزمائشوں کے ذریعے اور تعلیمات ِ انبیاء کے ذریعے لوگوں کی تربیت اور پرورش کرتا ہے ۔ اسی لئے ایک مرحلہ طے کرنے کے بعد انھیں بالاتر مرحلے میں لے جاتا ہے ایک دور کے ختم ہ ونے پر دوسرے پیغمبر کے ذریعے بالاتر دور میں لے جاتا ہے بالاتر تمام اقوام و ملل کو مخاطب کرکے دعوت دیتا ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنی توانائیاں اختلافات و مشاجرات میں صرف کرو، نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو(فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ)کیونکہ سب کی باز گشت خدا کی طرف ہے اور وہی روز قیامت ان چیزوں سے آگاہ کرے گا ، جن میں تم اختلاف کرتے ہو( إِلَی اللهِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ فِیہِ تَخْتَلِفُونَ) ۔

 

۴۹۔) وَاٴَنْ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ وَلاَتَتَّبِعْ اٴَہْوَائَہُمْ وَاحْذَرْہُمْ اٴَنْ یَفْتِنُوکَ عَنْ بَعْضِ مَا اٴَنزَلَ اللهُ إِلَیْکَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اٴَنَّمَا یُرِیدُ اللهُ اٴَنْ یُصِیبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِہِمْ وَإِنَّ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ ۔
۵۰۔ اٴَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّةِ یَبْغُونَ وَمَنْ اٴَحْسَنُ مِنْ اللهِ حُکْمًا لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ۔
ترجمہ
۴۹۔ اور ان ( اہل کتاب) کے درمیان تمھیں اس کے مطابق حکم کرنا چاہئیے جو خدا نے نازل کیا ہے اور ان کی ہوا و ہوس کی پیروی نہ کرو اور اس سے بچو کہکہیں تمہیں وہ بعض ایسے احکام سے منحرف کردیں جو تم پر نازل ہوئے ہیں اور اگر وہ ( تمہارے کام اور فیصلے سے ) رو گردانی کریں تو جان لو کہ خدا چاہتا ہے کہ ان کے کچھ گناہوں کے بدلے انھیں سزا دے اور بہت سے لوگ فاسق ہیں ۔
۵۰۔ کیا وہ ( تم سے ) زمانہ ٴ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اہل ایمان کے لئے خدا سے بہتر حکم کون کر سکتا ہے ۔

 

 

 

 


 
۱۔ بعض بذرگ مفسرین کا نظر یہ ہے کہ دین اور شریعت کے درمیان فر ق یہ ہے کہ دین توحید اور دیگر اصول سے عبارت ہے جو تمام مذاہب میں مشترک ہیں اسی لئے دین ہمیشہ ایک ہی رہا ہے لیکن شریعت ایسے قوانین ، احکام کو کہا جاتا ہے جو ان مذاہب میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔

 

شانِ نزول وہ جو قانونِ الہٰی کے مطابق حکم نہیں کرتے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma