غیروں پہ تکیہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
وہی ذات ہے جس کا دائرہ فضل و کرم بہت وسیع ہےتفسیر

شانَ نزول میں تو عبادہ بن صامت اور عبد اللہ بن ابی کی گفتگو آئی ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ آیات صرف دوتاریخی شخصیتوں کے مابین ہونے والی گفتگو کے حوالے ہی سے نہیں دیکھی جاسکتیں بلکہ وہ دونوں دو معاشرتی مکاتب ِ فکر کی نمائندگی کررہے ہیں ۔ ایک مکتب کہتا ہے کہ دشمن سے الگ رہنا چاہئیے اور اپنی مہار اس کے ہاتھ میں نہیں دیا چاہئیے اور اس کی امداد پر اطمنان نہیں کرنا چاہئیے ۔ جبکہ دوسرا مکتبِ فکر کہتا ہے کہ اس ہنگامہ خیز دنیا میں ہر شخص اور ہر قوم کو ایک سہارے کی ضرورت ہے ۔ بعض اوقات مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے کہ غیروں میں سے کسی کو سہارا بنا لیا جائے اور غیروں کی دوستی بھی قدر وقیمت کی حامل ہے اور ایک دن وہ ثمر بخش ثابت ہوگی ۔
قرآن دوسرے مکتب کی شدت سے سر کوبی کرتا ہے او رمسلمانوں کو اس طرز فکر سے تاکید اً ڈراتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض مسلمان یہ عظیم خدائی حکم بھلا چکے ہیں اور غیروں میں سے بعض پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کی بہت سی بد بختیوں کا سر چشمہ یہی چیز ہے ۔
اُندلس اس کی زندہ نشانی ہے ۔ کل کے اندلس اور آج کے اسپانیہ میں مسلمانوں نے کیسے اپنی قوت و طاقت کے بل پر ایک درخشان تمدن کی بنیاد رکھی اور پھر غیروں پر بھروسہ کرکے اس سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس کی دوسری دلیل عظیم عثمانی بادشاہت ہے جو تھوڑی ہی مدت میں گرمیوں میں پگھل جانے والی برف کی طرف بہہ گئی ۔
دور حاضر میں اس مکتب سے منحرف ہونے سے مسلمانوں نے جو کاری ضربیںکھائی ہیں وہ بھی کم نہیں ہیں لیکن تعجب ہے کہ ہم اب بھی کیوں بیدار نہیں ہوتے۔
غیر بہر حال غیرہی ہے ۔ مشترک مفادات کی خاطر اگر کوئی غیر چند قدم ہمارے ساتھ چلے بھی تو آخر کار حساس لمحاتمیں نہ صرف یہ کہ وہ ساتھ چھوڑدے گا بلکہ ہم پر کاری جربیں بھی لگائے گا ۔ چاہئیے یہ کہ آج کا مسلمان اس قرآنی صدا پر سب سے زیادہ کان دھرے اور اپنی طاقت کے علاوہ کسی پر بھروسہ نہ کرے۔ پیغمبر اسلام اس بات کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ جنگ ِ احد کے موقع پر جب بہت سے یہودی مشرکین کے خلاف جنگ کے لئے آپ سے آملے تو آپ نے دوران ِ راہ ہی انھیں واپس کردیا اور ان کی مدد قبول نہ فرمائی ۔ حالانکہ یہ تعداد جنگ احد میں ایک موٴثر کر دار ادا کرسکتی تھی آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ اس لئے کہ کچھ بعید نہ تھا کہ وہ جنگ کے حساس لمحات میں دشمن سے مل جاتے اور بچے کھچے لشکر اسلام کو بھی ختم کردیتے۔

 


۵۴۔ یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِہِ فَسَوْفَ یَاٴْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ اٴَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اٴَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِینَ یُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَیَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ۔
ترجمہ
۵۴۔اے ایمان والو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا ( وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا ) خدا آئندہ ایک ایسا گروہ لے آئے گا جسے وہ دوست رکھتا ہے اور وہ لوگ ( بھی) اسے دوست رکھتے ہیں ۔ جو مومنین کے سامنے متواضع اور کفارے کے مقابلے میں طاقت ور ہیں وہ راہِ خدا میں جہاد کرہیں اور سر زنش کرنے والوں کی سر زنش سے نہیں ڈرتے۔ یہ خدا کا فضل و کرم ہے ، وہ جسے چاہتا ہے ( اور اہل سمجھتا ہے ) عطا کرتا ہے اور ( خدا کا فضل) وسیع ہے ، اور خدا جاننے والا ہے ۔

 

وہی ذات ہے جس کا دائرہ فضل و کرم بہت وسیع ہےتفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma