اور یہودی کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ تو زنجیرسے بندھا ہو اہے ۔

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
اور اگر اہل کتاب ایمان لائے اور انھوں نے تقویٰ اختیار کیا تویسائی او ریہودی علماء انھیں گناہ آمیز باتوں او رمال ِ حرام

پہلی آیت میں اہل کتاب منافقین کے بارے میں بحث مکمل کرتے ہوئے اور ان کے چہروں سے نفاق کے پردے ہٹا تے ہوئے مسلمانو ں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ : جس وقت وہ تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں لیکن کفر سے معمور دل کے ساتھ آتے ہیں اور اسی حالت میں تمہارے پا سے اٹھ جاتے ہیں اور منطقی استدلال اور تمہاری باتیں ان کے دل پر کچھ اثر نہیں کرتیں ( وَإِذَا جَائُوکُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْکُفْرِ وَھُمْ قَدْ خَرَجُوا بِہِ) ۔
لہٰذا وہ ظاہر اً حمایت حق میں باتیں کرتے ہیں ، اظہار ایمان کرتے ہیں اور تمہاری باتوں کی ریا کارانہ پذیرائی کرتے ہیں ، اس سے تمہیں دھوکا نہ ہو ۔
آیت کے آخر میں انھیں خطرے سے آگاہ کرتا ہے کہ ان تمام پر دہ پوشیوں کے باجود جو کچھ تم چھپاتے ہو خدا اس سے آگاہ اور با خبر ہے ( وَاللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا کَانُوا یَکْتُمُونَ) ۔
بعد والی آیت میں ان کے نفاق کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے : تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھو کے کہ گناہ ، ظلم اور حرام خوری کی راہ میں ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں (وَتَرَی کَثِیرًا مِنْھُمْ یُسَارِعُونَ فِی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاٴَکْلِھِمْ السُّحْتَ ) ۔۱
۱۔”سحت“ کے معنی کے بارے میں اس سورہ کی آیہ ۴۲ کے ذیل میں ” یسارعون“ کے بارے میں اسی سورہ کی آیہ ۴۱ کے ذیل میں اور ” اثم “ کے متعلق سورہ بقرہ آیہ ۲۱۹ کے ذیل میں جلد دوم میں بحث کی جاچکی ہے ۔
یعنی گناہ اور ظلم کے راستے میں یوں قدم بڑھا تے ہیں گویا باعث ِ فخر اہداف کی طرف بڑھ رہے ہیں اور بغیر کسی شرم کے کوشش کرتے ہیں کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں ۔
توجہ رہے کہ لفظ” اثم “ کفر کے معنی میں بھی آیا ہے او رہر قسم کے گناہ کے مفہوم میں بھی آیا ہے ۔ لیکن یہاں ” عدوان “ کے مقابلے میں آیا ہے ۔ لہٰذا بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیا ن کیا ہے : ایسے گناہ جن کا نقصان صرف کرنے والے ہی کو پہنچے بخلاف” عدوان “ کے جس کا نقصان دوسروں کو پہنچتا ہے ۔
یہ احتمال بھی بیان کیا گیا ہے کہ ” عدوان“ کا ذکر ” اثم “ کے بعد اصلاح کے مطابق خا ص کے بعد عام کاذکر ہے اور ان کے بعد حرام کھانے کا تذکرہ ” ذکر اخص“ کے طور پر ہے ۔ اس طرح پہلے تو ان کی ہر قسم کے گناہ کی بنا ء پر مذمت کی گئی ہے اس کے بعد اہمیت کی وجہ سے دو عظیم گناہوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ یعنی ایک ظلم و ستم اور دوسرا حرام خوری چاہے وہ رشوت کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں ۔
مختصریہ کہ قرآن اہل کتاب کے ان منافق افراد کو آشکار کرتا ہے اور ان کی مذمت کرتا ہے جو بڑی لا پر واہی سے ہر طرض کا گناہ سرانجام دیتے ہیں ، خصوصاً ظلم و ستم کرتے ہیں اور بالخصوص نا جائز مال کھاتے ہیں مثلاً رشوت اور سود کھاتے ہیں ۔
آیت کے آخر میں ان کے اعمال کی برائی تاکیداً ظاہرکرنے کے لئے فرمایا گیا ہے : یہ لوگ کیسا برا قبیح عمل انجام دیتے ہیں (لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔
کانو ا یعملون “ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اعمال کو وہ اتفاقیہ نہیں بجا لاتے بلکہ وہ ان پرڈٹے رہتے ہیں او ربار بار ان کا ارتکاب کرتے ہیں ۔
تیسری آیت میں ان کا علماء پر حملہ کیا گیا ہے جو اپنی خاموشی کے ذریعے انھیں گناہ کا شوق دلاتے تھے ،ارشاد ہوتاہے : عیسائی اور یہودی علماء انھیں گناہ آلودہ باتوں اور حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے(لَوْلاَیَنْھَاھُمْ الرَّبَّانِیُّونَ وَالْاٴَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمْ الْإِثْمَ وَاٴَکْلِھِمْ السُّحْتَ) ۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے ” ربانیوں “ ربانی “ کی جمع ہے اور یہ لفظ”رب “ سے لیا گیا ہے اس کا مطلب ہے ایسے علماء جو لوگوں کی خدا کی طرف دعوت دیتے ہیں ، لیکن زیادہ تر یہ لفظ عیسائی مذہبی علماء کے لئے استعمال ہوتا ہے ” احبار“ ” حبر “ ( بر وزن ” ابر “ کی جمع ہے ۔ اس کا مطلب ہے ایسے علماء جو معاشرے پر اچھا اثر مرتب کریں ، لیکن زیادہ تر یہ لفظ یہودی مذہبی علماء کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔
ضمناً سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ آیت میں لفظ” عدوان “ تھا لیکن اس آیت میں نہیں ہے ، بعض نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ ” اثم “ایسا وسیع مفہوم جس میں ”عدوان “ بھی داخل ہے ۔
اس آیت میں گذشتہ آیت کے بر خلاف ” قولھم الاثم “ آیا ہے ۔ یہ تعبیر ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو آلودہ باتوں سے بھی روکیں اور اعمال گناہ ۔ یا پھر قول یہاں اعتقاد کے معنی میں ہے یعنی علماء ایک فاسد معاشرے کی اصلاح کے لئے پہلے ان کے غلط افکار اور عقائد کی اصلاح کریں کیونکہ جب تک افکار نظر یات میں انقلاب نہیں آتا ہے یہ توقع نہیں کیا جاسکتی ہے کہ ان کے عمل میں کوئی گہری اصلاح ہو سکے۔ اس طرح سے آیت فاسد اور برے معاشرے کی اصلاح کے لئے علماء کو نشاندہی کرتی ہے کہ کام فکری انقلاب سے شروع کیا جائے۔
جیسے اصلی گناہ گاروں کی مذمت کی گئی ہے آیت کے آخر میں خاموش رہنے والے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر ترک کر دینے والے علماء کی بھی مذمت کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : کتنا برا ہے وہ کام جو یہ انجام دیتے ہیں ( لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَصْنَعُونَ ) ۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ جو لوگ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی عظیم ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے خا ص طو رپر علماء اور دانشمندان کا انجام بھی اصلی گناہ گاروں کا سا ہو گا ۔ در حقیقت یہ لوگ ان کے جرم میں شریک شمار ہو ں گے ۔
مشہورمفسرابن عباس سے منقول ہے ، وہ کہتے ہیں :
اپنی ذمہ داریوں کی پیمان نہ کرنے والے اور خاموش رہنے والے علماء کی مذمت میں یہ سخت ترین آیت ہے ۔
واضح ہے کہ یہ حکم خاموش رہنے والے یہودی اور عیسائی علماء سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ان تمام صاحبان ِ فکر و نظر ، راہبروں او رعلماء کے بارے میں ہے جو لوگوں کو گناہ سے آلودہ ہوتا دیکھیں اور انھیں ظلم و ستم کی راہ پر تیز گام پائیں او رخاموش بیٹھے رہیں ، کیونکہ خدا کا حکم تو سب کے لئے برابر ہے ۔
امیر المومنین حضرت علی (علیه السلام) نے اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا :
گذشتہ قومیں اس بناء پر ہلاک او رنابود ہو گئیں کہ وہ گناہ کی مرتکب ہوتی تھیں اور ان کے علماء سکوت اختیارکرلیتے تھے اور نہی عن المنکر نہیں کرتے تھے ۔ اس حالت میں ان پر خدا کا عذاب ، سزائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی تھیں ۔ پس اے لوگو! تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرو تاکہ تمہارا بھی وہی انجام نہ ہو۔ ۱
یہی مضمون نہج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ( خطبہ ۱۹۲) میں بھی ہے ، آپ نے فرمایا :
فان اللہ سبحانہ لم یلعن القراٰن الماضی بین ایدیکم الالترکھم الامر بالمعروف و النھی عن المنکر فلعن السفھا ء لرکوب المعاصی و الحکماء لترک التناھی “۔
گذشتہ زمانے کے لوگوں کو خدا تعالیٰ نے صرف اس لئے اپنی رحمت سے دور کردیا کہ انھوں نے امر المعروف او رنہی عن المنکر کو ترک کردیا ۔ اس نے عوام کو گناہ کے ارتکاب اور علماء کو نہی عن المنکر ترک کرنے پر اپنی لعنت کا حق دار قرار دیا اور انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ گذشتہ آیت میں عام لوگوں کے بارے میں لفظ ”یعملون “ آیا ہے اور زیر نظر آیت میں علماء کے لئے ” یصنعون“ استعمال ہوا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ ” یصنعون “ صنع“ کے مادہ سے ہے ۔ اس کا مطلب ہے ایسے کام جو بڑی توجہ او رمہارت سے انجام دئیے جائیں جب کہ ” یعملون “” عمل “کے مادہ سے ہے اور ہر کام کے لئے بولا جاتا ہے اگر نادان لوگ اور عوال برے کام انجام دیتے ہیں تو ان میں سے کچھ نادانی اور بے خبر ی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں لیکن علماء اور دانشور جو اپنی ذمہ داری پر عمل نہیں کرتے تو واضح ہے کہ وہ جانتے ہوئے اور ماہرانہ طور پر غلط کام انجام دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے عالم کے لئے جاہل سے زیادہ سخت سزا ہے ۔

 

۶۴۔ وَقَالَتْ الْیَھُودُ یَدُ اللهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ اٴَیْدِیھِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوطَتَانِ یُنفِقُ کَیْفَ یَشَاءُ وَلَیَزِیدَنَّ کَثِیرًا مِنْھُمْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ طُغْیَانًا وَکُفْرًا وَاٴَلْقَیْنَا بَیْنَھُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ کُلَّمَا اٴَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ اٴَطْفَاٴَھَا اللهُ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاٴَرْضِ فَسَادًا وَاللهُ لاَیُحِبُّ الْمُفْسِدِینَ ۔
ترجمہ
۶۴۔ اور یہودی کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ تو زنجیرسے بندھا ہو اہے ۔ انہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ اس بات کی وجہ سے رحمت ِ الہٰی سے دور ہیں جب کہ اس ( کی قدرت) کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں وہ جس طرح سے چاہے ( بخشتا اور )خرچ کرتا ہے اور یہ آیات جو تجھ پر تیرے پر وردگار کی نازل ہوئی ہیں ان میں سے بہت سوں کے طغیان او رکفر کو بڑھادیتی ہیں اور ان کے درمیان ہم نے قیامت تک کے لئے دشمنی اور عداوت ڈال دی ہے او رجب بھی انھوں نے جنگ کی آگ روشن کی خدا نے اسے خاموش کردیا او روہ زمین میں فساد کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔

 


 
۱۔ نور الثقلین جلد ۱ ص ۶۴۹ ۔
اور اگر اہل کتاب ایمان لائے اور انھوں نے تقویٰ اختیار کیا تویسائی او ریہودی علماء انھیں گناہ آمیز باتوں او رمال ِ حرام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma