۴۔ ”قاتلھم الله“ کا مفہوم

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
ایک اصلاحی درس۳۔ یہ خرافات دوسروں سے اخذ کئے گئے

قاتلھم الله“ گرچہ اصل میں اس معنی میں ہے کہ خدا ان سے جنگ کرے یا خدا انھیں قتل کردے لیکن جیسا کہ طبرسی نے ”مجمع البیان“ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ یہ جملہ لعنت سے کنایہ ہے یعنی خدا انھیں اپنی رحمت سے دُور رکھے ۔
اگلی آیت میں (اعتقادی شرک کے مقابلے میں) ان کے عملی شرک کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، دوسروں لفظوں میں ”شرک درعبادت“ کی نشاندہی کی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے: یہود ونصاریٰ نے پروردگار کے مقابلے میں اپن علماء اور راہبوں کو اپنا خدا قرار دیا (اتَّخَذُوا اٴَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اٴَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ) ۔ نیزمسیح ابن مریم کو بھی مرتبہٴ الوہیت پر فائز مانا (وَالْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ) ۔
”اٴحبار“ ”حبر“ کی جمع ہیں اور ”رھبان“”راھب“ کی جمع ہے ”حبر“ عالم ودانشمند کو کہتے ہیں اور راہب ایسے شخص کو کہتے ہیں جس نے ترکِ دنیا کے طور پر دیر گرجے میں سکونت اختیار کررکھی ہو اور مشغول عبادت رہتا ہو۔
کیا یہود ونصاریٰ اپنے پیشواوٴں کی عبادت کرتے تھے
اس میں شک نہیں ہے کہ یہود ونصاریٰ اپنے علماء اور راہبوں کو سجدہ نہیں کرتے تھے اور نہ ان کے لئے نماز، روزہ یا دیگر عبادات انجام دیتے تھے لیکن چونکہ انھوں نے غیرمشروط طور پر اپنے آپ کو ان کی اطاعت میں دے رکھا تھا یہاں تک کہ حکمِ خدا کے خلاف بھی جو احکام وہ دیتے تھے انھیں واجب العمل سمجھتے تھے ۔ اس اندھی اور غیر منطقی پیروی کو خدا نے عبادت سے تعبیر کیا ہے ۔
امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں یہ معنی بیان کیا گیا ہے ۔ انھوں نے فرمایا:
اٴما والله ماصا موالھم ولاصلوا ولٰکنھم احلوا لھم حراما وحرموا علیھم حلالاً فاتبعوھم وعبدوھم من حیث لایشعرون.
خدا کی قسم! وہ (یہود ونصاریٰ) اپنے پیشواوٴں کے لئے روزہ نماز نہیں بجالاتے لیکن ان کے پیشواوٴں نے ان کے لئے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیا اور انھوں نے اسے قبول کرلیا، ان کی پیروی کی اور توجہ کئے بغیر ان کی پرستش کی ۔(1)
ایک اور حدیث میں ہے:
عدی بن حاتم کہتا ہے: میں رسول الله کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ صلیب میری گردن میں تھی ۔ آپ نے مجھ سے فرمایا:
اے عدی! یہ بت اپنی گردن سے اتاردو۔
میں نے ایسا ہی کیا، پھر میں آپ کے مزید قریب گیا تو میں نے سُنا کہ آپ یہ آیت تلاوت کررہے تھے:
اتَّخَذُوا اٴَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ....
جب آپ نے آیت تمام کی تو میں نے عرض کیا: ہم کبھی اپنے پیشواوٴں کی پرستش نہیں کرتے، آپ نے فرمایا:
کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ حلالِ خدا کو حرام اور حرامِ خدا کو حلال کرتے ہیں اور تم ان کی پیروی کرتے ہو؟
میں نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، اس پر آپ نے فرمایا:
یہی ان کی عبادت ہے ۔(2)
اس امر کی دلیل واضح ہے کہ کیونکہ قانون بنانا خدا کا کام ہے اور اس کے علاوہ کوئی حق نہیں رکھتا کہ کوئی چیز لوگوں کے لئے حلال یا حرام کرے اور اسے قانون قرار دے، جو کام لوگ کرسکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ وہ قوانین کو کشف کریں اور جہاں ضرورت ہو مصادیق پر ان کی تطبیق کریں ۔
اس لئے اگر کوئی شخص قوانین الٰہی کے خلاف قانون بنائے اور کوئی اسے باقاعدہ مان لے اور بلا چون وچرا اسے قبول کرلے تو گویا وہ غیر خدا کے لئے خدا کے مقام کا قائل ہوا ہے اور یہ ایک طرح کا عملی شرک اوربت پرستی ہے اور دوسرے لفظوں میں غیر خدا کی عبادت ہے ۔
قرائن سے نتیجہ نکلتا ہے کہ یہود ونصاریٰ اپنے پیشواوٴں کے لئے اس قسم کے اختیارات کے قائل تھے کہ وہ بعض اوقات قوانینِ الٰہی میں جہاں مصلحت دیکھیں تبدیلی کردیں اور اب بھی گناہ بخشنے کا طریقہ عیسائیوں میں رائج ہے ۔ وہ پادری کے سامنے گناہ کا اعتراف کرلیں تو وہ کہتا ہے: میں نے بخش دیا ۔(3)
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عیسائی کی طرف سے حضرت عیسی(ع) کی پرستش اور یہودیوں کی طرف سے اپنے پیشواوٴں کی پرستش کی نوعیت میں فرق ہے، عیسائی حقیقتاً حضرت مسیح(ع) کو خدا کا بیٹا سمجھتے تھے جبکہ یہودی اپنے پیشواوٴں کی غیرمشروط اطاعت کی وجہ سے ان کی عبادت کرتے تھے ۔ لہٰذا مندرجہ بالا آیت نے بھی اس فرق کو ملحوظ رکھا ہے اور ان کا حساب ایک دوسرے سے الگ رکھا ہے ۔ آیت کہتی ہے:
اتَّخَذُوا اٴَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اٴَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ
پھر حضرت مسیح(ع) کا ذکر جدا کیا گیا ہے:
وَالْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ
یہ صورت نشاندہی کرتی ہے کہ قرآنی تعبیرات میں ہر طرح کی باریکیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔
آخر میں اس معاملے کی تاکید کی گئی ہے کہ یہ سب انسان پرستیاں بدعت اور جعلی مسائل میں سے ہیں اور کبھی بھی ان کا حکم نہیں دیا گیا کہ اپنے لئے ایک خدا بنالو بلکہ انھیں حکم دیا گیا ہے کہ صرف ایک تنہا خدا کی پرستش کرو (وَمَا اٴُمِرُوا إِلاَّ لِیَعْبُدُوا إِلَھًا وَاحِدًا) ۔ وہ معبود کہ جس کے علاوہ کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں (لَاإِلَہَ إِلاَّ ھُوَ) ۔ وہ معبود جو منزہ ہے اس سے جسے اس کا شریک قرار دیتے ہیں (سُبْحَانَہُ عَمَّا یُشْرِکُونَ) ۔

 


1۔ مجمع البیان، زیر نظر آیت کے ذیل میں اور نور الثقلین، ج۲، ص۲۰۹.
2۔ مجمع البیان مذکورہ آیت کے ذیل میں.
3۔ تفسیر نمونہ جلد دوم میں اہلِ کتاب کی انسان پرستی کے بار ے میں ہم نے کچھ وضاحتیں کی ہیں (دیکھئے: صفحہ۳۸۹، اردو ترجمہ).
 
ایک اصلاحی درس۳۔ یہ خرافات دوسروں سے اخذ کئے گئے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma