ان پر ور لالچی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
کوشش کرو کہ منافقین کو پہچان لوداستان یار غار

ہم کہہ چکے ہیں جنگ تبوک ایک استثنائی کیفیت رکھتی تھی اور اس کے لئے ایسے امور ضروری تھے جو بہت مشکل اور پیچیدہ تھے، اسی بنا پر چند ضعیف الایمان یا منافق افراد اس میدان میں شرکت کرنے سے لیت ولعل کرتے تھے، گذشتہ آیات میں خداتعالیٰ نے ایک گروہ کو سرزنش کی ہے کہ جب جہاد کا فرمان صادر ہوتا ہے تو بوجھل کیوں ہوجاتے ہو(اور سستی کیوں دکھاتے ہو)، نیز فرمایا ہے کہ جہاد کا حکم تمہارے فائدے میں ہے ورنہ خدا ایسا کرسکتا ہے کہ بے ارادہ اور تن پرور افراد کے بجائے شجاع، بہادر، صاحب ایمان اور عزم راسخ والے افراد لے آئے بلکہ یہاں تک کہ ان کے بغیر بھی وہ قدرت رکھتا ہے کہ اپنے پیغمبر کی حفاظت کرے جیسا کہ غار ثور اور لیلة المبیت والے واقعہ میں حفاظت کی ہے ۔
تعجب کی بات ہے کہ مکڑی کے جالے کے چند تار جو غار کے دہانے پر تنے ہوئے تھے اس بات کا سبب بن گئے کہ ہٹ دھرم اور سرکش دشمن کی فکرہی بدل جائے اور وہ غار کے دھانے سے ہی پلٹ آئے اور رسول اللہ صحیح وسالم رہے، جب خدا عنکبوت کے چند تاروں کے ذریعے نوع بشر کی تاریخ کا دھاربدل سکتا ہے تو اسے اس کی اس کی مدد کی کیا ضرورت ہے کہ وہ نازنخرے دکھاتے رہیں، درحقیقت یہ تمام احکام خودان کی ترقی اور تکامل کے لئے ہے ناکہ خدا کو ان کی حاجت ہے، اس گفتگو کے بعد قرآن دوبارہ مومنین کو جہاد کی طرف ہر پہلو سے دعوت دے رہا ہے اور سستی دکھانے والوں کو سرزنش کررہا ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: تم سب کے سب میدان جہاد کی طرف چل پڑو چاہے سبک بار ہو چاہے بوجھل(انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا ) ۔
”خفاف“ جمع ہے ”خفیف“ کی اور ”ثقال“ جمع ہے”ثقیل“ کی اور یہ دونوں لفظ ایک جامع مفہوم رکھتے ہیں جس میں انسان کے تمام تر کیفیات اور حالات شامل ہیں، چاہے انسان جوان ہو یا بوڑھا، مجرد ہو یا شادی شدہ ، اس کے افراد خانہ کم ہوں یا زیادہم غنی ہو یا فقیرابتلا میں ہوں یا مصیبت میں، اس کی زراعت ،باغ اور تجارت ہو یا نہ ہو، ہرصورت اور ہر حالت میں اور مقام اور ہر حیثیت میں اس پر لازم ہے کہ جب فرمان جہاد صادر ہوبس اسی آزادی بخش دعوت پر لبیک کہے، دوسرے ہر کام سے آنکھیں بند کرلے اور تلوار بکف میدان جنگ کی طرف چل کھڑا ہو۔
یہ جو بعض مفسرین نے ان دوالفاظ کو مندرجہ بالا معانی میں سے فقط ایک میں محدودقرار دیا ہے اس کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، دراصل ان میں سے ہر لفظ اس وسیع مفہوم کا مصداق ہے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: راہ خدا میں مالوں اور جانوں سے جہاد کرو(وَجَاھِدُوا بِاٴَمْوَالِکُمْ وَاٴَنفُسِکُمْ)، یعنی ہر پہلو سے جہاد کرو کیوں کہ ایسے طاقتور دشمن کے مقابلے میں جو اس دور کی سپر طاقت سمجھا جاتا ہے، اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں تھی ۔
لیکن اس بنا پر کہ پھر بھی کسی کو اشتباہ نہ ہوکہ یہ قربانی اور فداکاری خدا کے لئے فائدہ مند ہے، فرمایا گیا ہے : یہ تمہارے فائدے میں ہے، اگر تم جانو( ِ ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ)، یعنی اگر تم جان لو کہ جہاد سربلندی اور عزت کی کلید ہے اور ذلت اور کمزوری کے خاتمے کا ذریعہ ہے، اگر تم جان لو کہ کوئی قوم جہاد کے بغیر دنیا میں حقیقی آزادی اور عدالت تک نہیں پہنچ سکتی اور اگر تم جان لو کہ رضائے خدا، دائمی سعادت اور طرح طرح کی نعمات الٰہی تک پہنچنے کی راہ اسی عمومی مقصد نہضت اور ہمہ پہلو فدا کاری میں ہے، اسکے بعد بحث کا رخ سست ، کاہل اور کمزار ایمان والے افرتد کی طرف موڑا گیا ہے، یہ لوگ اس عظیم معرکے میں شرکت سے بچنے کے لئے طرح طرح کے بہانے بناتے تھے ، اس سلسلے میں رسول اللہ سے فرمایا گیا ہے: اگر مال غنیمت دسترس میں ہوتا اور سفر نزدیک کا ہوتا تو متاع دنیا کے لئے یہ بہت ہی جلدی تیری دعوت پر لبیک کہتے اور اس بچھے ہوئے دسترخوان پر بیٹھنے کے لئے بھگ دوڑ کرتے( لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَاتَّبَعُوکَ ) ۔(۱)
لیکن اب جب کہ سفر دور کا ہے سستی دکھاتے ہیں اور بہانے بناتے ہیں (وَلَکِنْ بَعُدَتْ عَلَیْھِمْ الشُّقَّةُ) ۔(۲)
تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ صرف بہانے نہیں بناتے بلکہ ”جلدی سے تمہارے پاس آجاتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہ اگر ہم میں طاقت ہوتی تو آپ کے ساتھ ہم بھی نکلتے“( وَسَیَحْلِفُونَ بِاللهِ لَوْ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُم)، اور اگر آپ دیکھتے ہیۻ کہ ہم اس معرکے میں آپ کے ساتھ شرکت نہیں کررہے ہیں تو اس کی وجہ یماری معذوری اور عدم قدرت ہے اور ہم مختلف مسائل میں گرفتار ہیں ۔
”ان اعمال اور ان دروغگوئیوں کی وجہ سے درحقیقت وہ اپنے آپ کو ہلاک کردیتے ہیں “( یُھْلِکُونَ اٴَنفُسَھُمْ )، لیکن خدا جانتا ہے وہ جھوٹ بولتے ہیں(وَاللهُ یَعْلَمُ إِنَّھُمْ لَکَاذِبُونَ) ۔
وہ مکمل طور پر طاقت رکھتے ہیں لیکن چوںکہ کام اتنا آسان نہیں ہے بلکہ کٹھن اور مشکل ہے لہٰذا وہ جھوٹی قسموں کا سہارا لیتے ہیں ۔
یہ امر جنگ تبوک اور زمانہ رسول سے مخصوص ننہیں بلکہ ہر معاشرے میں بیکار، سست اور کاہل یا منافقین، لالچی اور ابن الوقت لوگوں کا ایک گروہ ہوتا ہے جو ہمیشہ منتظر رہتا ہے کہ کامیابی اور ثمرات کے لمحات آپہنچیں تو اس وقت پہلی صف میں آکھڑے ہوں گے اور شور مچانے لگےں گے، گریبان چاک کرےں گے، اپنے آپ کو مبارز اور مجاہد اول قرار دیں گے اور اپنا تعارف دلسوز ترین افراد میں سے کروائیں گے تاکہ بغیر زحمت کے دوسروں کی کامیابی کے ثمرات سے بہرہ ور ہوں لیکن یہی مبارز، مجاہد، سینہ چاک اور دلسوز مشکل حوادث کے موقع پر کسی نہ کسی طرف بھاگ کھڑے ہوں گے اور اپنے فرار کے لئے عذر وبہانے تراشیں گے، کوئی خود بیمار ہوگیا ہوگا، کسی کا بیٹا بستر بیماری پر پڑا ہوگا ، کسی کی بیوی وضع حمل میں مبتلا ہوگی، کوئی آنکھیں کمزور ہونے کی بات کرے گا اور کوئی مقدمات کی تیاری میں لگا ہوگا اسی طرح کے بیسیوں بہانے ہوں گے، لیکن بیدار اور روشن دل رہبروں پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں کی شناخت شروع میں کروادیں اور اگر یہ لوگ قابل اصلاح نہ ہوں تو انہیں اپنی صفوں ست نکال باہر کریں ۔

 

۴۳ عَفَا اللهُ عَنْکَ لِمَ اٴَذِنتَ لَھُمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْکَاذِبِینَ
۴۴ لَایَسْتَاٴْذِنُکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اٴَنْ یُجَاھِدُوا بِاٴَمْوَالِھِمْ وَاٴَنفُسِھِمْ وَاللهُ عَلِیمٌ بِالْمُتَّقِینَ
۴۵ إِنَّمَا یَسْتَاٴْذِنُکَ الَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُھُمْ فَھُمْ فِی رَیْبِھِمْ یَتَرَدَّدُونَ
ترجمہ
۴۳۔ خدا نے تمہیں بخش دیا کہ تم نے انہیں اجازت کیوں دی، اس سے پہلے کہ جو راست گوہیں تیرے لئے واضح ہوں اور تم جھوٹوں کو پہچان لو۔
۴۴۔ وہ جو خدا اور روز جزا پر ایمان رکھتے ہیں تم سے کبھی بھی (راہ خدا میں)اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے سے رخصت نہیں چاہیں گے اور خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے ۔
۴۵۔ صرف وہ لوگ تم سے رخصت چاہیں گے جو خدا اور روز جزا پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک وتردد میں ہیں لہٰذا وہ اپنے تردد میں سرگرداں ہیں ۔

 


۱۔ ”عرض“ اس عارضی چیز کو کہتے ہیں جو جلد زائل ہوجاتی ہے اور جسے دوا م حاسل نہیں ہوتا، عام طور پر دنیا کی مادی نعمتوں کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے اور ”قاصد“ سہل وآسان کے معنی میں ہیں کیوں کہ اصل میں یہ لفظ”قصد“ کے مادہ سے ہے اور عموما لوگ اپنے قصد کو آسان مسائل میں سمجھتے ہیں ۔
۲۔ ”شقة“ ایسی سنگلاخ یا دور دراز راہوں کو کہتے ہیں کہ جنہیں عبور کرنے کے لئے بڑی مشقت اور زحمت درکار ہوتی ہے ۔
 
کوشش کرو کہ منافقین کو پہچان لوداستان یار غار
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma