تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۱۔ آیت میں ”شاھد“ سے مراد ۴۔ ایک حدیث:

زیرِ نظر آیت کی تفسیر کے بارے میں مفسّرین کے درمیان بہت اختلاف ہے، آیت کے الفاظ کی جزئیات، ضمائر، موصول اور اسم اشارہ کے بارے میں مختلف نظریے ہیں، اس تفسیر میں ان سب کا ذکر ہماری روش کے خلاف ہے، دوتفاسیر جو زیادہ واضح معلوم ہوتی ہیں اہمیت ترتیبی کے اعتبار سے یہاں ذکر کی جاتی ہیں ۔
۱۔ آیت کی ابتداء میں فرمایا گیا ہے: کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہے اور اس کے پیچھے خدا کی طرف سے شاہد آیا ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (توریت) پیشوا، رحمت اور ان کی عظمت کو واضح کرنے والی کتاب کی حیثیت سے آئی ہے، اس شخص کی طرح ہے جو ان صفات، نشانیوں اور واضح دلائل کا حامل نہیں ہے (اٴَفَمَنْ کَانَ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّہِ وَیَتْلُوہُ شَاھِدٌ مِنْہُ وَمِنْ قَبْلِہِ کِتَابُ مُوسیٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً) ۔
یہ شخص پیغمبر اکرم ہیں، ان کی واضح دلیل قرآن مجید ہے، ان کی نبوت کی صداقت کے شاہد علی(علیه السلام) جیسے مومن صادق ہیں اور قبل ازیں ان کی نشانیاں اور صفات تورات میں آچکی ہیں، اسی طرح تین واضح طریقوں سے آپ کی دعوت کی حقانیت ثابت ہوگئی ہے ۔
پہلا راستہ قرآن ہے، جو ان کے ہاتھ میں ایک واضح دلیل ہے ۔
دوسرا راستہ گزشتہ آسمانی کتب ہیں، جن میں آنحضرت کی نشانیاں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں اور رسول الله کے زمانے کے ان کتب کے پیروکار انھیں اچھی طرح سے پہچانتے ہیں اور اسی بناء پر ان کے انتظار میں تھے ۔
تیسرا راستہ آپ کے فدا کار پیروکار اور مخلص مومنین ہیں کہ جو آپ کی دعوت اور گفتار کی صداقت کو واضح کرتے تھے کیونکہ کسی مکتب کی حقانیت کی ایک نشانی اس مکتب کے پیروکاروں سے پہچانا جاتا ہے ۔
کیا ان زندہ دلائل وبراہین کے باوجود انھیں دوسرے مدعیانِ نبوت پر قیاس کیا جاسکتا ہے یا ان کی دعوت کی صداقت میں شک وشبہ کیا جاسکتا ہے ۔ (۱)
اس گفتگو کے بعد قرآن متلاشیانِ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھیں ضمنی طور پر ایمان کی دعوت دیتا ہے: ایسے پیغمبر پر کہ جو روشن دلیل رکھتا ہے ایمان لائیں گے (اٴُوْلٰئِکَ یُؤْمِنُونَ) ۔
لفظ”اٴُوْلٰئِکَ“ میں جن افراد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اگرچہ ان کا ذکر نہیں ہے لیکن اگر گزشتہ آیات کی طرف توجہ کرتے ہوئے اس آیت میں ان کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے اور ان کی طرف اشارے کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
اس کے بعد منکرین کی گہانی یوں بیان کی گئی ہے: مختلف گروہوں میں سے جو کوئی اس سے کفر کرے گا تو اس کی وعدہ گاہ جہنم ہے (بِہِ وَمَنْ یَکْفُرْ بِہِ مِنَ الْاٴَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہُ) ۔
پورا جملہ مبتداء، اس کی خبر محذوف ہے اور اس کی تقدیر اس طرح ہوگی:
”کمن لیس کذلک“ یا ”کمن یرید الحیاة الدنیا“
آیت کے آخر میں قرآن کے دیگر بہت سے مواقع کی طرف سیرتِ قرآن کے روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے تمام لوگوں کے لئے ایک عمومی درس بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے: اب جبکہ ایسا ہے اور تیری دعوت کی صداقت کے لئے یہ تمام شاہد موجود ہیں جو کچھ تجھ پر نازل ہوا ہے اس کے بارے میں ہرگز شک وشبہ کو راہ نہ دے (فَلَاتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ مِنْہُ) ۔ ”کیونکہ یہ تیرے پروردگار کی طرف سے کلامِ حق ہے“ (إِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ) ۔ ”لیکن بہت سے لوگ جہالت، تعصّب اور خود پسندی کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے (وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لَایُؤْمِنُونَ) ۔
۲۔ دوسری تفسیر جو آیت کے لئے ذکر ہوئی ہے یہ ہے کہ اصل مقصد سچّے مومنین کی حالت بیان کرنا ہے کہ وہ ان واضح دلائل وشواہد اور گزشتہ کتب میں موحود شہادتوں کی بنیاد پر دعوتِ پیغمبر کی صداقت پر ایمان لائے ہیں، لہٰذا ”من کان علیٰ بیّنة من ربّہ“ کے جملے سے مراد وہ تمام لوگ ہیں کہ جو کھلی آنکھوں سے اور اطمینان بخش دلائل کے ذریعے اور اس کے لانے والے پیروی کررہے ہیں اور اس سے مراد خود پیغمبر اکرم نہیں ہیں ۔
یہ تفسیر گزشتہ تفسیر پر یہ ترجیح رکھتی ہے کہ مبتداء کی خبر آیت میں صراحت سے آئی ہے، اس میں کوئی محذوف نہیں اور ”اولئک“ کا مشارالیہ خود آیت میں مذکور ہے، نیز آیت کا پہلا حصّہ کہ جو ”اٴَفَمَنْ کَانَ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّہِ“ شروع ہوتا ہے ”اٴُوْلٰئِکَ یُؤْمِنُونَ“تک ایک مکمل جملہ ہے اور اس میں کوئی حذف وتقدیر نہیں ہے ۔
بلاشبہ آیت کی دوسری تعبیریں اس تفسیر سے مناسبت نہیں رکھتیں، اس لئے ہم نے اس تفسیر کو دوسرے مرحلے میں قرار دیا ہے (غور کیجئے گا) ۔
بہرحال آیت اسلام اور سچّے مسلمانوں کے امتیازات اور اس مکتب کے انتخاب میں محکم دلائل پر ان کے اعتماد کرنے کی طرف اشارہ ہے جبکہ دوسری طرف سے آیت متکبر منکرین کا انجامِ بد بیان کررہی ہے ۔

 

۱۔ آیت میں ”شاھد“ سے مراد ۴۔ ایک حدیث:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma