ایک سوال اور اس کا جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۱۔ ”إِجْرَام“کا مفہوم:کہاں ہے عذاب؟

اس آیت کے مطالعہ سے فوراً یہ سوال سامنے آتا ہے اور بہت سے مفسّرین نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ خدا کسی کے گمراہ کرنے کا ارادہ کرے، کیا ایسا ہو تو یہ جبر واکراہ کی دلیل نہیں ہوگی اور کیا یہ جو بنیاد ہے کہ انسان ارادہ واختیار میں آزاد ہے اسے قبول کرلینے کے بعد ایسی چیز قابلِ قبول ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ مندرجہ بالا مباحث میں واضح ہوچکا ہے اورہم نے بارہا اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بعض اوقات انسان مسلسل کچھ اعمال بجالاتا ہے جس کا نتیجہ دائمی گمراہی اور ہمیشہ کے انحراف اور حق کی طرف لوٹنے کی صورت میں نکلتا ہے، ہمیشہ کی ہٹ دھرمی، گناہوں پر دائمی اصرار اور حق طلب سچے رہبروں کی دشمنی، انسانی فکر پر ایسا ضخیم پردہ ڈال دیتی ہے کہ انسان میں آفتابِ حق وحقیقت کی شعاع دیکھنے کی تھوڑی سی صلاحیت بھی نہیں رہتی، چونکہ یہ حالت ایسے اعمال کا نتیجہ ہے کہ جو انسان خود انجام دیتا ہے لہٰذا یہ کسی طرح بھی جبر واکراہ کی دلیل نہیں ہوسکتی بلکہ یہ عین اختیار ہے جو کچھ خدا سے مربوط ہے یہ ہے کہ اس نے ایسے اعمال میں ایسی تاثیر قرار دی ہے، قرآن مجید کی آیات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اس سلسلے میں ہم نے سورہٴ بقرہ کی آیت ۷ کے ذیل میں اور دیگر مواقع پر اشارہ کیا ہے ۔
زیرِ بحث آخری آیت میں ایک بات جملہٴ معترضہ کے طور پر آئی ہے، یہ ان مباحث کی تاکید کے لئے ہے جو حضرت نوح(علیه السلام) کے واقعہ کے سلسلے میں گزشتہ اور آئندہ آیات میں موجود ہیں، ارشاد ہوتا ہے : دشمن کہتے ہیں کہ یہ بات اس (محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلّم) نے خود سے گھڑ کر خدا کی منسوب کردی ہے (اٴَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ) ۔ ان کے جواب میں کہہ دو کہ اگر مَیں نے یہ اپنی طرف سے گھڑی ہے اور خدا کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے تو اس کا گناہ مجھ پر ہے (قُلْ إِنْ افْتَرَیْتُہُ فَعَلَیَّ إِجْرَامِی) ۔ لیکن مَیں تمھارے گناہوں سے بیزار ہوں (وَاٴَنَا بَرِیءٌ مِمَّا تُجْرِمُونَ)

 

۱۔ ”إِجْرَام“کا مفہوم:کہاں ہے عذاب؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma