۳۔ گناہ ۔معاشرے کی تباہی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۴۔ ”یزدکم قوة الیٰ قوتکم“ سے کیامراد ہے؟۲۔سچے رہبر اپنے پیروکاروں سے جزا نہیں چاہتے

مندرجہ بالا آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی نظر میں روحانی اورمادی مسائل میں ایک واضح تعلق موجود ہے، یہاں گناہ سے استغفار، خدا کی طرف رجوع اور توبہ کو آبادی، خوشی، شادابی اور قوت میں اضافے کے ذریعے کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے ۔
یہ حقیقت قرآن کی اور بہت سی آیات میں بھی نظر آتی ہیں، منجملہ ان کے سورہ نوح میں اس عظیم پیغمبر کی زبانی فرمایا گیا ہے:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا یُرْسِلْ السَّمَاءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا وَیُمْدِدْکُمْ بِاٴَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَیَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَلْ لَکُمْ اٴَنْھَارً.
ان سے میں نے کہااپنے گناہوں سے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں استغفار کرو کہ وہ بخشنے والا ہے تاکہ وہ پے در پے تم پر آسمان سے بارش برسائے اور مال واولاد کے ذریعے تمہاری مدد کرے اور تمھارے لئے باغات اور نہریں مہیا کرے ۔ (نوح:۱۰۔۱۲)
یہ امر جاذب توجہ ہے کہ اسلامی روایات میں ہے کہ :
ربیع بن صبیح کہتا ہے کہ میں حسن (علیه السلام)کے پاس تھا، ایک شخص دروازے سے داخل ہوا، اس نے اپنی آبادی کی خشک سالی کی شکایت کی ، حسن (علیه السلام) نے اس سے کہا: استغفار کرودسراآیا اس نے فقر وفاقہ کی شکایت کی، اس سے بھی کہا: استغفار کرو، تیسرا آیا، اس نے کہا: دعا کریں خدا مجھے بیٹا عطا کرے، اس بھی کہا: استغفار کرو، ربیع کہتا ہے کہ میں (تعجب کیا اور )اس سے کہا : جو شخص آپ کے پاس آتا ہے اور وہ کوئی مشکل پیش کرتا ہے اور نعمت کا تقاضا کرتا ہے اسے یہی حکم دیئے جارہے ہو اور سب سے کہتے ہو کہ استغفار کرو اور خدا سے بخشش طلب کرو، اس نے میرے جواب میں کہا: جو کچھ میں نے کہا ہے اپنی طرف سے نہیں کہا، میں یہ مطلب کلام خدا سے لیا ہے اور یہ وہی بات ہے جو وہ اپنے پیغمبر نوح سے کہتا ہے، اس کے بعد انھوں نے سورہ نوح کی ان (مذکورہ )آیات کی تلاوت کی ۔
جن لوگوں کی عادت ہے وہ ایسے مسائل کو معمولی سمجھتے ہوئے گزرجاتے ہیں وہ ان امور میں موجود ایک روحانی تعلق جانے بغیر ان کے قائل ہوجاتے ہیں اور مزید کوئی تجربہ وتحلیل نہیں کرتے لیکن اگر زیادہ غوروفکرسے کام لیا جائے تو ہمیں ان امور کے درمیان تربیتی رشتے نظرآئیں گے جن کی طرف توجہ کرنے سے مادی اور روحانی مسائل کو آپس میں اس طرح مالایا جاسکتا ہے جیسے ایک کپڑے کے ریشے آپس میں ملے ہوتے ہیں یا جیسے کسی درخت کی جڑ تنااور پھل پھول آپس میں مربوط ہوتے ہیں ۔
کونسا ایسا معاشرہ ہے جو گناہ، خیانت، نفاق، چوری ، ظلم اور تن پروری سے آلودہ ہو اور پھر بھی وہ آباد اور پربرکت رہے ۔
کونسا معاشرہ ہے جو تعاون وہمکاری کی روح گنوا بیٹھے جنگ، نزاع اور خونریزی اس کی جگہ لے لے اور پھر بھی اس کی زمینیں سرسبز وشاداب ہوں اور وہ اقتصادی طور پر خوشحال ہو۔
کونسا معاشرہ ہے جس کے لوگ طرح طرح کی ہواووہوس میں آلودہ ہوں پھر بھی وہ طاقتور ہواور دشمن کے مقابلے میں پامردی سے کھڑا ہوسکے ۔
صراحت سے کہنا چاہیئے کہ کوئی ایسا اخلاقی مسئلہ نہیں مگر یہ کہ وہ لوگوں کی مادی زندگی پر مفید اور اصلاحی اثر کرے، اسی طرح کوئی صحیح اعتقاد اور ایامن ایسا نہیں کہ جو معاشرے کو آباد، آزاد، بااستقلال اور طاقتور بنانے میں موثر ہو۔
جو لوگ اخلاقی مسائل، مذہبی عقیدہ اور توحید پر ایمان کو مادی مسائل سے جدا کرکے دیکھتے ہیں انھوں نے نہ معنوی اور روحانی مسائل کو اچھی طرح سے پہچانا ہے اور نہ مادی مسائل کو، اگر دین لوگوں میں تکلفات اور تشریفات، ظاہری آداب اور مفہوم ومعنی سے خالی شکل میں ہو تو واضح ہے کہ معاشرے کے مادی نظام میں اس کی کوئی تاثیر نہیں ہوگی، لیکن اگر روحانی اعتقادات روح انسانی کی عمیق گہروئیوں میں اس طرح سے اتر جائے کہ اس کے اثرات ہاتھ، پاؤں، آنکھ، کان، زبان اور جسم کے تمام ذرات میں ظاہر ہوں تو ان اعتقاد کے معاشرے پر اصلاحی آثار کسی سے مخفی نہیں رہیں گے ۔
ہوسکتا ہے مادی برکات کے نزول سے استغفار کے تعلق کے بعض مراحل میں ہم صحیح طورپر نہ سمجھ سکیں لیکن اس میں شک نہیں کہ اس کے بہت سے حصے ہمارے لئے قابل فہم ہیں ۔
دور حاضر میں ہمارے اسلامی ممالک ایران کے اسلامی انقلاب میں ہم نے اچھی طرح مشاہدہ کیا ہے کہ اسلامی اعتقادات اور اخلاقی اوروحانی قوت کس طرح دور حاضر کی طاقتورترین اسلحہ، طاقتور افواج اور استعمار ی سپر طاقتوں پر کامیاب ہوگی یہ چیز نشاندہی کرتی ہے کہ دینی عقائد اور مثبت روحانی اخلاق کس حد تک اجتماعی اور سیاسی مسائل میں کارگر ہیں ۔

 

۴۔ ”یزدکم قوة الیٰ قوتکم“ سے کیامراد ہے؟۲۔سچے رہبر اپنے پیروکاروں سے جزا نہیں چاہتے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma