یوسف (ع) مصر کے خزانہ دار کی حیثیت سے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
چند اہم نکات سوره یوسف/ 54 تا 57

حضرت یوسف علیہ السلام جیسے عظیم نبی کی عجیب زندگی کی تفصیل میں ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ آخر ان کی پاکدامنی سب پر ثابت ہو گئی یہاں تک کہ ان کے دشمنوں نے ان کی پاکیز گی کی گواہی دی اور یہ ثا بت ہو گیا کہ جس گناہ کی وجہ سے وہ زندان میں ڈالے گئے تھے وہ پاکدامنی تقویٰ اور پر ہیز گاری کے سواکچھ نہ تھا۔
ضمناً یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ بے گناہ قیدی علم ، آگہی، دانشمندی ، انتظامی صلاحیت اور فہم و فراست کی بہت اعلیٰ سطح کا مرکز ہے کیونکہ اس نے ” ملک‘ ‘( بادشاہ مصر) کے خوان کی تعبیر بتاتے ہوئے آئندہ کی پیچیدہ اقتصادی مشکلات بیان کرتے ہوئے ساتھ ہی ان سے نجات کے راستے کی نشاندہی بھی کردی تھی ۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد قرآن کہتا ہے ؛ ” باد شاہ نے حکم دیا کہ اسے میرے پاس لے آوٴ تاکہ میں اسے اپنامشیر اور نمائندہ خاص بناوٴ‘ ‘ اور اپنی مشکلات حل کرنے کے لئے اس کے علم و دانش اور انتظامی صلاحیت سے مدد لوں ( وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِہِ اٴَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِی) ۔
پادشاہ کا پر جوش پیام لیکر اس کا خاص نمائندہ قید خانے میں یوسف کے پاس پہنچا۔ اس نے بادشا ہ کی طرف سلام و دعا پہنچا یا اور بتا یا کہ اسے آ پ سے شدید لگاوٴ ہو گیا ہے ۔ اس نے مصر کی عورتوں کے بارے میں تحقیق سے متعلق آپ کی درخواست کی عملی جامہ پہنا یا اور سب نے کھل کر آپ کی پاکدامنی اور بے گناہی کی گواہی دی ہے ۔ لہٰذا اب تاخیر کرنے کی گنجائش نہیں رہی اٹھیئے تاکہ ہم اس کے پاس چلیں ۔
حضرت یوسف (ع) پادشاہ کے پاس تشریف لائے ۔ ان کی آپس میں بات چیت ہوئی ۔ باد شاہ نے ان کی گفتگو سنی اور آپ کی پر مغز اور نہایت اعلیٰ باتیں سنیں ۔ اس نے دیکھا کہ آپ کی باتیں انتہائی علم و دانش اور دانائی سے معمور ہیں تو پہلے سے بھی زیادہ آپ کا شیفتہ ہو گیا۔
کہنے لگا : آپ آج سے ہمارے ہاں اعلیٰ قدرت و منزل اور وسیع اختیارات کے حامل ہیں اور ہمارے نزدیک قابل ِ اعتماد رہیں گے ( فَلَمَّا کَلَّمَہُ قَالَ إِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِینٌ اٴَمِینٌ ) ۔
آج سے اس ملک کے اہم کام آپ کے سپرد ہیں اور آپ کو امور کی اصلاح کے لئے کمر ہمت باندھ لینا چاہئیے کیونکہ میرے خواب کی جو تعبیر آپ نے بیان کی ہے اس کے مطابق اس ملک کو شدید اقتصادی بحران در پیش ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس بحران پر صرف آپ ہی قابو پا سکتے ہیں ۔
حضرت یوسف (ع) نے تجویز پیش کہ مجھے اس علاقہ ک ے خزانوں کی ذمہ داری سونپ دی جائے کیونکہ میں اچھا محافظ ہوں اور اس کام کے اسرار سے بھی واقف ہوں ( قَالَ اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْاٴَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ) ۔
حضرت یوسف (ع) اچھی طرح جانتے تھے کہ ظلم سے بھرے اس معاشرے کی پریشانیوں کی ایک اہم بنیاد اس کے اقتصادی مسائل میں ہیں۔ لہٰذا انھوں نے سوچا کہ جب کہ انہیں مجبور اً آپ کی طرف آنا پڑا تو کیا ہی اچھا ہے کہ مصر کی اقتصادیات کو اپنے ہاتھ میں لے لیں اور محروم و مستضعف عوام کی مدد کے لئے آگے بڑھیں اور جتنا ہو سکے طبقاتی تفاقت اور اونچ نیچ کو کم کریں ، مظلوموں کا حق ظالموں سے لیں اور اس وسیع ملک کی بد حالی کو دور کریں ۔ آپ کی نظر میں تھا کہ خاص طور پر زرعی مسائل اس ملک میں زیادہ اہم ہیں اس بات پر بھی توجہ رکھنا ہو گی چندسال فراوانی کے ہوں گے اور پھر خشکی کے سال در پش ہوں گے لہٰذا لوگوں کو زیادہ سے زیادہ غلّے پیدا کرنے اور پھر انہیں احتیاط سے محفوظ رکھنے اور نہایت کم خرچ کرنے پر آمادہ کرنا ہو گا تاکہ قحط کے سالوں کے لئے غلہ ذخیرہ کیا جاسکے ۔ لہٰذا اس مقصد کے لئے آپ کو یہی بہتر معلوم ہواکہ آپ مصر کے خزانوںکو اپنی سر پرستی میں لینے کی تجویز پیش کریں۔
بعض نے لکھا ہے کہ اس سال بادشاہ سخت مشکلات میں گھرا ہوا تھا اور کسی طرح ان سے نجات چاہتا تھا لہٰذا اس نے تمام امور کی باگ ڈور حضرت یوسف (ع) کے ہاتھ میں دے دی اور خود کنارہ کشی اختیار کرلی ۔
بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ اس نے عزیز مصرکی جگہ حضرت یوسف (ع) کواپنا وزیر اعظم بنا لیا۔
یہ احتمال بھی ہے کہ اس آیت کے ظاہری مفہوم کے مطابق وہ صرف مصر کے وزیر خزانہ بنے ہوں لیکن اسی سورہ کی آیت ۱۰۰۔ اور۔۱۰۱/ کہ جن کی تفسیر انشاء اللہ آئے گی اس امر کی دلیل ہیں کہ آخر کار آپ بادشاہ ہوگئے اورتمام امور مملکت کی باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں آگئی ۔ اگر چہ آیت ۸۸/ میں ہے کہ یوسف (ع) کے بھائیوں نے ان سے کہا :” یا ایھا العزیز“ ۔
یہ امر کی دلیل ہے کہ آپ نے عزیز مصر کا منصب سنبھالا مگر اس میں کوئی مانع نہیں کہ آپ نے یہ مناسب تدریجاً حاصل کئے ہوں ۔ پہلے وزیر خزانہ ہوئے ہوں پھر وزیر اعظم اور پھر بادشاہ ۔
بہر حال اس مقام پر خدا کہتا ہے : اور اس طرح ہم نے یوسف (ع) سر زمین مصر پر قدرت عطا کی کہ وہ جیسے چاہتا ہے اس میں تصرف کرتا تھا( وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْاٴَرْضِ یَتَبَوَّاٴُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَاءُ ) ۔
جی ہاں ! ہم اپنی رحمت اور مادی و روحانی نعمتیں جسے چاہتے ہیں اور اہل پاتےہیں عطا کرتے ہیں ( نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ) ۔
اور ہم نیکو کاروں کا اجر ہرگز ضائع نہیں کریں گے “۔ اگر چہ اس میں تاخیر ہو جائے تاہم آخر کار جو کچھ ان کے لائق ہوا انہیں دیں گے کیونکہ ہم کسی نیک کو فراموش نہیں کرتے ( وَلاَنُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ) ۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم صرف دنیاوی اجر ہی نہیں دیں بلکہ ”جو اجر انہیں آخرت میں ملے گا وہ اہل ایمان اور صاحبان ِ تقویٰ کے لئے زیادہ اچھا ہے“
( وَلَاٴَجْرُ الْآخِرَةِ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ) ۔

 

چند اہم نکات سوره یوسف/ 54 تا 57
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma