پہلے ظالم اور تم

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
شان نزولانسان قرآن کریم کی نظر میں

ان آیات میں بھی ظالموں اور مجرموں کی اس جہان میں سزاوٴں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مسلمانوں کو گزشتہ زمانے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ان کے گوش گزار کیا گیا ہے کہ اگر ان کی راہ پر چلیں تو ان جیسی سر نوشت میں گرفتار ہو گے ۔
پہلی آیت میں کہا گیا ہے : ہم نے تم سے پہلے کی امتوں کو ہلاک اور نابود کر دیا جبکہ انہوں نے ظلم کیا اور وہ ان انبیاء پر ہر گز ایمان نہ لائے جو ان کے پاس واضح دلائل اور معجزات کے ساتھ ان کی ہدایت کے لئے آئے تھے ( وَ لَقَدْ اٴَھْلَکْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَ جاء َتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّناتِ وَ ما کانُوا لِیُؤْمِنُوا )
آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے : ایسا انجام کسی خاص جماعت سے مخصوص نہیں ہے ۔ ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں (کَذلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمینَ
بعد والی آیت میں اس بات کو زیادہ صراحت سے بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : اس کے بعد ہم نے تمہیں زمین پر ان کا جانشین قرار دیا تا کہ دیکھیں کہ تم کس طرح عمل کرتے ہو ( ثُمَّ جَعَلْناکُمْ خَلائِفَ فِی الْاٴَرْضِ مِنْ بَعْدِھِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُون

چند قابل توجہ نکات

۱۔ ”قرون “ کا مطلب : ” قرون “ ” قرن “ کی جمع ہے ۔ ” قرن “ عام طور پر ایک طویل زمانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ علماء لغت نے کہا ہے ایسی قوم اور جمیعت کے معنی میں بھی لفظ استعمال ہوتا ہے جو ایک ہی زمانے میں زندگی بسر کرتے ہوں کیونکہ اس کا اصلی مادہ ” اقتران “ سے ہے جس کا مطلب ہے ” نزدیک ہونا ۔ “ زیر بحث آیت میں بھی ” قروان“ اس معنی میں یعنی ہم عصر گروہوں اور قوموں کے لئے استعمال ہوا ہے ۔
۲ ۔ قوموں کی بربادی کی وجہ ؟ مندرجہ بالا آیات میں قوموں کی بربادی اور نابودی کی علت ظلم قرار دی گئی ہے یہ اس بنا پر ہے کہ لفظ --” ظلم “ ایسا وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ جس میں ہر قسم کی برائی اور گناہ شامل ہے ۔
۳ ۔” وما کانو ا لیوٴمنوا “ کا مفہوم : اس کا معنی ہے ” ایسا نہ تھا کہ وہ ایمان لاتے “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا صرف اس گروہ کو ہلاک کرنے کی سزا دیتا ہے جس کےت آیندہ ایمان لانے کی امید نہ ہو ۔ اس طرح سے وہ قومیں کہ جن کے لئے ممکن ہو کہ آیندہ ایمان لے آئیں گی انھیں ایسی سزائیں نہیں دی جاتیں کیونکہ ان دونوں میں بہت فرق ہے کہ ” وہ ایمان نہیں لائے “ اور ” ایسا نہ تھا کہ وہ ایمان لائیں “ ( غور کیجئے گا )
۴۔ ”لننظر کیف تعلمون “ کا مطلب: اس کا لفظی معنی یہ ہے : تا کہ ہم دیکھیں کہ تم کس طرح عمل کرتے ہو “ ۔ مسلم ہے کہ نہ اس کا مقصود آنکھ سے دیکھنا ہے نہ دل کی نگاہ سے دیکھنا ہے کیونکہ خدا میں دونوں چیزیں نہیں ہیں بلکہ اس مفہوم ہے ایک حالت جو انتظار سے مشابہت رکھتی ہے یعنی تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دیا ہے اور ہمیں انتظار ہے کہ تم کیا کرتے ہو ۔


۱۵۔ وَ إِذا تُتْلی عَلَیْھِمْ آیاتُنا بَیِّناتٍ قالَ الَّذینَ لا یَرْجُونَ لِقاء َنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِھذا اٴَوْ بَدِّلْہُ قُلْ ما یَکُونُ لی اٴَنْ اٴُبَدِّلَہُ مِنْ تِلْقاء ِ نَفْسی إِنْ اٴَتَّبِعُ إِلاَّ ما یُوحی إِلَیَّ إِنِّی اٴَخافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذابَ یَوْمٍ عَظیمٍ ۔
۱۶۔ قُلْ لَوْ شاء َ اللَّہُ ما تَلَوْتُہُ عَلَیْکُمْ وَ لا اٴَدْراکُمْ بِہِ فَقَدْ لَبِثْتُ فیکُمْ عُمُراً مِنْ قَبْلِہِ اٴَ فَلا تَعْقِلُونَ ۔
۱۷۔ فَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَری عَلَی اللَّہِ کَذِباً اٴَوْ کَذَّبَ بِآیاتِہِ إِنَّہُ لا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ۔
ترجمہ
۱۵ ۔اور جس وقت ہماری واضح آیات انھیں سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہماری ملاقات ( اور قیامت ) کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں : کوئی قرآن لے آوٴ اس کے علاوہ یا اسے تبدیل کرودو ( اور اس میں سے بتوں کی مذمت والی آیتیں نکال دو ) کہہ دو : مجھے حق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے تبدیل کر دوں میں تو صرف اس کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی ہوتی ہے اگر میں اپنے پروردگار کی نا فرمانی کروں تو ( قیامت کے ) عظیم دن کی سزا سے ڈرتا ہوں ۔
۱۶۔ کہہ دو : اگر خدا چاہتا تو میں تم پر آیات تلاوت نہ کرتا اور تمہیں ان سے آگاہ نہ کرتا کیونکہ میں نے مدتوں اس سے پہلے تم میں زندگی گزاری ہے ، کیا سمجھتے نہیں ہو ۔
۱۷۔ اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا پر جھوٹ باندھتا ہے اور اس کی آیات کو جھٹلاتا ہے ۔ مسلم ہے کہ مجرم فلاح نہیں پائیں گے ۔

 

شان نزولانسان قرآن کریم کی نظر میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma