تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
خدائی سزا میرے ہاتھ میں نہیں ہے دو قابل توجہ نکات

گزشتہ آیات میں مشرکین کی بعض صفات بیان کرنے کے بعد اب ان آیات میں قیامت میں ان کی دردناک کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اس دن کو یاد کرو جب خدا ان سے کو محشور کرے گا اور ا س حالت میں کہ وہ محسوس کریں گے کہ دنیا میں ان کی ساری عمر دن کی ایک گھڑی سے زیادہ بس اتنی مقدار کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ لیں ، اور پہچان لیں (َیَوْمَ یَحْشُرھُمْ کَاٴَنْ لَمْ یَلْبَثُوا إِلاَّ سَاعَةً مِنْ النَّھَارِ یَتَعَارَفُونَ بَیْنَھُمْ ) ۔
دنیا میں تھوڑی سی دیر کا یہ احساس اس بناء پر ہے کہ آخرت کی دائمی زندگی کے مقابلے میں یہ ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ہے ۔
یا اس بناء پر کہ یہ ناپائیدار اور دنیا ان پر یوں تیزی سے گزری ہے کہ ایک ساعت سے زیادہ نہ تھی ۔
یا پھر اپنی زندگی سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے یوں خیال کریں گے کہ ان کی ساری عمر ایک گھڑی سے زیاد ہ قدر و قیمت نہیں رکھتی تھی ۔
جو کچھ ہم نے سطور بالا میں کہ ہے اس کے پیشِ نظر ”یتعارفون بینھم“ ( ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں ) کاجملہ دنیا میں ان کے قیام کی مقدار کی طرف اشارہ ہے یعنی اس طرح وہ اپنی عمر کو مختصر اور کم محسوس کرین گے گویا صرف اتنی مقدار تھی کہ جس میں دو آدمی ایک دوسرے کو دیکھ کر آپس میں متعارف ہو ں اور پھر ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں ۔
آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی پیش کیا گیا ہے کہ مراد یہاں زمانہ برزخ کی کمی کا احساس ہے یعنی وہ لوگ دورانِ برزخ کی نیند کی سی کیفیت میں ڈوب جائیں گے جس میں سالہا سال اور صدیوں او رزمانوں کے گزرنے کا احساس نہیں کریں گے اور قیامت کے دن ہزار ہا سال پر مشتمل زمانہ برزخ انھیں ایک ساعت سے زیادہ محسوس نہیں ہوگا ۔
اس تفسیر کے لئے شاہد سورہٴ روم کی آیت( ۵۵۔ ۔ ۵۶) ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے :۔
ویوم تقوم الساعة یقسم المجرمون مالبثوا غیر ساعة کذٰلک کانوا یوٴفکون وقال الذین اوتوا العلم و الایمان لقد لبثتم فی کتاب اللہ الیٰ یوم البعث فھٰذا یو م البعث ولکنکم لا تعلمون ۔
ان دو آیا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت قیامت بر پا ہو گی ، مجرمین کا ایک گروہ قسم کھائے گا کہ ان کے برزخ ک ادور ایک ساعت سے زیادہ نہیں تھا لیکن مومنین ان سے کہیں گہ وہ طولانی دور تھا اور اب قیامت بر پا ہوئی ہے او رتمہیں معلوم نہیں ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ برزخ تمام لوگوں کے لئے ایک جیسی نہیں ہے اور اس کی تفصیل ہم متعلقہ آیات کے ذیل میں بیان کریں گے ۔
اس تفسیر کے مطابق ” یتعارفون بینھم “ کا معنی یہ ہوگا کہ وہ لوگ زمانہٴ برزخ کی مقدار اتنی کم محسوس کریں گے کہ انھیں دنیا کی کوئی بات بھولی نہیں ہوگی او روہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سے پہچان لیں گے ۔
اور یہ کہ وہاں ایک دوسرے کے برے اعمال کو دیکھیں گے او رایک دوسرے کے باطن کو پہچان لیں گے اور یہ خود ان کے لئے ایک بہت بڑی رسوائی ہے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے کہ اس دن ان سب پر ثابت ہو جائے گا کہ وہ افرادن جنہوں نے روز قیامت اور لقائے الہٰی کی تکذیب کی ، انھوں نے نقصان اٹھایا“۔ او روہ اپنے وجود کا سارا سرمایہ ہاتھ سے گنوابیٹھے اور ا سے کوئی نتیجہ بھی حاصل نہ کیا(قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللهِ ) ۔
اور یہ لوگ اس تکذیب ، انکار ،گناہ پر اصرار ہت دھرمی کی وجہ سے ہدایت کی اہلیت نہیں رکھتے تھے (وَمَا کَانُوا مُھْتَدِینَ) ۔کیونکہ ان کا دل سیاہ او ران کی روح تاریک تھی ۔
اگلی آیت میں کفار کی تہدید کے لئے پیغمبر کو تسلی دینے کی خاطر فرمایا گیا ہے : جن سزاوٴں کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے اگر ان کا کچھ حصہ ہم تجھے دکھائیں اور اپنی زندگی کے دوران اگر تو ان کے عذاب اور سزا کو دیکھ لے او ریا پھر اس سے قبل کہ وہ ایسے کام سے دو چار ہو ں ہم تجھے دنیا سے لے جائیں ، بہر حال ان کی باز گشت ہماری طرف ہے اور خدا ان کے انجام دیئے ہو ئے اعمال پر شاہد ہے ( وَإِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِی نَعِدُھُمْ اٴَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَإِلَیْنَا مَرْجِعُھم ثُمَّ اللهُ شَہِیدٌ عَلَی مَا یَفْعَلُونَ ) ۔
زیر نظر آیت میں بشمول پیغمبر اسلام تمام انبیاء کے بارے میں او رتمام امتوں کے بارے میں کہ جن میں رسول اللہ کے زمانے کی امت بھی شامل ہے ، ایک کلی قانون بیان کیا گیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے : ہدایت کے لئے خدا کی طرف سے ایک رسول اور فرستادہٴ الٰہی ہوتاہے ( وَلِکُلِّ اٴُمَّةٍ رَسُولٌ ) ۔
جب ان کی طرف رسول آیا اور اس نے ابلاغ رسول کیا اور کچھ لوگوں نے حق کو قبول کرلیا اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا اور ایک ایک گروہ مخالفت اور تکذیب کے لئے اٹھ کھڑا ہوا تو خدا ان کے درمیان اپنے عدل سے فیصلہ کرتا ہے او رکسی پر ظلم نہیں ہوگا “ مومن اور نیک لوگ باقی رہ جاتے ہیں اور برے اور مخالفت یا تو نابود ہو جاتے ہیں او ریا پھر شکست سے دو چار ہو تے ہیں (فَإِذَا جَاءَ رَسُولُھُمْ قُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لاَیُظْلَمُونَ) ۔
اسی طرح پیغمبر اسلام اور ان کے معاصر امت کے ساتھ ہوا کہ ان کی دعوت کے مخالف یا تو جنگوں میں ختم ہوگئے اور یا آخر کار شکست کھا کر معاشر ے سے مسترد ہو گئے اور مومنین نے امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی ۔
لہٰذا جس فیصلے کی طرف آیت میں اشارہ ہوا ہے یہ وہی تکوینی قضاوت اور فیصلہ ہے جو اسی دنیا میں جاری ہوا ہے ۔ باقی رہا یہ جو بعض نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ روز قیامت خدا کے فیصلے کی طرف اشارہ ہے ، خلافِ ظاہر ہے ۔

۴۸۔ وَیَقُولُونَ مَتَی ھَذَا الْوَعْدُ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ ۔
۴۹۔ قُلْ لاَاٴَمْلِکُ لِنَفْسِی ضَرًّا وَلاَنَفْعًا إِلاَّ مَا شَاءَ اللهُ لِکُلِّ اٴُمَّةٍ اٴَجَلٌ إِذَا جَاءَ اٴَجَلُھُمْ فَلاَیَسْتَاٴْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَیَسْتَقْدِمُونَ۔
۵۰۔ قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ اٴَتَاکُمْ عَذَابُہُ بَیَاتًا اٴَوْ نھَارًا مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونَ ۔
۵۱۔ اٴَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنْتُمْ بِہِ اٴَالْآنَ وَقَدْ کُنْتُمْ بِہِ تَسْتَعْجِلُونَ ۔
۵۲۔ ثُمَّ قِیلَ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِھَلْ تُجْزَوْنَ إِلاَّ بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبُونَ۔

ترجمہ

۴۸۔ وہ کتے ہیں یہ جو ( سزا کا ) وعدہ ہے ، اگر سچ کہتے ہو تو کب اس پر عمل ہو گا ۔
۴۹۔ کہہ دو میں اپنے لئے نقصان او رنفع کا مالک نہیں ہو ں ( چہ جائیکہ تمہارے لئے ) مگروہ جو خدا چاہے ۔ ہر قوم و ملت کےلئے ایک اجل او رانجام ہے جب ان کی اجل آجاتی ہے ( اور ان کی سزا یا موت کا حکم صادر ہو جائے ) تو نہ ایک ھگڑی تاخیر کرتے ہیں اور نہ ہی ایک گھڑی آگے ہوتے ہیں ۔
۵۰۔ کہہ دو کہ اگر اس کی سز رات کے وقت یا دن کو تمہیں آپہنچے ( تو کیا تم اسے دور کرسکتے ہو) پس مجرمین کس بناء پر جلدی کرتے ہیں ۔
۵۱۔ یا یہ کہ جب واقع ہو گی تو ایمان لے آوٴ گے ( لیکن جا لو کہ تمہیں کہا جائے گا کہ)اب جب کہ پہلے اس کے لئے جلدی کرتے تھے ( اس وقت کیا فائدہ ) ۔
۵۲۔ پھر جنہوںنے ظلم کیا ہے ان سے کہاجائے گا:ابدی عذاب چکھو، جو کچھ تم انجام دیتے تھے کیا تمہیں اس کے علاوہ کی سزادی جائے گی ۔
 

خدائی سزا میرے ہاتھ میں نہیں ہے دو قابل توجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma