چوتھا مرحلہانقلاب کی تیاری

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
ظالموں سے مقابلے کا آخری مرحلہ طاغوت ِ مصر سے حضرت موسیٰ (ع) کے جہاد کا تیسرا مرحلہ

ان آیات میں فرعون کے خلاف بنی اسرائیل کے قیام اور انقلاب کا ایک اور مرحلہ بیان کیا گیا ہے ۔
پہلی بات یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے : ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی کہ سر زمین مصر میں اپنی قوم کے لئے گھروں کا انتخاب کرو( وَاٴَوْحَیْنَا إِلَی مُوسَی وَاٴَخِیہِ اٴَنْ تَبَوَّاٴَا لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوتًا) ۔ اور خصوصیت کے ساتھ ” ان گھروں کو ایک دوسرے کے قریب اور آمنے سامنے بناوٴ ۔( وَاجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ قِبْلَةً ) ۔ پھر روحانی طور پر اپنی خود سازی اور اصلاح کرو” اور نماز قائم کرو“ ۔ اس طرح سے اپنے نفس کو پاک اور قوی کرو ( وَاٴَقِیمُوا الصَّلَاةَ) ۔
اس لئے کہ خوف اور وحشت کے آثار ان کے دل سے نکل جائیں اور وہ روحانی و انقلابی قوت پالیں ” مومنین کو بشارت دو“ کامیابی اور خدا کے لطف و رحمت کی بشارت (وَبَشِّرْ الْمُؤْمِنِین) ۔
ان آیات کے مجموعی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانے میں بنی اسرائیل منتشر ، شکست خوردہ ، وابستہ ، طفیلی ، آلودہ اور خوف زدہ گروہ کی شکل میں تھے ، نہ انکے پاس گھر تھے نہ کوئی مرکز تھا ۔ نہ ان کے پاس معنوی اصلاح کا کوئی پر گرام تھا اور نہ ہی ان میں اس قدر شجاعت ، عزم اور حوصلہ تھا جو شکست دینے والے انقلاب کے لئے ضروری ہوتا ہے ۔ لہٰذا حضر ت موسیٰ علیہ السلام او ران کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو حکم ملا کہ وہ بنی اسرائیل کی مرکزیت کے لئے خصوصاً روحانی حوالے سے ، چند امور پر مشتمل پر وگرام شروع کریں ۔
۱۔ مکان کی تعمیر کریں اور اپنے مکانات فرعونیوں سے الگ بنائیں ۔ اس میں متعدد فائدے تھے ۔
ایک یہ کہ سر زمین مصر میں ان کے مکانات ہوں گے تووہ اس کا دفاع زیادہ لگاوٴ سے کریں گے ۔
دوسرا یہ کہ قبطیوں کے گھروں میں طفیلی زندگی گزارنے کی بجاے وہ اپنی ایک مستقل زندگی شروع کرسکیں گے ۔
تیسرا یہ کہ ان کے معاملات اور تدابیر کے راز دشمنوں کے ہاتھ نہیں لگے گے ۔
۲۔ اپنے گھر دوسرے کے آمنے سامنے اور قریب قریب بنائیں کیونکہ در اصل ” قبلہ“ حالت ِ تقابل“کے تقابل میں ہے ۔ آج کل لفظ ” قبلہ “ کا جو معنی مشہور ہے وہ اس کا ثانوی معنی ہے ۔ ۱
بنی اسرائیل کی مرکزیت کے لئے یہ ایک موثر کام تھا اس طرح وہ اجتماعی مسائل پر مل کر غور و فکر کرسکتے تھے اور مراسم مذہبی کے حوالے سے جمع ہوکر اپنی آزادی کے لئے ضروری پروگرام بنا سکتے تھے ۔
۳۔ عبادت کی طرف متوجہ ہو ں ، خصوصاً نماز کی طرف کہ جو انسان کو بندوں کی بندگی سے جدا کرتی ہے اور اس کا تعلق تمام قدرتوں کے خالق سے قائم کردیتی ہے ۔ اس کے دل اور روح کو گناہ کی آلودگی سے پاک کرتی ہے اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کا احساس زند ہ کرتی ہے اور قدرت ِ پروردگار کا سہارا لے کر انسانی جس میں ایک تازہ روح پھونک دیتی ہے ۔
۴۔ ایک رہبر کے طور حضرت موسیٰ (ع) کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی روحوں میں موجود طویل غلامی اور ذلت کے دور کا خوف و حشت نکلا باہر پھینکیں اورحتمی فتح و نصرت و کامیابی اور پر وردگار کے لطف و کرم کی بشارت دے کر مومنین کے ارادے کو مضبوط کریں اور ان میں شہامت و شجاعت کی پر ورش کریں ۔
یہ امر جاذب ِ توجہ ہے کہ بنی اسرائیل حضرت یعقوب (ع) کی اولاد میں سے ہیں ۔ فطرتاً ان میں سے ایک گروہ حضرت یو سف(ع) کی اولاد میں سے ہے اور وہ اور وہ ان کے بھائی سالہا سال تک مصر پرحکومت کرتے رہے ہیں ۔ اس طرح اس سر زمین کی آبادی ا ور تعمیر میں کوشا ں ر ہے ہیں لیکن خدا کی نا فر مانی ،غفلت اور داخلی اختلاف کی وجہ سے انکی ز ند گی اس وقت بار کیفیت تک پہنچ گئی تھی ضروری تھا کہ اس مصیبت زدہ فر سود ہ معاشرے کی تعمیرنو ہو ۔اس کے منفی پہلوؤں کی اصلاح ہو اور ان کی بجائے ان میںتعمیری اور اصلاحی،رو حانی خصائل پیدا ہوں تا کہ ان کی عظمت -رفتہ پلٹ آئے ۔
اس کے بعد فر عون اور فر عو نیوںکی سر کشی کے ایک سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت موسیٰ کی زبانی فرمایا گیا ہے: پر وردگارا ! تونے فرعون اوراس کے حواریوں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور مال بخشا ہے ( وَقَالَ مُوسَی رَبَّنَا إِنَّکَ آتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاٴَہُ زِینَةً وَاٴَمْوَالًا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا) ۔ لیکن اس ثروت و زینت کا انجام یہ ہوا کہ وہ تیرے بندوں کو تیری راہ سے منحرف اور گمراہ کرتے ہیں ( رَبَّنَا لِیُضِلُّوا عَنْ سَبِیلِکَ) ۔
”لیضلوا“ میں لام اصطلاح کے مطابق لامِ عاقبت ہے یعنی اشراف کی دولت مند تحمل پرست قوم لوگوں کو راہِ خدا سے گمراہ کرنے کی خواہ مخواہ کوشش کرے گی ۔ راس سے آخر کار اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا ۔ کیونکہ انبیاء کی دعوت اور خدائی پروگرام لوگوں کی بیدار ، ہوشیار ، متحد اور مجتمع کردیں گے ان حالات میں غارتگروں اور لٹیروں کے لئے حلقہ تنگ ہو جائے گا اور ان کے لئے زندگی سیاہ ہو جائے گی ، وہ ردّ عمل کا مظاہرہ کریں گے اور انبیاء کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں گے ۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ در گاہ الہٰی میں تقاضا کرتے ہوئے کہتے ہیں : پروردگار! ان کے اموال کو محو اور بے اثر کردے تاکہ وہ اس سے بہرہ ور نہ ہو سکیں

(رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَی اٴَمْوَالِھِمْ ) ۔
لغت میں ”طمس“ کسی چیز کو محو اور بے اثر کرنے کے معنی میں ہے ۔
یہ بات جاذب نظرہے کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ اس نفرین اور بد د عا کے بعد فرعونیوں کا مال پتھر اور راکھ میں تبدیل ہو گیا ۔ شاید یہ اس امر اشارہ ہو کہ وہ اس طرح سے اقتصادی بحران کا شکار ہ وئے کہ ان کی ثروت بے وقعت ہو گئی اور راکھ کی طرح بے قیمت ہو گئی ۔
حضرت موسیٰ مزید عرض کرتے ہیں : پر وردگار! اس کے علاوہ ان سے غور و فکرکی ، سوچنے کی قدرت بھی لے لے ( وَاشْدُدْ عَلَی قُلُوبِھِمْ ) ۔کیونکہ یہ دو سرمائے گنواکر وہ زوال اور تباہی کے قریب پہنچ جائیں گے ۔ اس طرح انقلاب کی طرف اور ان پر آخری ضرب لگانے کے لئے راستہ کھل جائے گا ۔ خدا وندا ! یہ جو میں فرعونیوں کے بارے میں ایسی خواہش رکھتا ہوں تو یہ جذبہ انتقال اور کینے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس بناء پر ہے کہ اب ان میں ایمان کے لئے کسی قسم کی کوئی آمادگی نہیں ہے ۔ جب تک تیرا دردناک عذاب نہ پہنچ جائے وہ ایمان نہیں لائیں گے ( فَلاَیُؤْمِنُوا حَتَّی یَرَوْا الْعَذَابَ الْاٴَلِیمَ) ۔
البتہ واضح ہے کہ عذاب کو دیکھ کر ایمان لانا ان کے لئے فائدہ مند نہیں ہوگا جیسا کہ عنقریب آئے گا ۔
خدا نے حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی سے کہا کہ اب جبکہ تم بنی اسرائیل کی تربیت اور اصلاح کے لئے تیار ہو گئے ہو ” تمہارے دشمنوں کے بارے میں تمہاری دعا قبول کوئی ( قَالَ قَدْ اٴُجِیبَتْ دَعْوَتُکُمَا) ۔ پس مضبوطی سے اپنی راہ پر کھڑے ہوجاوٴ اور استقامت و پا مردی دکھاوٴ ، کثرت ِ مشکلات سے نہ ڈرو اور اپنے کام کے بارے میں حتمی فیصلہ کرو(فَاسْتَقِیمَا) ۔اور نادان اور بے خبر افراد کی تجا ویز کے سامنے ہر گز سر تسلیم خم نہ کرو اور جالہوں کے راستے پر نی چلو بلکہ مکمل آگاہی کے ساتھ اپنے انقلابی پر گرام کو جاری رکھو ( وَلاَتَتَّبِعَانِ سَبِیلَ الَّذِینَ لاَیَعْلَمُونَ) ۔

 

۹۰۔ وَجَاوَزْنَا بِبَنِی إِسْرَائِیلَ الْبَحْرَ فَاٴَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُہُ بَغْیًا وَعَدْوًا حَتَّی إِذَا اٴَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ اٴَنَّہُ لاَإِلَہَ إِلاَّ الَّذِی آمَنَتْ بِہِ بَنُو إِسْرَائِیلَ وَاٴَنَا مِنْ الْمُسْلِمِینَ ۔
۹۱۔ اٴَالْآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنْ الْمُفْسِدِینَ۔
۹۲۔ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً وَإِنَّ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ عَنْ آیَاتِنَا لَغَافِلُونَ ۔
۹۳۔ وَلَقَدْ بَوَّاٴْنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ مُبَوَّاٴَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاھُمْ مِنْ الطَّیِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّی جَاءَ ھُم الْعِلْمُ إِنَّ رَبَّکَ یَقْضِی بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا کَانُوا فِیہِ یَخْتَلِفُونَ۔

ترجمہ

۹۰۔ ہم نے بنی اسرائیل کو ( نیل کے عظیم ) دریا سے گز را اور فرعون اور اس کا لشکر ظلم و تجاوز کرتے ہوئے ان کے پیچھے گیا۔ جب وہ غرقاب ہونے لگا تو اس نے کہا کہ میں ایمان لایا کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمنا لائے ہیں اور میں مسلمین میں سے ہوں ۔
۹۱۔ ( لیکن اسے کہا گیا )اب ؟ حالانکہ پہلے تونے نافرمانی کی اور تومفسدین میں سے تھا۔
۹۲۔ لیکن آج ہم تیرے بدن کو ( پانی سے ) بچالیں گے تاکہ تو آنے والوں کے لئے عبرت بن جائے اور بہت سے لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں ۔
۹۳۔ ہم نے بنی اسرائیل کو صدق ( اور سچائی ) کی منزل میں جگہ دی اور انھیں پاکیزہ رزق میں سے عطا کیا ( لیکن وہ نزاع و اختلاف میں پڑ گئے) اور انھوں نے اختلاف نہ کیا مگر اس کے بعد کہ علم و آگہی حاصل کرچکے تھے ۔ تیرا پر وردگار قیامت کے روز اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس کے بارے میں وہ اختلاف کرتے تھے ۔


۱۔ البتہ بعض مفسرین نے مندرجہ بالا آیت میں” قبلہ “ کو آمنے سامنے کے معنی میں نہیں لیا بلکہ اسی قبلہٴ نماز کے معنی میں لیا ہے اور ” و اقیموا الصلوٰة“ کے جملہ کو اس کا قرینہ سمجھا ہے لیکن پہلا اس لفظ کے اصلی لغوی معنی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ علاوہ ازیں دونوں معانی مراد لینے میں بھی کوئی اشکال نہیں اس کی بہت سی نظیریں موجود ہیں ۔

 

ظالموں سے مقابلے کا آخری مرحلہ طاغوت ِ مصر سے حضرت موسیٰ (ع) کے جہاد کا تیسرا مرحلہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma