ظالموں سے مقابلے کا آخری مرحلہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
شک کو اپنے قریب نہ آنے دوچوتھا مرحلہانقلاب کی تیاری

ان آیات میں فر عونیوں سے بنی اسرائیل کے مقابلے کے آخری مرحلے کی منظر کشی کی گئی ہے ۔ فرعونیوں کے انجام کی مختصر لیکن دقیق او رواضح عبارتوں کے ذریعے تصویر پیش کی گئی ہے اور ان میں قرآن نے اپنی روش کے مطابق اضافی مطالب ترک کردئےے ہیں جنہیں پہلے اور بعد کے جملوں سے سمجھا جا سکتا ہے ۔
پہلے ارشادہوتا ہے : جب کہ بنی اسرائیل دباوٴ میں تھے اور فرعونی ان کا تعاقب کررہے تھے ہم نے انھیں دریا پا ر کروادیا ( وَجَاوَزْنَا بِبَنِی إِسْرَائِیلَ الْبَحْر) ۔دریائے نیل اتنا بڑا تھا کہ اس کے لئے لفظ” بحر“ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس کا معنی ”سمندر“ ہے ۔
فرعون اور اس کا لشکر بنی اسرائیل کی سر کوبی کے لئے اور ان پر ظلم و تجاوز کرتے ہوئے ان کے تعاقب میں آیا لیکن جلد ہی وہ سب کے سب نیل کی موجوں میں غرق ہو گئے (َ فَاٴَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُہُ بَغْیًا وَعَدْوًا) ۔
”بغی “ کامعنی ہے ”ظلم و ستم “اور ”عدو“ کا مطلب ہے ”تجاوز“ یعنی انھوں نے ظلم اور تجاوز کرتے ہوئے بنی اسرائیل کاتعاقب کیا۔
”لفظ “فاتبعھم “نشاندہی کرتا ہے کہ فرعون اور اس کے لشکر نے اپنے اختیار اور ارادے سے بنی اسرائیل کا تعاقب کیا۔ بعض روایات بھی اس معنی کی تاکید کرتی ہیں ۔ بعض دوسری روایات اس سے زیادہ مناسبت رکھتیں بہر حال جوکچھ ظاہر آیت سے معلوم ہوتا ہے وہی ہمارے لئے مدرک ہے ۔ باقی رہا یہ کہ بنی اسرائیل دریا سے کیسے گزرے اور اس موقع پ رکون سا معجزہ وقوع پذیر ہوا اس کی تفصیل انشاء اللہ سورہٴ شعراء کی آیہ ۶۳ کے ذیل میں آئے گی۔
بہرکیف یہ معاملہ چل رہا تھا ” یہاں تک کہ فرعون غرقاب ہو نے لگا اور وہ عظیم دریائے نیل کی موجوں میں تنکے کی طرح غوطے کھانے لگا تو اس وقت غرور و تکبر اور جہالت و بے خبری کے پردے اس کی آنکھوں سے ہٹ گئے اور فطری نور ِ توحید چمکنے لگا ۔ وہ پکاراٹھا :” میں ایمان لئے آیا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں “ (حَتَّی إِذَا اٴَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ اٴَنَّہُ لاَإِلَہَ إِلاَّ الَّذِی آمَنَتْ بِہِ بَنُواسْرَائِیْل ) ۔ کہنے لگا کہ نہ صرف میں اپنے دل سے ایمان لایا ہوں بلکہ عملی طور پر بھی ایسے توانا پر وردگار کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں (وَاٴَنَا مِنْ الْمُسْلِمِینَ ) ۔
در حقیقت جبحضرت موسیٰ (ع) کی پیشین گوئیاں یکے بعددیگرے وقوع پذیر ہوئیں اور فرعون اس عظیم پیغمبر کی گفتگو کی صداقت سے آگاہ ہوا اور اس کی قدرت نمائی کا مشاہدہ کیا تو اس نے مجبوراً اظہار ایمان کیا، اسے امید تھی کہ جیسے ” بنی اسرائیل کے خدا “ نے انھیں کوہ پیکر موجوں سے نجات بخشی ہے اسے بھی نجات دے گا ۔ لہٰذا وہ کہنے لگا میں اسی بنی اسرائیل کے خدا پر ایمان لایاہوں ۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسا ایمان جو نزول بلا اور موت کے چنگل میں گرفتار ہونے کے وقت ظاہر کیا جائے در حقیقت ایک قسم کا اضطراری ایمان ہے جس کا اظہار سب مجرم اور گنہ گار کرتے ہیں ۔ ایسے ایمان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی او رنہ یہ حسنِ نیت اور صدق گفتار کی دلیل ہوسکتا ہے ۔
اسی بناء پر خدا تعالیٰ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے : اب ایمان لایا ہے ؟ حالانکہ اس سے پہلے تونا فرمانی او رطغیان کرنے والوں ، مفسدین فی الارض اور تباہ کاروں کی صف میں موجود تھا ( اٴَالْآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنْ الْمُفْسِدِینَ) ۔
پہلے بھی ہم نے سورہ نساء کی آیہ ۱۸ میں پڑھا ہے ۔
و لیست التوبة للذین یعملون السیئات حتیٰ اذا حضر احدھم الموت قال انی تبت الاٰن۔
ان کی کوئی توبہ نہیں جو برے کام کرتے ہیں اور جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچے تو کہنے لگے کہ اب میری توبہ ہے ۔
اسی بناء پر بہت مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ اگر مصیبت کا وقت ٹل جائے اور وہ موت کے چنگل سے نجات پالیں تو دوبارہ پہلے سے کاموں کی طرف پلٹ جاتے ہیں ۔
اس تعبیر کی نظیر کہ جو ہم نے سطور بالا میں پڑھی ہے عرب و عجم کے ادباء کے کلام اور گفتگو میں بھی آئی ہے ، مثلا:
اتت وحیاض الموت بینی و بینھا
وجادت بوصل حین لاینفع الوصل

وہ مری طرف آئی جب کہ میرے اور اس کے درمیان موت موجزن تھی وہ آمادہٴ وصال تھی جب کہ وصال کا کوئی فائدہ نہ تھا ۔
لیکن آج ہم تیرے بدن کی موجوں سے بچا لیں گے تاککہ تونے آنے والوں کے لئے درس عبرت ہو، بر سر اقتدار مستکبرین کے لئے ، تمام ظالموں اور مفسدوں کے لئے اور مستضعف گروہوں کےلئے بھی ( فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً ) ۔
یہ کہ ” بدن“ سے مراد یہاں کیا ہے  اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے ۔ ان میں سے اکثر کا نظریہ ہے کہ اس سے مراد فرعون کا بے جان جسم ہے کیونکہ اس ماحول کے لوگوں کے ذہن میں فرعون کی اس قدر عظمت تھی کہ اگر اس کے بدن کوپانی سے باہر نہ اچھالا جاتا تو بہت سے لوگ یقین ہی نہ کرتے کہ اس کا غرق ہونا بھی ممکن ہے اور ہو سکتا تھا کہ اس ماجرے کے بعد فرعون کی زندگی کے بارے میں افسانے تراش لیے جاتے ۔
یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ بعض نے ” ننجیک “ سے اس طرح استفادہ کیا ہے کہ خدا نے حکم دیا کہ موجیں اس کے بدن کو ساحل کی ایک اونچی جگہ پھینک دیں کیونکہ ”نجوہ“ کا مادہ مرتفع اور بلند جگہ کے معنی میں ہے ۔
دوسرا نکتہ جو آیت میں نظر آتا ہے یہ ہے کہ ” فالیوم ننجیک “ کا آغاز فاء تفریع کے ساتھ ہوا ہے ممکن ہے یہ اس طرف اشارہ ہو کہ نامیدی کے عالم میں اور موت کے چنگل میں گرفتاری کے وقت فرعون کے بے روح ایمان نے جو جسم بے جان کی طرح تھا یہ اثر کیا کہ خدا نے فرعون کے بے جان جس کو پانی سے نجات دی تاکہ وہ در کی مچھلیوں کی غذا نہ بنے اور آنے والے لوگوں کے لئے عبرت کا باعث بھی ہو۔
اب بھی مصر اور بر طانیہ کے عجائب گھروں میں فرعون کے مومیا ئے ہوئے بدن موجود ہیں ۔ کیا ان میںحضرت موسیٰ (ع) کے ہم عصر فرعون کا بدن بھی موجود ہے کہ جسے بعد میں حفاظت کے لئے مومیا لیا گیا ہو یا نہیں ۔ اس سلسلے میں کوئی صحیح دلیل ہمارے پاس نہیں ہے لیکن ” لمن خلفک “ کی تعبیر ہو سکتا ہے اس احتمال کو تقویت دے کہ اس فرعون کا بدن بھی ان میں ہوتا کہ آنے والوں کےلئے باعث عبرت ہو کیونکہ آیت کی تعبیر مطلب ہے اور اس میں تمام آیات ، نشانیوں اور عبرت انگیزدرسو ں کے ہوتے ہوئے کہ جن سے تاریخ انسانی بھری پڑی ہے بہت سے لوگ ہماری آیات او رنشانیوں سے غافل ہیں (وَإِنَّ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ عَنْ آیَاتِنَا لَغَافِلُونَ ) ۔
زیر بحث آخری آیت میںبنی اسرائیل کی آخری کامیابی اور فرعونیوں کے چنگل سے نجات پانے کے بعد ان کی مقدس سر زمینوں کی طرف واپسی کو بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ہم نے بنی اسرائیل کو صدق اور سچائی کے مقام پر جگہ دی (وَلَقَدْ بَوَّاٴْنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ مُبَوَّاٴَ صِدْق) ۔
”مبوء صدق“ ( سچی منزل ) ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ خدا نے بنی اسرائیل سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کردیا اور انھیں اس سر زمین میں پہنچادیا جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ ” صدق“ اس سر زمین کی پاکی اور نیکی کی طرف اشارہ ہو۔ اس طرح پھر یہ بات شام و فلسطین کی سر زمین سے مناسبت رکھتی ہے جو انبیاء خدا کی جائے سکونت ہے ۔
ایک گروہ نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد سر زمین ِ مر ہے کیونکہ قرآن جیسے سورہٴ دخان میں کہتا ہے :
کم ترکوا من جنّات وعیون وزروع ومقام کریم و نعمة کانوا فیھا فاکھین کذٰلک و اورثنا ھا قوماً اٰخرین۔
فرعونیوں کی نابودی کے بعد باغ ،چشمے، زمینیں ، محلات او ران کی جو نعمتیں رہ گئی تھیں ہم نے دوسرے گروہ ( یعنی بنی اسرائیل کو دے دیں

 ( دخان ۲۵۔ ۲۸)
یہی مضمون سورہٴ شعراء کی آیہ ۵۷سے ۵۹ تک آیا ہے اور اس کے آخر میں ہے :
و اورثنا ھا بنی اسرائیل ۔
ہم نے یہ باغ ،۔ چشمے، خزانے اور محل بنی اسرائیل کو ذمے دئیے ۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل سر زمین کی طرف ہجرت سے پہلے کچھ مدت مصرمیں بھی رہے اور اس زر خیز سر زمین کی بر کات سے بھی بہر مند ہوئے ہیں ۔ البتہ کو ئی مانع نہیں کہ سر زمین مصر، شام اور فلسطین سب مراد ہوں ۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : ہم نے انھیں پاکیزہ رزق سے بہرہ مندکیا ( وَرَزَقْنَاھُمْ مِنْ الطَّیِّبَاتِ) ۔ لیکن انھوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اور ایک دوسرے سے اختلاف اور نزاع میں پڑ گئے ۔ وہ بھی لاعلمی کی وجہ سے نہیں بلکہ جانتے بوجھتے ہوئے اور حضرت موسیٰ کے ان معجزات اور ان کی صداقت کے دلائل کا مشاہدہ کرنے باوجود ( فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّی جَاءَ ھُم الْعِلْمُ ) ۔لیکن ” تیرا پر وردگار آخر کار روز قیامت ان میں اس چیز کے بارے میں فیصلہ کرے گا “ اور اگر آج وہ اختلاف کی سزا نہ پائیں توکل اس کا مزہ چکھیں گے ۔(اِنَّ رَبَّکَ یَقْضِی بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا کَانُوا فِیہِ یَخْتَلِفُونَ) ۔
مندر جہ بالاآیت کے بارے میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اختلاف سے مراد پیغمبر اسلام کے ہم عصر یہودیوں کا اختلاف ہے کہ جو آنحضرت کی دعوت قبول کرنے کے بارے میں ان میں موجود تھا یعنی اگر چہ انھوں نے اپنی آسمانی کتب کی نشانیوں کے مطابق آپ کی صداقت جان لی تھی پھر بھی اختلاف کیا تھوڑے سے لوگ ایمان لائے اور زیادہ تر نے آپ کی دعوت قبول کرنے سے رو گر دانی کی اور خدا قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا ۔
یہ تھا بنی اسرائیل کی عبرت انگیز سر گزشت کا ایک حصہ جو اس سورہ کی کئی آیات میں بیان ہوا ہے ان کی حالت آج مسلمانوں سے کس قدر مشابہت رکھتی ہے ۔ خد اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کا کامیابیاں عطا کرتا ہے او ران کے طاقتور دشمن کو معجزانہ طور پر شکست دیتا ہے اور اس مستضعف اور پس ماندہ قوم کو اپنے فضل و رحمت سے فتح دیتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کامیابی کو دین اسلام کی عالمگیر فتح کے حصول کا ذریعہ بنالیتے ہیں اس طرح ان کی ساری کامیابیاں خطرے میں پڑجاتی ہیں ۔ خدا تعالیٰ ہمیں اس کفرانِ نعمت سے نجات بخشے ۔


۹۴۔ فَإِنْ کُنْتَ فِی شَکٍّ مِمَّا اٴَنْزَلْنَا إِلَیْکَ فَاسْاٴَلْ الَّذِینَ یَقْرَئُونَ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکَ لَقَدْ جَائَکَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلاَتَکُونَنَّ مِنْ المُمْتَرِینَ۔
۹۵۔ وَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اللهِ فَتَکُونَ مِنْ الْخَاسِرِینَ ۔
۹۶۔ إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْھِمْ کَلِمَةُ رَبِّکَ لاَیُؤْمِنُونَ ۔
۹۷۔ وَلَوْ جَائَتْھُمْ کُلُّ آیَةٍ حَتَّی یَرَوْا الْعَذَابَ الْاٴَلِیمَ۔

ترجمہ

۴۹۔ جو کچھ ہم نے تجھ پر نازل کیا ہے اگر اس میں تجھے شک و شبہ ہے تو ان سے جو تجھ سے پہلے آسمانی کتب پڑتھے ہیں سوال کرو، ( جان لو ( قطعی طور پر ” حق “ تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ تک پہنچا ہے لہٰذا شک کرنے والوں میں سے ہر گز نہ ہو جا( البتہ وہ اس میں ہر گز شک نہیں کرتا جسے وہ شہود کے ذریعے جانتا ہے ، یہ لوگوں کےلئے ایک درس تھا ) ۔
۹۵۔ اور ان میں سے نہ ہو جاوٴ جنہوں نے آیاتِ خدا کی تکذیب کی ہے ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائے گا ۔
۹۶۔ ( اور جان لو کہ ) جن پر خدا ثابت ہو چکا ہے وہ ایمان نہیں لائے گے ۔
۹۷۔اگر چہ ( اللہ کی ) تمام آیات ( اور اس کی نشانیاں ) ان تک پہنچ جائیں ، یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں ( کیونکہ ان کے دلوں پر گناہ کی تاریکی چھائی ہوئی ہے اور روشنی ان تک پہنچنے کے لئے ان کے پا س کوئی راستہ نہیں ہے ) ۔

 

شک کو اپنے قریب نہ آنے دوچوتھا مرحلہانقلاب کی تیاری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma