استقامت کا دامن تھامے رکھو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
ظالموں پر بھروسہ نہ کروچند قابل توجہ نکات

یہ آیات در حقیقت پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی دلجوئی اور تسلّی کی خاطر اور ان کی مسئولیت وذمہ داری بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہیں ۔
در اصل گزشتہ قوموں کے حالات سے جو اہم نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اور ان کے بعد سچّے مومنین دشمنوں کی کثرت سے خوفزدہ نہ ہوں اور جس بت پرست اور ظالم قوم کا انھیں سامنا ہے اس کی شکست کے بارے میں شک وشبہ میں نہ پڑ یں اور خدائی امداد پر مطمئن رہیں ۔
اسی لئے پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: اس چیز کے بارے میں شک وشبہ میں نہ پڑو کہ جس کی یہ پرستش کرتے ہیں کیونکہ یہ بھی اسی راستے پر گامزن ہیں جس پر گزشتہ لوگوں کا ایک گروہ گیا ہے اور یہ بھی اسی طرح پرستش کرتے ہیں جیسے پہلے ان کے بڑے کیا کرتے تھے لہٰذا ان کا انجام ان سے بہتر نہیں ہوگا (فَلَاتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ مِمَّا یَعْبُدُ ھٰؤُلَاءِ مَا یَعْبُدُونَ إِلاَّ کَمَا یَعْبُدُ آبَاؤُھُمْ مِنْ قَبْلُ) ۔ (۱)
لہٰذا بلافاصلہ فرمایا گیا ہے: ”ہم یقیناً سزا اور عذاب میں سے ان کا حصّہ انھیں بے کم وکاست دیں گے“ اور اگر وہ راہِ حق کی طرف پلٹ آئیں تو ہماری جزا میں ان کا حصّہ محفوظ ہے (وَإِنَّا لَمُوَفُّوھُمْ نَصِیبَھُمْ غَیْرَ مَنقُوصٍ)
باوجودیکہ لفظ ”موفّوھم“ خود حق کی مکمل ادائیگی کے معنی میں ہے لفظ ”غَیْرَ مَنقُوص“(بے کم وکاست) بھی اس مسئلے پر تاکید کے لئے ذکر کیا گیا ہے ۔
در اصل یہ آیت اس حقیقت کو مجسّم کرتی ہے کہ گزشتہ سرگزشت ہم نے پڑھی ہے وہ ناول یا افسانہ نہیں تھا نیز وہ انجام گزشتہ لوگوں کے ساتھ مخصوص نہیں تھا بلکہ یہ ایک ابدی اور جاودانی سنت ہے اور تمام انسانوں کے بارے میں ہے، کل آج اور آئندہ کل کے لئے البتہ یہ عذاب اور سزائیں بہت سی گزشتہ قوموں میں ہولناک اور عظیم بلاوٴں کی صورت میں عمل پذیر ہوئیں لیکن پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے دشمنوں کے لئے ایک اور شکل میں ظاہر ہوئیں، وہ صورت یہ تھی کہ خدا نے اپنے پیغمبر کو اس قدر قدرت اور طاقت دی کہ آپ(علیه السلام) ہٹ دھرم اور بے رحم دشمنوں کو کہ جو کسی طور پر بھی راہِ مستقیم پر آنے کے لئے تیار نہ تھے گروہِ مومنین کے ذریعے درہم وبرہم کرسکیں ۔
دوبارہ پیغمبر اکرم کی تسلّی کے لئے فرمایا گیا ہے: اگر تیری قوم تیری آسمانی کتاب کے بارے میں یعنی قرآن کے متعلق بہانہ جوئی کرتی ہے توپریشان نہ ہو کیونکہ ہم نے موسیٰ کو آسمانی کتاب (تورات) دی تھی، ان کی قوم نے اس میں اختلاف کیا بعض نے قبول کرلیا اوربعض نے انکار کردیا (وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِیہِ) ۔
اگر تم دیکھتے ہو کہ تمھارے دشمنوں کو سزا دینے کے بارے میں ہم جلدی نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قوم کی تعلیم وتربیت اور ہدایت کے حوالے سے جو مصلحتیں ہیں وہ ایسا تقاضا نہیں کرتیں اور اگر یہ مصلحت نہ ہوتی اور وہ پروگرام جو تیرے پروردگار نے اس سلسلے میں پہلے سے شروع کررکھا ہے تاخیر کا تقاضا نہ کرتا تو لازماً ان کے درمیان فیصلہ ہوجاتا اور سزا انھیں دامنگیر ہوجاتی (وَلَوْلَاکَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ) ۔ اگرچہ انھیں اس حقیقت کا ابھی تک یقین نہیں آیا اور اس کے بارے میں اسی طرح شک وشبہ میں ہیں ایسا شک وشبہ جس میں سوءِ ظن اور بدبینی کی آمیزش ہے (وَإِنَّھُمْ لَفِی شَکٍّ مِنْہُ مُرِیبٍ) ۔ (2)
”مُرِیب“ مادہٴ ”ریب“ سے ایسے شک وشبہ کے معنی میں ہے جو بد بینی، سوء ظن اور مخالف قرائن کی آمیزش رکھتا ہو، اس بناء پر اس لفظ کا مفہوم یہ ہوگا کہ بُت پرست نہ صرف حقانیتِ قرآن کے بارے میں اور تباہ کاروں پر نزولِ عذاب کے معاملے میں شک کرتے ہیں بلکہ مدّعی ہیں کہ اس کے خلاف قرائن بھی ہمارے پاس ہیں ۔
”اس قوم کے لوگ ابھی تک کتاب موسیٰ کے بارے میں تردّد وشک میں ہیں“۔
لیکن بعض مفسّرین نے کہا ہے کہ پہلی ضمیر مشرکینِ مکّہ اور دوسری قرآن (یا ان کی سزا اور عذاب) کی طرف لوٹتی ہے اس طرف توجہ کرتے ہوئے قبل اور بعد کی آیات پیغمبر اسلام کی دلجوئی اور تسلّی کے لئے ہیں، دوسری تفسیر زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے اور ہم نے بھی متن میں اسی ہی منتخب کیا ہے ۔
”راغب “ نے مفردات میں ”ریب“ کا معنی شک کیا ہے کہ جس سے چہرے سے بعد میں پردہ اٹھ جائے اور وہ یقین میں بدل جائے، اس بناء پر آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ عنقریب تیری دعوت کی حقانیت سے اور اسی طرح تباہ کاروں کی سزا اور عذاب سے پردہ اٹھ جائے گا اور حقیقتِ امر ظاہر ہوگی ۔
مزید تاکید کے لئے اضافہ کیا گیا ہے: تیرا پروردگار ان دو گروہوں (مومنین اور کافرین) میں سے ہر ایک کو ان کے اعمال کو پوری جزا دے گا اور ان کے اعمال بے کم وکاست خود انہی کی تحویل میں دے دے گا (وَإِنَّ کُلًّا لَمَّا لَیُوَفِّیَنَّھُمْ رَبُّکَ اٴَعْمَالَھُمْ) ۔ خدا کے یہ کام مشکل نہیں کیونکہ وہ ہر چیز سے آگاہ ہے اور جو کچھ بھی انجام دیتے ہیں اس سے باخبر ہے (إِنَّہُ بِمَا یَعْمَلُونَ خَبِیرٌ) ۔
یہ بات جاذب نظر ہے کہ فرمایا گیا ہے کہ ہم انھیں ان کے اعمال دے دیں گے اور یہ مسئلہ تجسیمِ اعمال کی طرف ایک اور اشارہ ہے اور اس بات کی طرف نشاندہی ہے کہ جزا اور سزا دراصل انسان کے اعمال ہی کی مختلف شکل ہے جو اس تک پہنچ جاتے ہیں ۔
گزشتہ انبیاء اور قوموں کی سرگزشت اور ان کی کامیابی کی رمزِ بیان کرنے کے بعد اور اسی طرح پیغمبر اسلام کی دلجوںئی اور ان کے ارادے کی تقویت کے بعد اگلی آیت میں پیغمبر اکرم کو اہم ترین حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: استقامت وپامردی اختیار کرو جیسا کہ تمھیں حکم دیا گیا ہے (فَاسْتَقِمْ) ۔
تبلیغ وارشاد کی راہ میں استقامت اختیار کرو، جہاد وپیکار کے راستے میں استقامت اختیار کرو، خدائی ذمہ داریوں کی انجام دہی اور تعلیماتِ قرآن کو عملی کل دینے میں استقامت اختیار کرو۔ لیکن یہ استقامت اِسے اور اُسے خوش کرنے کے لئے نہ ہو، نہ ظاہرداری اور ریاکاری کے لئے ہو، نہ غلبے اور تسلط کے لئے، نہ مقام ومنصب اور ثروت ودولت کے لئے ہو اور نہ طاقت واقتدار کے لئے ہو، بلکہ صرف فرمانِ خدا کی خاطر ہو اور جس طرح تجھے حکم دیا گیا اسی طرح ہونا چاہیے (کَمَا اٴُمِرْتَ) ۔
لیکن یہ حکم صرف تجھ سے مربوط نہیں تمھیں بھی استقامت کرنا چاہیے ”اور وہ تمام لوگ بھی جو شرک سے ایمان کی طرف لوٹے ہیں اور انھوں نے الله کی دعوت کو قبول کیا ہے“ (وَمَنْ تَابَ مَعَکَ) ۔
ایسی استقامت جو افراط وتفریط سے پاک ہو، جو کمی بیشی سے خالی اور جس میں سرکشی نہ ہو (وَلَاتَطْغَوْا) کیونکہ خدا تمھارے اعمال سے آگاہ اور باخبر ہے اور حرکت وسکون، گفتگو اورپروگران اس سے مخفی نہیں ہے (إِنَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ) ۔
پُر معنی اور روح فرسا آیت
ابن عباس سے مروی ایک مشہور حدیث میں ہے:
ما نزل علیٰ رسول الله (ص) آیة کانت اٴشد علیہ ولا اٴشق من ہٰذہ الآیة،ولذلک قال لاٴصحابہ حین قالوا اٴسرع الیک الشبیب یا رسول الله! شیبتی ھود والواقعة.
پیغمبرِ خدا پر اس آیت سے زیادہ شدید اور گراں آیت نازل ہوئی، اسی لئے جب اصحاب نے آنحصرت سے پوچھا کہ یا رسول الله! آپ کے بال اتنی جلدی کیوں سفید ہوگئے اور پیری کے آثار اتنی جلدی کیوں نازل ہوگئے تو آپ نے فرمایا: مجھے سورہٴ واقعہ نے بوڑھا کردیا ہے ۔ (3)
ایک اور روایت میں ہے کہ جس وقت مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم نے فرمایا:
شمروا، شمروا، فما رئی ضاحکاً.
دامن سمیٹ لو، دامن سمیٹ لو (کہ کام اور کوشش کا وقت ہے) اور اس کے بعد آپ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔ (4)
اس کی دلیل بھی واضح ہے کیونکہ اس آیت میں چار اہم احکام موجود ہیں کہ جن میں سے ہر ایک انسان کے کندھے پر بارِگراں کی مانند ہے ۔
ان میں سے سب سے اہم حکم استقامت ہے ”استقامة“ جو ”قیام“ کے مادہ سے لی گئی ہے، اس لحاظ سے کہ انسان حالتِ قیام میں اپنے کام کاج پر زیادہ مسلط ہوتا ہے ۔
استقامت جو طلبِ قیام کے معنی میں ہے یعنی اپنے آپ میں ایسی حالت پیدا کر کہ تجھ میں سُستی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ کیسا سخت اور سنگین حکم ہے ۔
ہمیشہ کامیابیاں حاصل کرنا نسبتاً آسان کام ہے لیکن ان کی نگہداشت کرنا اور انھیں محفوظ رکھنا بہت ہی مشکل ہے وہ بھی ایسے معاشرے میں جو پسماندہ اور عقل ودانش سے دُور ہو، ایسے لوگوں کے مقابلے میں جو ہٹ دھرم اور سخت مزاج ہوں( کثیراور مصمم ارادے والے دشمنوں کی درمیان) صحیح، سالم، سربلند، باایمان اور آگے بڑھنے والے معاشرے کی تعمیر کے راستے میں استقامت کوئی آسان کام نہیں تھا ۔
دوسرا حکم یہ کہ یہ استقامت ایسی ہو کہ اس کا ہدف صرف خدائی ہو اور اس کا سبب حکمِ خدا ہو اور یہ ہر قسم کے شیطانی وسوسے سے دور رہے یعنی بہت بڑی سیاسی اور اجتماعی طاقت ہاتھ میں لینے کے لئے ہو اور وہ بھی صرف خدا کی خاطر ۔
تیسرا مسئلہ ان لوگوں کی رہبری کا ہے کہ جو راہ حق کی لوٹے ہیں اور انھیں استقامت پر ابھارنا اور آمادہ کرنا ہے، اور
چوتھا حق وعدالت کے راستے میں جہاد کی رہبری کرنا اور ہر قسم کے تجاوز اور سرکشی کو روکنا ہے کیونکہ اکثر ایساہوتا ہے کہ بہت سے افرا مقصد تک پہنچنے کے لئے انتہائی استقامت وپامردی دکھاتے ہیں لیکن عدالت کا لحاظ نہیں رکھتے اور وہ اکثر اوقات طغیان وسرکشی اور حد سے تجاوز کرنے لگتے ہیں ۔
جی ہاں! یہ تمام احکام جمع ہوگئے اور پیغمبر اکرم پر ذمہداریوں کا ایسا بوجھ لاد دیا کہ آپ نے مسکرانا چھوڑدیا اور آپ کو بوڑھا کردیا ۔
بہرحال یہ حکم صرف کل کے لئے نہیں تھا بلکہ آج کے لئے اور آئندہ کل اور اس کے بعد کے لئے بھی ہے ۔
آج بھی ہم مسلمانوں کی ذمہ داری، خصوصاً رہبرانِ اسلام کی ذمہ داری کا خلاصہ یہی چار جملے ہیں: استقامت، خلوص، مومنین کی رہبری اور سرکشی وتجاوز سے اجتناب، اور ان اصولوں کو پلّے باندھے بغیر ان دشمنوں پر کامیابی ممکن نہیں جنھوں نے داخلی اور خارجی طور پر ہمار احاطہ کررکھا ہ اور جو تمام ثقافتی، فرہنگی، سیاسی، اقتصادی، اجتماعی اور فوجی وسائل ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں ۔

 

۱۱۳ وَلَاتَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمْ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اٴَوْلِیَاءَ ثُمَّ لَاتُنصَرُونَ

ترجمہ

۱۱۳۔ ظالموں پر بھروسہ نہ کرو کہ جو اس بات کا باعث ہوگا کہ آگ تمھیں چھُولے اور اس حالت میں خدا کے سوا تمھارا کوئی ولی وسرپرست نہیں ہوگااور تمھاری مدد نہیں کی جائے گی ۔

 


۱۔ ”مِریَة“ (بروزن ”جزیہ“ اور بروزن ”قریَة“بھی آیا ہے) عزم وارادے میں تردّد وشک کے معنی میں ہے ، بعض نے اسے ایسے شک کے معنی میں لیا ہے جس میں قرائنِ تہمت موجود ہوں، بنیادی طور پر اس کا معنی اوٹنی کے پستان سے دودھ دوھ لینے کے بعد اسے اس امید پر نچوڑنا کہ اگر کچھ دودھ پستان میں باقی ہے تو وہ نکل آئے، یہ کام چونکہ تردّد وشک کے عالم میں انجام پاتا ہے لہٰذا اس لفظ کا اطلاق ہر قسم تردّد وشک پر ہونے لگا ۔
2۔ اس بارے میں اس آیت میں ”ھم“ کی ضمیرز اور اسی طرح ”منہ“ کی ضمیر کس طرف لوٹتی ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے،بعض کا نظریہ ہے کہ ”ھم“کی ضمی قومِ موسیٰ کی طرف اور ”منہ“کی ضمیر کتاب موسیٰ کی طرف لوٹتی ہے اور آیت کا معنی یوں ہے:
3۔ تفسیر مجمع البیان: ج۵، ص۱۹۹.
4 درّا لمنثور: مذکورہ آیت کے ذیل میں.
 

ظالموں پر بھروسہ نہ کروچند قابل توجہ نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma