عبرت کے زندہ درس

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
آسمان و زمین اورسبزہ زار خدا کی نشانیاں ہیں یہ دعویدار عام طور پر مشرک ہیں

زیرنظر پہلی آیت میں پیغمبر اسلام سے اپنے آئین ، دین ، روش اور خط کو مشخص کرنے کے لئے کہا گیا ہے ۔ فرمایا گیا ہے : کہہ دو : میری راہ اور طریقہ یہ ہے کہ سب کو اللہ کی طرف ( کہ جو ایک اکیلا خدا ہے ) دعوت دوں( قُلْ ھَذِہِ سَبِیلِی اٴَدْعُو إِلَی اللهِ ) ۔
اس کے بعدمزید فرمایا گیاہے : یہ سفر میں نے بے خبری یا تقلیداً اختیار نہیں کیا بلکہ میں خود او رمیرے پروکا ردنیا کے سب لوگوں کو اس راستے کی طرف آگاہی اور بصیرت سے بلاتے ہیں (عَلَیبَصِیرَةٍ اٴَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی) ۔
یہ جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم کا پیر وکار ہر مسلمان اپنے مقام پر حق کی طرف بلانے والاہے اسے چاہیئے کہ اپنی گفتار اور کردار سے دوسروں کو راہ ِ خدا کی طرف دعوت دے ۔ نیز یہ جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ ” رہبر کو کافی بصیرت ، بینائی اور آگاہی کا حامل ہونا چاہئیے ورنہ اس کی دعوت حق کی طرف نہیں ہوگی ۔
اس کے بعد بطور تاکید کہا گیاہے : خد  یعنی وہ ذات جس کی طرف میں دعوت دیتا ہوں . ہر قسم کے عیب ، نقص ، شبیہ اور شریک سے
پاک او رمنزہ ہے (و سبحان اللہ ) ۔
مزید تاکید کے لئے ارشاد ہوتا ہے :” میں مشرکین میں سے نہیں ہوں “ اور میں اس کے لئے کسی قسم کے شبیہ و شریک کا قائل نہیں ہوں ( وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ) ۔
واقعاًایک سچے رہبر کی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ صراحت سے اپنے پروگراموں اور اہداف کا اعلان کرے او روہ خود اور اس کے پیرو کار بھی ایک مشخص پروگرام کی پیروی کریں ۔ نہ یہ کہ اس کا ہدف ، روش اور طریقہ ابہام میں ہو یایہ کہ ہر ایک الگ الگ راہ پر چل رہاہو۔ اصولی طور پر سچے رہبروں کو جھوٹے رہبروں سے جد اپہچاننے کا یہی ایک راستہ ہے کہ یہ صراحت سے گفتگو کرتے ہیں اور ان کا راستہ واضح ہوتا ہے جب کہ جھوٹے کاموں کا چھپائے رکھتے ہیں اور ہمیشہ مبہم پہلو دار باتیں کرتے ہیں ۔
حضرت یوسف (علیه السلام) سے متعلق آیات کے بعد اس آیت کا آنا اس طرف اشارہ ہے کہ میری راہ و رسم خد اکے عظیم پیغمبر حضرت یوسف (علیه السلام) کی راہ و رسم سے جدا نہیں ہے ۔ وہ بھی ہمیشہ یہاں تک کہ گوشہٴ زندان میں بیٹھ کر بھی خدائے واحدو قہار کی طرف دعوت دیتے تھے اور اس کے اغیار کو اسماء بے مسمیٰ شمار کرتے تھے کہ جو تقلیداً جاہلوں کے ایک گروہ سے دوسرے تک پہنچے تھے ۔ جی ہاں ! میری روش او رتمام انبیاء کی روش یہی ہے ۔
گمراہ اور نادان قوموں کی طرف سے انبیاء پرہمیشہ یہ اعتراض ہوتا تھا کہ وہ انسان کیوں ہیں ، یہ ذمہ داری فرشتے کے کندھے پر کیوں نہیں رکھی گئی ؟ طبعاً زمانہٴ جاہلیت کے لوگ بھی پیغمبر اسلام پر ان کی عظیم دعوت کے جواب میں یہی اعتراض کرتے تھے لہٰذا قرآن مجید ایک مرتبہ پھر اعتراض کا جواب دیتا ہے : ہم نے تجھ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں بھیجے مگر یہ کہ وہ مرد تھے کہ جن کی طرف وحی نازل ہوتی تھی ، ایسے مرد کہ جو آباد شہروں اور عوامی مراکز سے اٹھتے تھے ( وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلاَّ رِجَالًا نُوحِی إِلَیْھِمْ مِنْ اٴَھْلِ الْقُرَی) ۔
وہ بھی انہی شہروں اور آباد یوں میں دوسرے انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے او رلوگوں سے میل جول رکھتے تھے ۔ ان کی مصیبتوں ، تکلیفوں ، ضروتوں اور مشکلوں سے اچھی طرح آگاہ تھے ۔
آیت میں لفظ ” من اھل قریٰ“ آیا ہے ، یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ عربی زبان میں لفط ”قریة “ ہر قسم کے شہر آباد ی کو کہا جاتا ہے او ریہ لفظ ”بدو“ کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے جس کا معنی ہے بیان ۔ ہوسکتا ہے یہ ضمنی طور پر ا س طر اشارہ ہو کہ انبیاء الہٰی ہر گز بیابانوںنشینوں میں سے نہیں ہوتے تھے ( جیسا کہ بعض مفسرین نے تصریح بھی کی ہے ) کیونکہ بیابانوں میں گردش کرنے والے عام طور پر جہالت ، نادانی اور قساوت قلبی میں گرفتار ہوتے ہیں اور مسائل زندگی اور روحانی و مادی ضروریات سے بہت کم آگاہی رکھتے ہیں ۔
یہ ٹھیک ہے کہ سر زمین حجاز میں صحرا نورد اعراب او ربدو بہت زیادہ تھے لیکن پیغمبر اسلام مکہ میں مبعوث ہوئے کہ جو اس وقت نسبتاً بڑا شہر تھا اور یہ ٹھیک ہے کہ کنعان کا علاقہ سر زمین مصر کہ جس میں یوسف (علیه السلام) حکومت کرتے تھے کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا اسی بناء پر حضرت یوسف (علیه السلام) نے اس کے بارے میں لفظ ” بدو“ استعمال کیا لیکن ہم جانتے ہیں پیغمبر خد احضرت یعقوب (علیه السلام) اور ان کے بیٹے کبھی بھی صحرانورد اور بیاباں نشین نہیں تھے بلکہ ایک چھوٹے سے قصبے کنعان میں زندگی بسر کرتے تھے ۔
پھر مزید فرمایا گیا ہے : یہ جو تیری دعوت کے خلاف ہیں ، جب کہ تیری دعوت توحید کی طرف ہے ان کے لئے بہتر ہے کہ جائیں اور گزشتہ لوگوں کے آثار اور نشانات دیکھیں تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ ان کی مخالفتوں کا انجام کیا ہو گا ۔ کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ وہ دیکھ سکتے کہ گذشتہ قوموں کا انجام کیا ہوا ( اٴَفَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْاٴَرْضِ فَیَنْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلھِمْ) ۔
کیونکہ یہ” زمین میں سیر “ روئے زمین پر گردش ۔ گزشتہ لوگوں کے آثار کا مشاہدہ اور عذاب الہٰی کی تباہ کن ضربوں کے نتیجے میں ان کے محلوں اور آبادیوںکی ویرانی بہترین درس ہے ۔ یہ زندہ اور محسوس درس ہے اور ایسا درس ہے جوسب کے لئے قابل لمس ہے ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : اور آخرت کا گھر پر ہیز گاروں کے لئے مسلماً بہتر ہے ( وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَیْرٌ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا ) ۔
کیا تمام عقل سے کام نہیں لیتے اور اپنی فکر و نظر کو کام میں نہیں لاتے (اٴَفَلاَتَعْقِلُونَ ) ۔کیونکہ یہاں کا گھر تو ناپائیدار ہے ۔ یہاں تو طرح طرح کے مصائب و آلام و تکلیفیں ہیں لیکن وہاں کا گھر جاودانی ہے اور ہر قسم کے نج و تکلیف اور پریشانی سے خالی ہے ۔
بعد والی آیت میں انبیاء کی زندگی کے حساس ترین اور زیادہ بحرانی لمحات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : خدائی پیغمبر حق کی طرف دعوت دینے کی راہ میں استقامت دکھاتے تھے اور ڈٹے رہتے تھے اور دوسری طرف گمراہ اور سر کش قومیں اپنی مخالفت کو اس طرح جاری رکھتی تھیں کہ آخر کار انبیاء مایوس ہو جاتے اور گمان کرنے لگتے کہ شاید مومنین کے چھوتے سے گروہ نے بھی ان سے جھوٹ بولا ہے اور اپنی دعوت کے راستے میں وہ تن نہا ہیں ۔ اس وقت کے جب ہر طرف سے ان کی امید ختم ہو گئی تو ہماری طرف سے نصرت و کامیابی آپہنچی جسے ہم چاہتے ہیں اور اہل پاتے ہیں ، نجات دیتے ہیں

( حَتَّی إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا اٴَنّھُمْ قَدْ کُذِبُوا جَائَھُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَشَاءُ) ۔۱
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : ہمارا عذا ب و عقاب گنہگار اور مجرم قوم سے پلٹا ی انہیں جائے گا ( وَلاَیُرَدُّ بَاٴْسُنَا عَنْ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِینَ ) ۔
یہ ایک سنت الٰہی ہے کہ جب مجرمین اپنے کام پر اصرار کرتے ہیں اور اپنے اوپر ہدایت کے دروازے بند کرلیتے ہیں اور ان پر اتمام حجت ہو جاتی ہے تو پھر خدا ئی عذا ب اور سزائیں ان کا تعاقب کرتی ہیں اور پھر کسی کی قدرت میں نہیں کہ انہیں پلٹا سکے ۔
اس آیہ کی تفسیر کے متعلق اور یہ کہ ” ظنوا انھم قد کذبوا “کس گروہ کے بارے میں ہے ، مفسرین کی مختلف آراء ہیں ۔
جو کچھ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے یہی تفسیر بہت سے علماء نے انتخاب کی ہے ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انبیاء کا معاملہ اس حد تک پہنچ جاتا تھا کہ وہ گمان کرنے لگتے کہ بغیر کسی استثناء کے تما م لوگ ان کی تکذیب کریں گے یہاں تک کہ اظہار ایمان کرنے والے مومنین بھی اپنے عقیدے میں ثابت قدم نہیں ہیں ۔
اس کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ” ظنوا“ کا فاعل مومنین ہیں ۔ یعنی مشکلات اور بحران کا عالم یہ ہوتا کہ ایمان لانے والے یہ خیال کرتے کہ کہیں انبیاء کی طرف سے دیا جانے وال نصرت و کامیابی کا وعدہ غلط نہ ہو او ریہ سوئے ظن اور تزلزل نئے ایمان لانے والوں میں
پیدا ہو نا کوئی بعید نہیں ہے ۔
بعض نے آیت کی ایک اور تفسیر بھی کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ” انبیاء بلا کش و سبہ بشر تھے ۔ جب انہیں زیادہ طولانی حالات کا سامنا ہو تا تو حالا ت کی اس سنگینی کا اثر ان پر بھی ہو تا ۔ وہ دیکھتے کہ تمام دروازے بند ہو گئے ہیں او رکشائش کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ، طولانی حوادث کے تھپیڑمسلسل انہیں پڑتے اور جن مومنین کے صبر کا یمانہ لبریز ہو جاتا ان کی فریاد متواتر ان کے کانوں سے تکراتی رہتی ۔
جی ہاں ! اس حالت میں ایک ناپائیدار لمحے میں طبیعت بشری کی بناء پر بے اختیار یہ فکر ان کے دماغ سے ٹکراتی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کامیابی کا وعدہ ہی غلط ثابت ہو جائے یا ممکن ہے کامیابی کا وعدہ ایسے شرائط سے مشروط ہو کہ جو حاصل نہ ہوئی ہوں لیکن بہت جلد وہ اس فکر پر غالب آجاتے اور اسے صفحہ دل سے محوکردیتے او رامید کی بجلی ان کے دلوں میں کوندنے لگتی اور ا س کے ساتھ ہی کامیابی کے آثار اور ہرا ول دستے ظاہر ہو تے “ ۔
اس تفسیر کے لئے انہوں نے سورہ بقرہ کی آیہ ۲۱۴ سے شاہد پیش کیا ہے :
حتی یقول الرسول و الذین اٰمنوا معہ نصر اللہ
یعنی ۔ گزشتہ قومیں شدائد ومصائب کے بھنور میں اس طر پھنس گئیں اور وہ خود سے لرزنے لگیں یہاں تک کہ ان کے پیغمبر اور ان پر ایمان لانے والے پکارکے کہتے تھے : کہاں ہے خدا کی نصرت .لیکن انہیں جواب دیا جاتا تھا :
الا ان نصر اللہ قریب
مفسرین کی ایک جماعت مثلاً طبرسی نے مجمع البیان میں اور فخر رازی نے تفسیر کبیر میں یہ احتمال ذکر کرنے کے بعد اسے بعید قرار دیا ہے کیونکہ مقامِ انبیاء سے اس قدر بھی بعید ہے ۔
بہر حال پہلی تفسیر زیادہ صحیح ہے ۔
اس سورہ کی آخری آیت ایک جامع مضمون کی حامل ہے ۔ ا س میں وہ تمام مباحث مختصر سے الفاظ میں جمع کردیئے گئے ہیں جو اس سورہ میں گزرے ہیں  اور وہ یہ کہ حضرت یوسف (علیه السلام) ، ان کے بھائیوں ، گزشتہ انبیاء و مرسلین اور مومن و غیرہ قوموں کی سر گزشتاور حالات ِ زندگی میں غور وفکر کرنے والے تمام صاحبانِ عقل کے لئے عبرت کے عظیم درس موجود ہیں ( لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِھِمْ عِبْرَةٌ لِاٴُوْلِی الْاٴَلْبَابِ ) ۔
گزرے ہووٴں کی سر گزشت ایک آئینہ جس میں فتح و شکست ، کامیابی و ناکامی ، خو بختی و بد بختی اور سر بلندی و ذلت سب کچھ بھی دیکھا جاسکتا ہے ، خلاصہ یہ کہ انسان اس آئینے میں وہ کچھ دیکھ سکتا ہے جو اس کی زندگی میں اہمیت اور منزلت رکھتا ہے اور وہ کچھ بھی دیکھ سکتا ہے جو ا س کی زندگی میں اہمیت و منزلت نہیں رکھتا ۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں گزشتہ قوموں اور عظیم رہبروں کے تمام تجر بات کا ماحصل نظر آتا ہے ۔ یہ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کا مشاہدہ کم عمر والے انسان کو تمام عالم بشریت کی عمر کے برابر طولانی زندگی والا کر دیتا ہے ۔
لیکن صرف اولو االباب اور صاحبان فکر ہی ہیں جو اس عجیب و غریب آئینہ سے ان نقوش عبرت کو دیکھ سکتے ہیں ۔
مزید فرمایا گیا ہے : جو کچھ کہا گیاہے کوئی گھڑا ہوا افسانہ اور خیالی داستان نہیں ہے (مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَی ) ۔
یہ آیات جو تجھ پر نازل ہوئی ہیں اور گزشتہ لوگوں کو صحیح تاریخ کے چہرے سے پردہ ہٹاتی ہیں تیرے دماغ اور فکر کی پیدا وار نہیں ہیں ” بلکہ یہ ایک عظیم آسمانی وحی ہے ، گزشتہ انبیاء کی بنیادی کتب کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی شہادت دیتی ہے “ (وَلَکِنْ تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْہِ) ۔
علاوہ ازیں جس چیز کی انسان کو ضرورت ہے اور جو کچھ اس کی سعادت اور تکامل کے لئے درکار ہے وہ ان آیات میں آیا ہے ( وَتَفْصِیلَ کُلِّ شَیْءٍ) ۔
اسی بناء پر یہ جستجو کرنے والوں کے لئے سرمایہٴ ہدایت ہے اور تمام ایمان لانے والوں کے باعثِ رحمت ہے (وَھُدًی وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ) ۔
گویا مندرجہ بالا آیت میں اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتی ہے کہ کوبصورت اور دل انگیز داستانیں و بہت ہیں اور تمام قوموں میں ہمیشہ خیالی اور دلکش افسانے بہت رہے ہیں . کہیں کوئی یہ تصور نہ کرے کہ یوسف (علیه السلام) کی سر گزشت یا قرآن میں آنے والے دیگر انبیاء کے واقعات بھی اسی قبیل سے ہیں ۔
یہ امر بہت اہم ہے کہ یہ عبرت انگیز اور جھنجھوڑ نے والے واقعات عین حقیقت ہیں اور ان میں ذرہ بھر انحراف نہیں اور نہ کوئی خارجی چیز ان میں شامل کی گئی ہے ۔ اسی بنا ء پر ان کی تاثیر بہت زیادہ ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خیالی افسانہ کتنا ہی جاذب نظر ، ہلادینے والا اور مرتب و منظم ہو اس کی تاثیر ایک حقیقی واقعے کی نسبت کچھ بھی نہیں ہے ..کیونکہ :
اولاً:۔ جس وقت سننے والا پڑھنے والا داستان کے زیادہ ہیجان انگیز لمحات تک پہنچتا ہے اور اس سے لرز نے لگتا ہے تو اچانک یہ خیال بجلی کی کرنٹ کی طرح اس کے دماغ میں پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک خیالی تصوراتی چیز سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔
ثانیاً:۔یہ واقعات اور داستانیں در اصل انہیں پیش کرنے والے کی فکر کو بیان کرتی ہیں ۔ وہ اپنے افکار اور خواہشات کا نچور داستان کے ہیرو کے کردار میں مجسم کرتا ہے ۔
لہٰذا ایک خیالی داستا ن ایک انسان کی فکر سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور یہ چیز ایک عینی حقیقت سے بہت مختلف ہے ۔خیالی بات کہنے والے کی نصیحت اور وعظ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی لیکن انسانوں کی حقیقی تاریخ کی یہ صورت نہیں ہے وہ تو نتیجہ خیز ، پر بر کت اور ہر لحاظ سے راہ کشا ہوتی ہے ۔

سورہٴ یوسف (علیه السلام)کا اختتام
 

پروردگارا !
ہمیں چشم بینا ، گوش سنوا اور قلب دانا مرحمت فرما ۔
تاکہ ہم گزشتہ لوگوں کی سر گزشتوں سے اپنی نجات کے راستے تلاش کرسکیں اور ان مشکلات سے نکل جائیں کہ جن میں اس وقت ہم غوطہ زن ہیں ۔
خدا وندا !
ہمیں تیز نگاہ عطا فرما ۔
تاکہ ہم اقوم ِ عالم کے انجام سے سبق حاصل کریں اور کایابی کے بعد اختلاف و انتشار کی بناء پر دردناک ترین شکستوں سے دوچار ہونے والی اقوام کو ہم دیکھیں اور اس طرح ہم اس راستے پر نہ چلیں جس پر وہ قومیں چلی ہیں ۔
بارالٰہا !
ہمیں ایسی خالص نیت عطا فرما . کہ
ہم نفس کے دیو کے سر پر پاوٴں رکھ دیں اور ایسی معرفت عطا فرما .کہ
ہم کامیابی پر مغرور نہ ہوں اور ایسی گزشت و بخشش عطا فرم کہ
اگر دوسرا ہم سے بہتر اکام انجام دے تو وہ کام ہم اس کے سپرد کردیں ۔
اگر یہ چیزیں تو ہمیں مر حمت فرمادے تو ہم تمام مشکلات پر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اور ہم اسلام و قرآن کا چراغ ساری دنیا میں روشن رکھ سکتے ہیں ۔
 


۱۔’ ’ حتیٰ“ محذوف جملے کے لئے غایت و انتہا کی شکل میں ذکر ہوا ہے اور اس کی تقدیر اس طرح ہے : ان الرسل اقاموا علی دوتھم و الکافرین بھم علی مخالفتھم حتیٰ ازا تیئس الرسل
آسمان و زمین اورسبزہ زار خدا کی نشانیاں ہیں یہ دعویدار عام طور پر مشرک ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma