خدا کا بے پایاں علم

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
غیبی محافظ دو سوال اور ان کے جواب

ان آیات میں پر وردگار کی کچھ صفات بھی ہیں اور یہ آیات توحید اور معاد کی بحث کی تکمیل بھی کرتی ہیں ۔ یہاں پر وردگار کے وسیع علم اور ہر چیز کے بارے میں اس کی آگاہی کے متعلق گفتگو ہے۔ وہی علم جو نظام آفرینش ، عجائبات ِ خلقت اور دلائل ِ توحید کا سر چشمہ ہے ۔ وہی علم جو قیامت اور اس کی عظیم عدالت کی بیاد ہے ۔ ان آیات میں علم کے دونوں پہلووٴں ( نظام آفرینش کا علم اور بندوں کے اعمال کا علم ) کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : خدا ان جنینوں ( جو بچے شکم مادر میں ہوتے ہیں ) سے آگاہ ہے کہ جنہیں ہر عورت اور ہر مادہ جانور( اپنے شکم میں ) اٹھائے ہوتا ہے (اللهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اٴُنثَی
اور اسی طرح انہیں بھی جانتا ہے جنہیں رحم وقت مقرہ سے پہلے جَن دیتے ہیں (وَمَا تَغِیضُ الْاٴَرْحَامُ )۔۱
اور یونہی ان سے باخبر ہے جنہیں رحم وقت مقررہ سے زیادہ روک رکھتے ہیں ( وَمَا تَزْدَادُ
مندرجہ بالا تین جملوں کی تفسیر کے بارے میں مفسیرن میں بہت اختلاف ہے ۔
جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے بعض مفسرین حمل کی تین قسموں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔ یعنی کبھی وقت مقررہ پر پیدا ہوتا ہے ، کبھی وقت مقررہ سے پہلے ( گویا در کار وقت کو اپنے اندر جذ کرلیتا ہے ) اور کبھی وقت مقررہ کے بعد ۔ خدا ان تمام کو جانتا ہے ۔ وہ جنین کی تاریخ تولد اور لمحہٴ ولادت سے بے کم و کاست آگاہ ہے اور یہ ایسے امور میں سے ہے جسے کوئی شخص اورکوئی مشینری حتماًمعین نہیں کرسکتی ۔ یہ علم پروردگار کی ذات پاک سے مخصوص ہے اور اس کی دلیل بھی واضح ہے کیونکہ رحمتوں اور جنینوں کی استعداد بالکل مختلف ہوتی ہے اور کوئی شخص بھی ان اختلافات سے حتماً اور کاملا ً آگاہ نہیں ہے ۔
بعض دیگر مفسرین نے کہا ہے کہ یہ تین جملے حمل کی مختلف حالتوں کی طرف اشارہ ہیں ۔ پہلا جملہ خود جنین کی طرف اشارہ ہے کہ رحم اسے محفوظ کرلیتا ہے ۔ دوسرا جملہ خونِ حٰض کی طرف اشارہ ہے جو رحم میں گرتا ہے اور جنین اسے جذب کرلیتا ہے ، اسے چوستا ہے اور اسے نگل لیتا ہے اور تیسرا جملہ اضافی خون کی طرف اشارہ ہے جو حمل کے دنوں میں کبھی کبھار باہر گرتا ہے یا ولادت کے وقت یا س کے بعد رحم سے الگ ہو تا ہے ۔ ۲
لیکن جو روایات تفسیر نو ر الثقلین میں اس آیت کے ذیل میں آئمہ اہل بیت (ع) سے نقل ہوئی ہیں وہ زیادہ تر اسی پہلے منعی کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ جو ہم متن میں ذکر کرچکے ہیں .
اس آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں دیگر احتمالات بھی ذکر کئے گئے ہیں کہ جن میں سے کوئی بھی مختلف ہو نے کے باوجود دوسرے سے متضاد نہیں ہے اور ہوسکتا ہے یہ آیت ان تمام تفاسیر کی طرف اشارہ ہو ارگ چہ ظاہری مفہوم وہی ہے جو پہلی تفسیر کے ضمن میں پیش کیا گیا ہے ۔ کیونکہ لفظ ”تحمل“ جنین کے اٹھانے کا معنی دیتا ہے اور اس کے قرینہ سے ” تغیض“ اور ”تزداد“ کے الفاظ دورانِ حمل کی کمی اور بیشی کی طرف اشارہ ہیں ۔
ایک حدیث جو امام محمد باقرعلیہ السلام یا امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے ، اس طرح ہے :
الغیض کل حمل دون تسعة اشھر ، وما تزداد کل شیء یزداد علی تسعة اشھر
”غیض“ ہر اس حمل کو کہتے ہیں جس کی مدت ۹ ماہ سے کم ہو اور ” ماتزداد“ ہر وہ چیز ہے جو ۹ ماہ سے زیادہ ہو ۔
اس حدیث کے آخر میں فرماتے ہیں :
کلماراٴت المراة الدم الخالص فی حملھا فانھا تزداد و بعدد الایام التی زاد فیھا فی حملھا من الدم
جب عورت حمل کی حالت میں خالص خون دیکھے تو اس خون کے ایام کی تعداد کے برابر حمل کی مدت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔3
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : ہر چیز خد اکے ہاں معین مقدار کی حامل ہے (وَکُلُّ شَیْءٍ عِنْدَہُ بِمِقْدَارٍ )۔کہیں یہ خیال نہ ہو کہ مدت حمل کی یہ کمی بیشی بغیر کسی حساب کتاب کے اور بغیر کسی سبب کے ہے بلکہ اس مدت کی ہر گھڑی اور ہر لحظہ نپا تُلا ہے ۔
بعد والی آیت درحقیقت گذشتہ آیت میں بیان کی گئی بات کی دلیل ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : خدا غیب و شہود ( اور پنہاں و آشکار) سب کو جانتا ہے ( عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشّھََادَةِ
غیب و شہود کے بارے میں اس کی آگاہی اس بناء پر کہ ” وہ بزرگ و بر تر ہے ، ہر چیز کے لئے متعال ہے اور ہر چیز پر مسلط ہے “ اسی بناء پر وہ ہر جگہ حاضر ہے اور کوئی چیز اس کی نگاہِ علم سے پوشیدہ نہیں ہے ( الْکَبِیرُ الْمُتَعَالِ
اس بحث کی تکمیل کے لئے اور اس کے علم بے پایاں کے بارے میں تاکید کے لئے مزید فرمایا گیا ہے ” خدا کے لئے ان لوگوں میں کوئی فرق نہیں کہ جو اپنی بات چھپاتے ہیں اور وہ جو آشکار کرتے ہیں وہ سب کچھ جانتا اور سنتا ہے ( سَوَاءٌ مِنْکُمْ مَنْ اٴَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَھَرَ بِہِ
نیز اس کے لئے ان لوگوں میں کچھ فرق نہیں کہ جو خفیہ طور پر رات کی تاریکی میں اور ظلمت کے پردوں میں قدم اٹھاتے ہیں اور وہ کہ جو آشکارا روزِ روشن میں اپنے کارو بار کے لئے نکلتے ہیں (وَمَنْ ھُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّیْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّھَارِ )۔4

 

چند اہم نکات

 

۱۔ قرآن اور جنین شناسی : قر آ ن مجید میں بار ہا جنین ، اس کے عجائب و غرائب اور نظام کی طرف توحید ، خدا شناسی اور حضرتِ حق کے علم بے پایاں کی ایک دلیل کے طور پر اشارہ ہوا ہے ۔ البتہ جنین شناسی ایک بالکل نیا علم ہے ۔ گزشتہ زمانے میں علماء اور سائنسداں جنین اور اس کے مختلف مراحل کے بارے میں بہت محدود اطلاعات رکھتے تھے لیکن علم اور سائنس کی پیش رفت کے ساتھ اس علم میں تیزی سے غیر معمولی ترقی ہوئی ہے اور اس خاموش اور بے آواز دنای کے بہت سے اسرار و عجائب منکشف ہوئے ہیں اس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ جنین کی خلقت ، اس کے تحول اور تکامل میں خدا شناسی کی ایک دنیا پوشیدہ ہے ۔
اس موجودہ کی کونخبر پا سکتا ہے کہ جو ہر کسی کی دسترس سے باہر ہو قرآنی الفاظ میں جو ” ظلمات ثلاث “ ( تین تاریکیوں ) میں موجود ہواور جس کی زندگی انتہائی ظریف اور دقیق ہو ۔ کو ن اسے ضروری مقدار میں غذا بہم پہنچا سکتا ہے اور کون تمام مراحل میں اس کی ہدایت کرسکتا ہے ۔
مندرجہ بالا آیات میں جب خدا فرماتا ہے کہ ” خدا جانتا ہے کہ ہر مادہ جانور کے رحم میں کیا ہے “ تو اس کا یہ مفہوم نہیں کہ صرف اس کی جنسیت ( یعنی نر یا مادہ ہونے ) کے بارے میں آگاہ ہے بلکہ اس کی تمام مشخصات ، استعداد، ذوق اور طاقت کہ جو بالقوہ اس میں پوشیدہ ہے کے متعلق آگاہ ہے اور یہ وہ امور ہیں جن کے بارے میں کوئی شخص کسی بھی ذریعے سے آگاہی حاصل نہیں کرسکتا ۔
اس بناء جنین میں حساب شدہ نظاموں کی موجودگی اور دقیق و پیچیدہ ارتقاء میں اس کی راہبری ایک عالم و قدار مبداء کے بغیر ممکن نہیں ۔
سورہ ٴ طلاق آیہ ۳ میں ہے :
قد جعل اللہ لکل شیء قدراً
خدا انے ہر چیز کے لئے ایک مقدار معین کی ہے
سورہ حجر آیہ ۲۱ میں ہے :
و ان کان من شیء عندہ نا خزائنہ و ما ننزلہ الا بقدر معلوم
ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم ایک معین مقدار کے سوا نازل نہیں کرتے ۔
زیر بحث آیات میں بھی ہم نے پڑھا ہے :
وکل شیء عندہ بمقدار
اور تمام چیزوں کی اس کے یہاں مقدار ہے ۔
یہ سب آیات اس امر کی طرف اشارہ ہیں کہ اس عالم کی کوئی چیزحساب کتا ب کے بغیر نہیں ہے یہاں تک کہ طبیعی دنیا میں جن موجودات کو ہم بغیر حساب کتاب کے فرض کرتے ہیں وہ سب دقیق او ر جچا تلا حساب رکھتی ہیں چاہے ہم اس سے جانیں یا نہ جانیں ۔ اصولی طو ر پر خدا کے حکیم ہو نے کا بھی اس کے علاوہ کوئی مفہوم نہیں کہ ہر چیز کی خلقت میں ایک پروگرام ، حد اور مقدار معین ہوتی ہے ۔ جن اسرار ِ خلقت کو ہم نے آج علوم کے ذریعے معلوم کیا ہے وہ اس حقیقت کو پورے طور پر تاکید کرتے ہیں ۔ مثلاً انسان کا خون کہ جو اس کے وجود کی زندگی کا سب سے اہم مادہ ہے اور جو تمام ضروری مواد کو انسانی بدن کے تمام خلیوں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے ، بیس سے زیادہ عناصر کا مرکب ہے ان عناصر کا تناسب اور کیفیت اس قدر مہم دقیق اور جچی تلی ہے کہ اس میں تھوڑے سے تغیر سے بھی انسانی سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے ۔یہی وجہ ہے بدن کی خرابیوں کو پہچاننے کے لئے فوراً خون ٹیسٹ کرتے ہیں اور شوگر ، چربی اور اورہ، آئرن اور دیگر اجزائے ترکیبی کا اندازہ لگا یا جاتا ہے اور ان اجزاکی کمی بیشی سے فوراً بدن کی بیماریوں کے علل و اسباب معلوم کرلئے جاتے ہیں ۔
ان کا خون ہی ایسی دقیق ترکیب نہیں رکھتا بلکہ یہی صورت تمام عالم ہستی کی ہے ۔
اس نکتے کی طرف توجہ کرنے سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ کبھی کبھار وہ چیزیں ہم عالم ہستی کی بے نظمیاں خیال کرتے ہیں اور دراصل ہمارے علم کی نارسائی اور ناپختگی سے مربوط ہیں ۔ ایک موحد اور سچا خدا پرست عالم کے بارے میں کبھی بھی ایسا تصور نہیں کرسکتا او رعلوم کی تدریجی پیش رفت اسی حقیقت کی گواہ ہے ۔
اس گفتگو سے ہم یہ سبق بھی سیکھ سکتے کہ انسانی معاشرہ جو پورے نظام ہستی کا ایک حصہ ہے اگر صحیح زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئیے کہ ” شیء عندہ بمقدار“ کا اصول اس کے سارے وجود پر حکمران ہو وہ ہر قسم کے افراط و تفریط سے بچے اور ہر اس کام سے پر ہیز کرے جو بغیر کسی حساب کتاب کے ہو اور اسکے تمام اجتماعی اصول جچے تلے ہونے چاہئیں ۔
۳۔ خد اکے لئے غیب و شہود برابر ہیں :زیر بحث آیات میں یہ بات ذکر ہوئی ہے کہ غیب و شہود بار گاہ خدا وندی میں واضح اور روشن ہے ۔ بنیادی طور پر غیب و شہود دو نسبتی مفہوم ہیں کہ جو ایسے موجود کے بارے میں استعمال ہوتے ہیں جس کا علم اور ہستی محدود ہوں ۔
مثلاً ہم جو حواس خمسہ کے حامل ہیں تو جو کچھ ہماری آنکھوں ، قوتِ سماعت اور دیگر حواس کی پہنچ کے اندر ہے وہ ہمارے ”شہود“ ہے اور جو کچھ ہماری دید و شنید سے باہر ہے ہمارے لئے وہ ” غیب ہے “۔ فرض کیا اگر ہماری نگاہ کی قدرت لامحدود ہوتی، ہم اشیاء کے ظاہر و باطن کو دیکھ سکتے اور ذرات عالم کے اندے ہماری نظر اتر جاتی تو تمام چیزیں ہمارے لئے شہود“ ہو جاتیں ۔ خدا کی ذات پا ک کے علاوہ باقی تمام چیزیں چونکہ محدود ہیں لہٰذا ان تما م چیزوں کے لئے غٰب و شہود موجود ہے لیکن ذات الہٰی چونکہ لامحدود ہے اور ہر جگہ موجود ہے لہٰذا اس کے لئے تمام چیزیں شہود ہیں اور اس کی ذاتِ پاک کے برے میں ”غیب “کوئی مفہوم نہیں رکھتا ۔
اگر ہم کہتے ہیں کہ خدا ” عالم الغیب و الشہادة “ ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے لئے غیب یا شہود ہے اس کے لئے یکساں اور شہود ہے ۔
اگر ہم روشنی میں اپنی ہتھیلی کی طرف دیکھیں تو کیا ممکن ہے کہ جو کچھ اس میں ہو ہم اس سے بے خبر رہ جائیں ۔ عاللم ہستی علم خدا کے سامنے اس بھی کئی درجے زیادہ واضح و آشکار ہے ۔
۴۔ علم خدا کی طرف کے تربیتی آثار:یہ جو ہم مندرجہ بالا آیات میں پڑھتے ہیں کہ خد اپنہاں و آشکار چیزوں کو ، رات اور دن کی آمدو رفت کو تمہاری تمام حرکات کو یکسا ں طور پر جانتا ہے اور اس کے علم کی بارگاہ میں یہ سب آشکار ہیں ۔ اس حقیقت پر اگر ہم حقیقی ایمان رکھتے ہوں اور یہ احساس رکھتے ہوں کہ وہ ہمارے اوپر ہر وقت نگران ہے تو اس سے ہماری روح ، فکر ، گفتار اور کردار میں ایک بہت گہرا انقلاب پیداہو جائے گا ۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صا دق علیہ السلام ایک سوال کیا : آپ کی زندگی کا پروگرام کیا ہے ؟
آپ نے چند امور بیان فرمانے کے بعد فرمایا :
علمت ان اللہ مطلع علی فاستحییت
میراایک پروگرام یہ ہے کہ میں نے جان لیا ہے کہ خد امیرے تمام کاموں سے آگاہ ہے اور ان کے بارے میں باخبر ہے لہٰذا میں ا س کی نافرمانی سے حیا کرتا ہوں ۔
تاریخ اسلام میں اور حقیقی مسلمانوں کی روز مرہ زندگی میں ہم اس حقیقت کے بہت سے جلوہ مشاہدہ کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں ایک باپ بیٹا ایک باغ میں پہنچے ۔ باپ باغ کے مالک کی اجازت کے بغٰر پھل توڑنے کے لئے درخت پر چڑھ گیا ۔ اس کا بیٹا جو با معرفت نوجوان تھا کہنے لگا : ابّا ! نیچے اتر آوٴ ۔
باپ پریشان ہوا اور ڈرا ۔ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے فوراً نیچے اتر آیا۔ اس نے پوچھا : مجھے نظر نہیں آیا، کوتھا جو مجھے دیکھ رہا تھا ؟ لڑکے نے کہا تمہارے اوپر سے ۔
اس نے اوپر کی کی طرف دیکھا تو اسے کوئی چیز نظر نہیں آئی۔
بیٹے نے کہا، میری مراد خدا ہے ، جو ہم سب سے مافوق اور ہم سب پرمحیط ہے ، کیسے مکن ہے کہ ایک انسان کے دیکھنے سے تو تمہیں خوف آتا ہے لیکن خدا جو تمہیں ہر حالت میں دیکھ رہا ہے اس سے تجھے کوئی خوف نہیں آتا ۔ یہ کیا ایمان ہے ۔

 

 

 

۱۱۔ لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونَہُ مِنْ اٴَمْرِ اللهِ إِنَّ اللهَ لاَیُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاٴَنفُسِھِمْ وَإِذَا اٴَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوئًا فَلاَمَرَدَّ لَہُ وَمَا لَھُمْ مِنْ دُونِہِ مِنْ وَالٍ۔

 

ترجمہ

 


۱۱۔انسان کے لئے کچھ مامورین ہیں کہ جو پے درپے سامنے اور اس کے پیچھے سے اسے ( غیر حتمی ) حوادث سے محفوظ رکھتے ہیں لیکن خدا کسی قوم ( اور ملت ) کی سر نوشت کو نہیں بدلتا مگر یہ کہ وہ خود اسے تبدیل کریں اور جب خدا کسی قوم کے بارے میں ( ان کے اعمال کی وجہ سے ) بُرا ارادہ کرتا ہے تو کوئی اس کے لئے رکاوٹ نہیں ہوتی اور خد اکے علاوہ ان کا کوئی سر پرست نہیں ہو گا۔

 

 


 
۱۔ ”تغیض “ ” غیض“ کے مادہ سے ہے ۔ یہ اصل میں بہنے والی چیز کا نگل جانے اور اسے ٹھہرالینے کے معنی میں ہے اسی لئے یہ لفظ نقصان اور فساد کے معنی میں بھی آیاہے۔”غیض“ ایسے مکان اور جگہ کو کہا جاتا ہے جس میں پانی کھڑا ہو جائے اور اسے نگل جائے ” لیلة غائضة“تاریک رات کے معنی میں ہے ( یعنی ایسی رات جو سارا نور نگل گئی ہو )۔
۲۔ تفسیر المیزان میں آیت کی اس تفسیر کی تائید کے ضمن میں صاحبِ تفسیر کی تائید کے ضمن میں صاحبِ تفسیر فرماتے ہیں کہ آئمہ اہل بیت (ع) کی بعض روایات اس تفسیر کی تائید کرتی ہیں او رجو کچھ ابن عباس سے نقل ہو اہے وہ بھی حتما ً اسی معنی پر منطبق ہوتا ہے ۔
3۔ نور الثقلین جلد ۲ ص ۴۸۵۔
4”سارب“ اصل میں ”سرب“ ( بر وزن” ضرر“ ) کے مادہ سے ”جاری پانی “ کے معنی میں ہے ۔ بعد از اں لفظ اس انسان کے بارے میں استعمال ہونے لگا جو کسی کام کے پیچھے چل رہا ہو۔
اصولی طور پر اس شخص کے لئے نور و ظلمت ، تاریکی و روشنی اور غیب و شہود کوئی مفہوم نہیں رکھتے جو ہر جگہ حاضر و ناضر ہے ۔ وہ یکساں طور پر ان سب سے آگاہ اور با خبر ہے ۔
 
غیبی محافظ دو سوال اور ان کے جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma