رعد و برق کی بر کتیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
چند اہم نکات عظمت الہٰی کی کچھ نشانیاں

ہم جانتے ہیں کہ سائنسی لحاظ سے برق اس طرح سے پید اہوتی ہے کہ بادل کے دو ٹکڑے مختلف بجلی کے لحاظ سے (مثبت او رمنفی پول کی صورت میں) ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور ان سے بالکل اس طرح سے کرنٹ پیدا ہوتا ہے جیسے بجلی کے دو تار جن میں مختلف (مثبت اور منفی فیز (Phase)کی بجلی آرہی ہو جب ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں تو بہت زیادہ کرنٹ پیدا ہوتا ہے اور اصطلاح کے مطابق ہو جاتے ہیں ۔
تاروں کے دو سے جب آپس میں ملتے ہیں تو ہمارے سامنے معمولی سا کرنٹ اور شعلہ پید اہوتا ہے اور ایک ہلکی سے آواز بھی پیدا ہوتی ہے جب کہ آسمانی بجلی کے ساتھ بادلوں کی وسعت کے اعتبار سے الیکٹرک ڈسچارج شدید ہوتا ہے کہ اس سے ” رعد“ اور گرج پید اہوتی ہے۔
بادل کا ٹکڑا جو مثبت رو ہوتی ہے جب زمین کے نزدیک ہو جائے کہ جس میں ہمیشہ منفی رو ہوتی تو زمین اور بادل کے درمیان کرنٹ پید اہو جاتا ہے جسے ”صاعقہ“ کہتے ہیں ۔ یہ برقی رو اس ئے خطر ناک ہوتی ہے کہ اس کا ایک سر زمین کے بلند مقامات ہو تے ہیں ۔ اصطلاح کے مطابق یہ بلند جگہیں منفی رو کی حامل تار کے سرے یا نوک میں بدل جاتی ہیں یہاں تک کہ ہو سکتا ہے کہ کسی بیابان میں ایک انسان عملی طور پر اس منفی تا ر کی نوک میں بدل جائے اور بہت وحشت ناک کرنٹ اس کے سر پر آگرے اور مختصر سے لمحہ میں وہ خاکستر ہو جائے ۔ لہٰذا بیا بانوں میں رعد اور برق کے موقع پر فورا ً درخت ، دیوار یا پہاڑ کے دامن میں یا کسی اونچی جگہ کی اوٹ میں پناہ لے لینا چاہئیے یا کسی گرھے میں لیٹ جانا چاہئیے ۔
بہر حال برق جو شاید بعض کی نگاہ میں عالم طبیعت کی شوخی ہے موجودہ سائنسی انکشافات سے ثابت ہو ا ہے کہ اس کے بہت سے فوائد و برکات ہیں ۔ ذیل میں ہم ان فوائد کے تین پہلووٴ ں کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
۱۔ آبیاری : بجلیاں عموما ً بہت زیادہ حرارت پید اکرتی ہیں جو بعض اوقات تقریبا ً ۱۵ /ہزار سنتی گریڈ ہوتی ہے ۔ یہ حرارت اس مقصد کے لئے کافی ہوتی ہے کہ اطراف کی زیادہ تر ہوا کو جلادے اور اس کے نتیجہ میں فوراً ہوا کا دباوٴ کم ہو جاتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ کم دباوٴ کی صورت میں ہی بادل برستے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر بجلی چمکنے اور گرنے کے بعد ہی اولے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں اور بارش کے موٹے موٹے قطرے گرنے لگتے ہیں ۔ اس بناء پر در حقیقت بجلی کی ایک ذمہ داری آبیاری ہے ۔
۲۔ جراثم پرسم پاشی : جس وقت برجلی اپنی اس حرارت کے ساتھ چمکتی ہے تو بارش کے قطرات اضافی آکسیجن کی مقدار میں ترکیب ہوتے ہیں اور یہ بھاری پانی یعنی ہائیڈروجن پر آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ بھاری پانی کے آثار میں سے ایک یہ ہے وہ جراثیم کش ہوتا ہے ۔ اسی بناء پر طبی مصارف میں اسے زخموں کو دھونے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ بھاری پانی کے یہ قطرات جس وقت زمین پر برستے ہیں تو بناتاتی بیماریوں کے جراثم ختم کردیتے ہیں ۔ گویا پانی جراثیم پر خوب سم پاشی کرتا ہے ۔ اسی بنا ء پر ماہرین نے کہا ہے کہ جس سال رعد و برکم ہو بناتاتی آفات اور بیماریاں زیاد ہوتی ہیں ۔
۳۔ تغذیہ اور کھاد رسائی : بجلی ، شدید حرارت او رکیمیائی ترکیب سے بارش کے قطرے کار بانک اسیڈ۱
(H2CO3 CARBONIC ACID)بے رنگ و بو بھاپ جو کچھ ترش مزہ ہوتی ہے طب مین ہاضمے کی تقویت کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔ ( مترجم )
کی حالت اختیار کرلیتے ہیں یہ جب زمینوں پر چھڑکے جاتے ہیں ، تو کیمیائی اثرات کی بدولت نباتات کے لئے ایک موثر کھا دکا کام کرتے ہیں ۔ اسی طرح سے نباتات کو غذا ملتی ہے ۔
بعض ماہرین کے مطابق آسمانی بجلیوں کے ذریعے کرہ زمین کو سال بھر میں ملنے والی کھاد سینکڑوں لاکھ ٹن ہے ۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ پاوٴں کے نیچے روندی جانے والی بظاہر ایک بے خاصیت چیز کس قدر پر بار او رپر بر کت ہے آبیاری بھی کرتی ہے ، جراثم پر رسم پاشی بھی کرتی ہے اور غذا بھی بنتی ہے ۔ یہ عالم ِ ہستی کے عجیب و غریب اور وسیع و عریض اسرار میں خدا شناسی کی طرف واضح راہنمائی کرنے والا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے ۔
یہ سب ایک طرف بجلی کی برکات ہیں اور دوسری طرف یہ آتش سوزاں کو بھی وجود دیتی ہے کہ جس کی ایک قسم ” صاعقہ “ ہے۔ یہ بجلی ہوسکتا ہے ایک یا کئی انسانوں کو یا درکتوں کوجلا ڈالے ۔ یہ چیز اگر کم اور ناد رہے اور اس سے بچا بھی جا سکتا ہے تا ہم خوف و ہراس کا عامل بن سکتی ہے ۔
اس طرح سے یہ جو ہم نے آیت بالا میں پڑھا کہ برق خوف کا سبب بھی ہے اور امید کا بھی ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ان تمام امور کی طرف اشارہ ہو۔
یہ بھی ممکن ہے کہ جملہ ”وَیُنْشِیء السَّحَابَ الثِّقَالَ“جو مندر جہ بالا آیت کے آخر میں آیاہے وہ بجلی کی اسی خاصیت کے ساتھ مربوط ہو کہ جو بادلوں کی بارش کے انہی بھری ہو ئی پشت والے قطروں سے بوجھل کرتی ہے ۔
بعد والی آیت میں”رعد“ کی آواز کا ذکر ہے کہ جو برق سے جدا نہیں ہے ۔ فرمایا گیاہے : رعد خدا کی تسبیح اور حمد کرتی ہے “( وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہِ ) ۔
جی ہاں !عالم طبیعت کی یہ سخت آواز کہ جو بڑی آواز کے لئے ضرب المثل ہے چونکہ بجلی سے منسلک ہے اور دونوں ایک ہی مقصد کو پورا کرتی ہیں اور بہت اہم اور سوچی سمجھی خدمات انجام دیتی ہیں کہ جن کی طرف سطور بالا میں اشارہ کیا گیا ہے عملی طور پر خدا کی تسبیح کرتی ہیں دوسری طرف ”رعد“ ”برق“ کی زبان ِ گویا ہے جو نظام آفرینش اور عظمت خلق کی ترجمانی کرتی ہے ۔
یہ وہی چیز ہے جسے ”زبان حال “کہتے ہیں ۔ ایک جامع کتاب ، ایک قصیدہ ٴغرا، ایک خوبصورت اور دل انگیز مصوری کا نمونہ اور ایک مستحکم و منظم عمارت سب اپنی زبان حل سے اپنے لکھنے والے ، کہنے والے ، نقاش اور معمار کے علم و دانش اور ذوق و مہارت کی بات کرتے ہیں اور انہیں خراج ِ تحسین پیش کرتے ہیں ۔
اس عالم ہستی کا ہر ذرہ اسرار آمیز ہے اور بہت ہی دقیق اور حساب شدہ نظام رکھتا ہے ۔ سب ذرات ِ کائنات خدا پاکیزگی اور ہرقسم کے نقص و عیب سے اس کے منزہ ہونے کی حکایت کرتے ہیں (کیا” تسبیح“تنزیہ اور پاک جانتے کے علاوہ کچھ اور ہے ؟)اور سب کے سب اس کی قدرت اور علم و حکمت کی خبر دیتے ہیں (کیا”حمد“  صفات ِ کمال بیان کرنے کے علاوہ کچھ اور ہے ؟) ۱
فلاسفہ کی ایک جماعت نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ اس جہان کے تمام ذرات میں سے ہر ایک ایک قسم کا عقل و شعور رکھتا ہے اور اسی عقل و شعور کی بناء پر خدا کی تسبیح و تقدیس کرتا ہے نہ صرف زبان حال سے اور اپنے وجود سے کہ وجود خدا کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ زبان قال سے بھی اس کی تعریف کرتا ہے ۔
نہ صرف یہ کہ صدائے رعد اور عالم مادہ کے دیگر اجراء اس کی تسبیح کرتے ہیں بلکہ ” تمام فرشتے بھی خدا کے خوف و خشیت سے اس کی تسبیح میں مشغول ہیں “(وَالْمَلَائِکَةُ مِنْ خِیفَتِہِ) ۔ ۲
وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں فرمان ، خدا پر عمل کرنے میں اور نظام ہستی کے بارے میں عائد شدہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو جائے اور اس طرح کہیں وہ عذاب ِ الٰہی میں گرفتار نہ ہوجائیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ جواحساس ِ مسئولیت رکھتے ہیں ان کے لئے ذمہ داریاں خوف کا باعث ہوتی ہیں  ایک اصلاحی خوف کو جو انسان کو سعی و کاوش اور تحریک پر آمادہ کرتا اور ابھار تا ہے ۔
”رعد و برق“ کے بارے میں مزید وضاحت کے لئے ”صواعق“ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : خد اصواعق کو بھیجتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان کے ذریعے تکلیف پہنچاتا ہے (وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیبُ بِھَا مَنْ یَشَاءُ ) ۔
لیکن ان سب چیزوں کے باوجود عالم آفرینش ، وسیع آسمان و زمین ، نباتات، رعد و برق اور اس طرح کی دیگر چیزوں مین عظمت ِ الٰہی کی آیات دیکھنے کے باوجود  حوادث یہاں تک کہ ایک آسمانی شعلے کے سامنے انسانی طاقت بے بسی کا مشاہدہ کرنے کے باوجود  بے خبروں کا ایک گروہ خدا کے بارے میں مجادلہ او رجنگ کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے ( وَھُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللهِ ) ۔
حالانکہ خدا کی قدرت لامتناہی ہے ، اس کا عذاب دردناک ہے اور اس کی سزا بڑی سخت ہے (وَھوَ شَدِیدُ الْمِحَال) ۔
“محال “ اصل میں ” حیلہ“ سے ہے اور ” حیلہ “ ہر قسم کی مخفی اور پنہان چارہ اندیشی کے معنی میں ہے ( غلط کو ششوں اور چارہ جوئیوں کے معنی میں نہیں کہ جس میں یہ لفظ فارسی زبان میں مشہور ہو چکا ہے ) ۔ یہ بات مسلم ہے ہے کہ جو چارہ جوئی پر بہت زیادہ قدرت رکھتا ہے وہ وہی ہے جو قدرت کے لحاظ سے بھی غیر معمولی ہے اور علم و حکمت کے لحاظ سے بھی اور اس بناء پر وہ اپنے دشمنوں پر مسلط اور کامیاب ہوتا ہے اور کسی کو اس کے مرکز ِ قدرت سے نکل بھاگنے کا یارا نہیں ہے اسی لئے مفسرین نے ہر ایک نے ” شدید المحال “ کی اس طرح تفسیر کی ہے کہ سب نے اس کے مفہوم کی بنیاد مذکورہ معنی کو قرار دیا ہے ۔ بعض نے اسے ”شدید القوة “ ، بعض نے ”شدید العذاب“ ، بعض نے ” شدید القدرة“ اور بعض نے ” شدید الاخذ“ کے معنی میں اور اس جیسے الفاظ میں اس کی تفسیر کی ہے ۔ 3
زیربحث آخری آیت دو مطالب کی طرف اشارہ کرتی ہے :۔
پہلا یہ کہ ”دعوت ِ حق ( اور حقیقی دعا ) “ (لَہُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ) ۔ یعنی جس وقت ہم اسے پکار یں تو وہ سنتاہے اور ہماری پکارکا جواب دیتا ہے اور وہ بندوں کی دعا سے آگاہی بھی رکھتا ہے اور ان کی آرزووٴں کو پورا کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔ اس لئے اسے پکارنا اور اس کی مقدس ذات سے تقا ضا کرنا حق ہے نہ کہ باطل اور بے اساس و بے بنیاد ۔
دوسرا یہ ہے کہ بتوں کو پکارنا اور ان سے درخواست اور دعا کرنا دعائے باطل ہے کیونکہ ”جن لوگوں کو مشرکین خدا کے علاوہ پکارتے ہیں اور اپنی تمناوٴں کو پورا کرنے کے لئے حق کا سہارا لیتے ہیں وہ ہر گز انہیں جواب نہیں دیں گے اور ان کی دعا قبول نہیں کریں گے “ (وَالَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ لاَیَسْتَجِیبُونَ لَھُمْ بِشَیْءٍ ) ۔
جی ہاں  باطل کو پکارنا ایسا ہی ہے کیونکہ وہ خیالی تصور سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اور بتوں کے لئے وہ جیسے بھی علم و قدرت کے قائل ہوں سب موہوم ، بے پایہ اور بے اساس ہے ۔
کیا عینیت ، واقعیت اور مایہٴ خیرو برکت کے سوا” حق“ کچھ اور ہے اور خیال ، توہم اور مایہٴ شروفساد کے سوا” باطل “ کچھ اور ہے ۔
اس کے بعد جیسا کہ قرآن کی روش ہے اس عقلی بات کو ثابت کرنے کے لئے وہ ایک خوبصورت حسی اور رسا مثال پیش کرتے ہوئے کہتا ہے : وہ کہ جو غیر خدا کو پکار تے ہیں ، اس شخص کی طر ح ہیں جو ایسے پانی کے کنارے بیٹھا ہو جس کی سطح اس کے دسترس میں نہ ہو اور وہ اس امید سے پانی کی طرف اشارہ کرتا ہو کہ وہ اس کے دہن میں پہنچ جائے حالانکہ وہ ہر گز نہیں پہنچے گا ۔ یہ کیسا بے ہودہ اور فضول خواب و خیال ہے (إِلاَّ کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ إِلَی الْمَاءِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ھوَ بِبَالِغِہ) ۔
کیا کنویں کے کنارے بیٹھ کر پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر ، اشارہ سے پانی منہ تک پہنچا یا جا سکتا ہے ؟ ایسا کام کسی دیوانے اور سادہ لوح شخص کے سوا کوئی نہیں کرسکتا ہے ۔
مذکورہ جملہ کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ بت پرستوں کو ایک شخص سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو پوری طرح کھول کر افقی شکل میں پانی داخل کرتا ہے اور اس انتظار میں ہے کہ پانی ا س کے ہاتھ میں ٹھہر جائے حالانکہ پانی سے نکلتے ہی پانی کے قطرے انگلیوں کی طرف سے نکل جائیں گے اور کچھ باقی نہیں رہے گا ۔
مفسرین نے اس جملے کے لئے ایک تیسری تفسیر بھی ذکر کی ہے اور وہ یہ کہ بت پرست جو اپنی مشکلات کے حل کے لئے بتوں کے پاس جاتے ہیں اس شخص کی طرح ہیں جو چاہتا ہے کہ پانی اپنی مٹھی میں بند رکھے ۔ کیا کبھی پانی کو مٹھی میں بند رکھا جاسکتا ہے ، یہ بات عربوں میں مشہور ضرب المثل سے لی گئی ہے کہ جب وہ اس شخص کے لئے کوئی مثال ذکر کرنا چاہتے ہیں کہ جو بے ہودہ اور فضول کو شش کرتا ہے تو کہتے ہیں :
”ھو کقابض الماء بالید “
وہ اس شخص کی طرح ہے جو پانی کو ہاتھ سے پکڑ نا چاہتا ہے ۔
ایک عرب شاعر کہتا ہے :
فاصبحت فیماکان بینی و بینھا من الود مثل قابضِ الماء بالید
میری حالت تو یہ ہو گئی کہ میں اپنے اور اس کے درمیان محبت بر قرار رکھنے کے لئے اس شخص کو طرح ہو گیا کہ جو پانی کو ہاتھ میں روک رکھے۔4
آیت کے آخر میں اس بات کی تاکید کے لئے قرآن کہتا ہے : کافروں کابتون سے دعا اور درخواست کرنا گمراہی میں قدم اٹھانے کے علاوہ کچھ نہیں ( وَمَا دُعَاءُ الْکَافِرِینَ إِلاَّ فِی ضَلَالٍ) ۔
اس سے بڑھ کر کیا گمراہی ہوسکتی ہے کہ انسان اس راستے میں اپنی کاوشیں صرف کرے کہ جو کبھی منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا اور اس راستے میں وہ اپنے آپ کو خستہ و بے حال کردے لیکن اسے کوئی نتیجہ اور فائدہ حاصل نہ ہو۔
زیر بحث آخر ی آیت میں یہ نشاندہی کرنے کے لئے کہ بت پرست عالم ہستی کے کارواں سے کس طرح الگ ہو گئے ہیں اور تنہا بے راہ روی میں سر گرداں ہیں فرمایاگیا ہے : آسمانوں اور زمین کے تمام رہنے والے اطاعت و تسلیم سے یا کراہت و ناپسندیدگی سے سر بسجود ہیں اور اسی طرح ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ ریز ہیں ( وَلِلَّہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ طَوْعًا وَکَرْھًا وَظِلَالُھمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ) ۔

 


۱۔”تسبیح و تقدیس “ کہ جو مودات کرتی ہیں  کے بارے میں مزید وضاحت انشا اللہ ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ لکن لاتفقھون تسبیحھم “ ( بنی اسرائیل ۴۴) کے ذیل میں آئے گی ۔
۲۔شیخ طوسی تبیان میں فرماتے ہیں :
”خفیة“ اور ”خوف“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ” خفیة“حالت کو بیان کرتا ہے اور ”خوف “مصدر ہے ۔ یعنی پہلا حالت خوف کے معنی میں ہے اور دوسرا ڈرنے کے معنی میں ہے ۔
3۔بعض ”محال “کو ”حیلة“ کے مادہ سے نہیں سمجھتے بلکہ” محل “اور ”ماحل “ کے مادہ سے قرار دیتے ہیں کہ جو مکر و جدال اور عذاب دینے اور سزا دینے کے لئے عزم و صمیم کرنے کے معنی سے لیا گیا ہے لیکن جو کچھ ہم نے تین میں کہا ہے وہ زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اگر چہ دونوں معانی قریب الافق ہیں ۔
4۔ تفسیر قرطبی جلد ۵۔ ص ۳۵۲۹۔
 
چند اہم نکات عظمت الہٰی کی کچھ نشانیاں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma