بت پرستی کیوں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
چند اہم نکات چند اہم نکات

گزشتہ آیات میں وجودِ خد اکی معرفت کے بارے میں بہت سی بحثیں تھیں ۔ اس آیت میں بت پرستوں کے اشتباہ کے بارے میں بحث کی گئی ہے اور اس کے بارے میں مختلف پہلووٴں سے گفتگو کی گئی ہے ۔
پہلے پیغمبر کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ان سے پوچھوکہ آسمانوں اور زمین کاپر وردگار اور مدبر کون ہے ( قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ) ۔
اس کے بعد بغیر اس کے کہ پیغمبر ان کے جواب کے انتظار میں رہے حکم دیا گیا ہے کہاس سوال کا جواب خود دو، کہو : ”اللہ “(قل اللہ ) ۔
پھر انھیں یو ںملامت کی گئی ہے : ان سے کہو : کیا تم نے غیر خدا کو اپنے لئے اولیاء ،سہارا اور معبود قرار دے لیا ہے حالانکہ یہ بت تو اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں ( قُلْ اللهُ قُلْ اٴَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِہِ اٴَوْلِیَاءَ لاَیَمْلِکُونَ لِاٴَنفُسِھمْ نَفْعًا وَلاَضَرًّا ) ۔
در حقیقت پہلے ” خدا کی ربوبیت “ کے حوالے سے بحث کی گئی ہے نیز یہ کہ وہی عالم ک امالک و مدبر ہے ہر خیر و نیکی اسی کی جانب سے ہے اور وہی ہر شر کو دور کرنے کی طاقت رکھتا ہے یعنی جب کہ تم یہ بات قبول کرتے ہوکہ خالق اور پرور دگار وہ ہے تو اب جو مانگنا ہے اسی سے مانگو نہ کہ بتوں سے کہ جہ جو تمہاری کوئی مشکل حل نہیں کرسکتے۔ پھر اس سے بھی پڑھ کر فرمایاگیا ہے کہ وہ تو اپنے نفع و نقصان تک کے مالک نہیں ہیں چہ جائیکہ تمہارے ۔ ان حالات میں وہ تمہاری کونسی مشکل آسان کرسکتے ہیں جس کی بناء پر تم ان کی پرستش کرتے ہو جب وہ اپنے لئے بے بس ہیں تو تم ان سے کیا توقع رکھتے ہو۔
اس کے بعد دو واضح اور صریح مثالوں کے ذریعے ” موحد“ اور ”شرک“ کی کیفیت بیان کی گئی ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : کہو: کیا نابینا اور بینا برابر ہیں (قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الْاٴَعْمَی وَالْبَصِیرُ ) ۔
جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں ہیں اسی طرح کافر اور مون بھی برابر نہیں ہیں اور بتوں کو ”اللہ “ کا شریک قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
دوسرا یہ کہ : کیا ظلمات اور نور برابر ہیں (اٴَمْ ھَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ) ۔
وہ ظلمت  کہ جو انحراف ، گمراہی ، اشتباہ اور خوف و خطر کا مر کز ہے اسے اس نور کے برابر کیسے سمجھا جا سکتا ہے جو رہنما اور حیات بخش ہے ۔ کس طرح سے بتون کو کہ جو محض ظلمات ہیں خدا کے ساتھ شریک کیا جا سکتا ہے کہ جو عالم ہستی کا نور مطلق ہے ۔ ایمان اور توحید کہ جو روحِ نور ہے اسے شر ک و بت پرستی سے کیانسبت کہ جو ظلمت کہ روحِ رواں ہے ۔
اس کے بعد ایک طریقے سے مشرکین کے عقیدے کابطلان ثابت کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہو تا ہے : وہ کہ جنہوں نے خدا کے لئے شریک قرار دئے ہیں کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بھی خدا کی طرح خلق کیا ہے او ریہ خلق کیا ہے اور یہ خلقت ا س کے لئے مشتبہ ہو گئی اور انہیں یہ گمان ہو گیا ہے کہ بت بھی خدا کی طرح عبادت کے مستحق ہیں کیونکہ ان کی نظر میں بت بھی وہی کام کرتے ہیں کہ جو خدا کرتا ہے (اٴَمْ جَعَلُوا لِلَّہِ شُرَکَاءَ خَلَقُوا کَخَلْقِہِ فَتَشَابَہَ الْخَلْقُ عَلَیْھِمْ ) ۔
حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ بت پرست بھی بتوں کے بارے میں ایساعقیدہ نہیں رکھتے ۔ وہ بھی خدا کو تمام چیزوں کا خالق سمجھتے ہیںاور عالم خلقت کو فقط اس سے مربوط شمار کرتے ہیں ۔
اسی لئے فوراً فرمایا گیاہے : کہہ دو خدا ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہے یکتا و کامیاب(قُلْ اللهُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ وَھُوَ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ ) ۔

 

چند اہم نکات چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma