یاد الٰہی باعث ِ تسکین دل ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
ہت دھرم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے دنیا پرست تباہ کار

اس سورت میں چونکہ توحید ، معاد اور رسالت ِ پیغمبر کے بارے میں بہت سی مباحث ہیں لہٰذا زیر بحث پہلی آیت دوبارہ پیغمبر اسلام کی دعوت کے مسئلے کی طرف لے جاتی ہے ۔ اس میں ہٹ دھرم منکرین کا ایک اعتراض بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : کافرین کہتے ہیں کہ اس کے پروردگار کی طرف سے اس پر معجزہ نازل کیوں نہیں ہوتا( وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلاَاٴُنزِلَ عَلَیْہِ آیَةٌ مِنْ رَبِّہ ِ) ۔
لفظ ”یقول “ فعل مضارع ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بار با راعتراض کرتے تھے اور باوجودیکہ انہوں نے رسول اللہ سے بار ہا معجزات دیکھتے تھے ( اور ہر پیغمبر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حقانیت کے ثبوت میں کچھ معجزات پیش کرے ) پھر بھی وہ بہانے تراشتے تھے اور گزشتہ معجزات کو نظر انداز کردیتے تھے اور اپنی من پسند کے نئے معجزے کا تقاضا کرتے تھے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ لوگ اور تمام ہٹ دھرم منکرین ہمیشہ اپنی مرضی کے معجزات ڈھونڈتے رہتے تھے کہ پیغمبر اور توقع رکھتے تھے کہ پیغمبر ایک جادو گر کی طرح کہیں بیٹھ جائیں اور ان میں سے ہر کوئی جائے اور جو معجزہ طلب کرے وہ فوراً پیش کردیں اور اگر پھر بھی یہ نہ چاہیں تو ایمان نہ لائیں ۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ پہلے درجے میں انبیاء کی ذمہ داری ہے کہ تبلیغ، تعلیم اور تنبیہ کا ذریعہ اختیار کریں ۔ معجزات تو استثنائی امور ہیں کہ جس حصب ِ ضرورت وہ بھی حکم خد اسے ( نہ پیغمبر کی خواہش کے مطابق ) انجام پاتے ہیں لیکن ہم بار ہا آیاتِ قرآنی میں پڑھتے ہیں کہ دشمنوں کے کئی گروہ اس حقیقت کی پرواہ کئے بغیر ہمیشہ انبیاء کے خلاف مزاحمت کرتے رہے ہیں اور اس قسم کی فرمائشیں کرتے رہے ہیں ۔
قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے : اے پیغمبر ۱ ان سے کہہ دو خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جو شخص اس کی طرف لوٹے اسے ہدایت کرتا ہے ( قُلْ إِنَّ اللهَ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ وَیَھْدِی إِلَیْہِ مَنْ اٴَنَابَ ) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے لئے معجزے کے لحاظ سے کوئی کمی نہیں کیونکہ پیغمبر نے کافی مقدار میں معجزات دکھائے ہیں کمی خود تمہارے وجود اند ر ہے ۔ ہٹ دھرمیاں ، تعصبات، جہالتیں وہ گناہ کہ جو توفیق کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں تمہارے ایمان لانے میں حائل ہیں لہٰذا خدا کی طرف لوٹ آوٴ، توبہ رو، جہالت و غرور اور خود خواہی کے پردے اپنی نگاہ ِ فکر سے ہٹا وٴ تاکہ واضح طور پر جمالِ حق کا مشاہدہ کر سکو، کیونکہ :
جمال یار ندارو نقاب و پردہ ولی غبار رہ بنشان تا نظر توانی کرد
جمال ِدوست پر تو کوئی نقاب نہیں ہے لیکن راستے کا غبار ہٹا دو تاکہ میں اسے دیکھ سکوں ۔
بعد والی آیت میں ” من اناب“ (جو خدا کی طرف پلٹ آئے ہیں ) کی بہت عمدہ تفسیر بیان ہوئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : یہ وہی لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دل ذکر الٰہی سے مطمئن اور پر سکون ہیں ( الَّذِینَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُھُمْ بِذِکْرِ اللهِ ) ۔
اس کے بعد ایک دائمی وسیع اصول کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے : آگاہ ہو کہ یاد الٰہی سے دل مطمئن ہوتے ہیں اور قرار پاتے ہیں (اٴَلاَبِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ) ۔
زیر بحث آخری آیت میں اہل ایمان کا انجام کار بیان کرکے گزشتہ آیت کا مضمون یوں مکمل کیا گیا ہے : وہ لوگ کہ جو ایمان لائے او ر انہوں نے صالح اعمال انجام دئے ان کے لئے بہترین زندگی ہے او ران کا انجام کار بہترین ہوگا ( الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ طُوبَی لَھُمْ وَحُسْنُ مَآب) ۔
بہت سے بزرگ مفسرین نے لفظ ” طوبیٰ“ کو ” اطیب“ کامونث سمجھا ہے جس کا مفہوم ہے بہتر، پاکیزہ تر یا بہترین اور پاکیزہ ترین۔ اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ اس کا متعلق محذوف ہے اس لفظ کا مفہوم ہر لحاظ سے وسیع اور غیر محدود ہوگا ۔
اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ ”طوبیٰ لھم “ کے ذریعے ان کے لئے تمام سعادتوں اور پاکیزگیوںکی پیش بینی کی گئی ہے ۔ ان کے لئے تمام چیزوں میں سے بہترین مہیا ہوں گی۔
بہترین زندگی ، بہترین نعمتیں ، بہترین آرام او رسکوں ، بہترین دوست و احباب اور پر وردگار کی بہترین اور خاص مہر بانیاں یہ سب کی سب ایمان اورعمل صالح کی مرہون ِ منت ہیں اور یہ ان کے لئے اجر ہے جو عقیدے کے لحاظ سے محکم اور عمل کے لحاظ سے پاک، فعال، درست کار اور خدمت گزار ہیں ۔
لہٰذا اس لفظ کی مختلف مفسرین کی طرف جو مختلف تفسیریں ہو ئی ہیں وہ سب اس کی مصداق ہیں ۔ یہاں تک کہ مجمع البیان میں اس کے دس معانی ذکر ہوئے ہیں جو حقیقت میں اس کے وسیع معنی کے مختلف مصادیق ہیں ۔
کئی ایک روایات میں بھی ہے کہ ” طوبیٰ “ ایک درخت ہے جس کی جڑیں جنت میں رسول اللہ یا حضرت علی  کے گھر میں ہیں اور اس کی شاخیں ہر جگہ تکام مومنین اور ان کے گھروں پر سایہ فگن ہیں ۔ ہوسکتا یہ روایات ان عظیم پیشواوٴں اور ان کے پیروکار وں کے درمیان ان کے مقامِ رہبری اور نہ ٹوٹنے والے رشتوں کی تصویر کشی کرتی ہوں جن کا نتیجہ ایسی طرح طرح کی نعمات ہیں ۔
یہ جو ہم دیکھتے ہیں لفظ” طوبیٰ “ مونث کے طور پر آیا ہے اور ”اطیب “ نہیں آیا کہ جومذکر ہے تو ا س کی وجہ یہ ہے کہ یہ حیات یا نعمت کی صفت ہے اور یہ دونوں الفاظ مونث ہیں ۔

چند اہم نکات

۱۔ یا د الہٰی سے دل کو کیسے سکون ملتا ہے ؟ انسانوں کی زندگی میں اضطراب اور پریشانی ہمیشہ سے ایک بڑی مصیبت کے طور پر موجود ہے ۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اس کے اثرات پوری طرح محسوس ہوتے ہیں ۔ سکون و قرار ہمیشہ سے انسان کی زندگی کی ایک قیمتی گمشدہ چیز رہی ہے ۔ اس کی تلاش میں انسان ہر دروازہ کھٹکھٹا تا ہے ۔ اگر ہم پوری تاریخ بشر میں صحیح یا غلط طریقے سے کی گئی ان کوششوں کا ذکر کریں کہ جو سکون قرار حاصل کرنے کے لئے کی گئیں تو بہت ہی ضخیم کتاب بن جائے ۔ بعض ماہرین اور علماء کہتے ہیں کہ بعض ہمہ گیر بیماریاں جب پھیلتی ہیں اور وباء کی صورت اختیار کرلیتی ہیں تو جو افراد ظاہراً اس وبائی بیماری کی وجہ سے مرتے ہیں ان میں سے اکثر خوف اور پریشانی کی وجہ سے دم توڑ دیتے تھوڑے ہی افراد ایسے ہوتے ہیں جو حقیقتاً اس بیماری میں مبتلا ہو کر ختم ہوتے ہیں ۔
اصولی طور پر سکون و پریشانی فرد اور معاشرے کی سلامتی وبیماری اور سعادت و بد بختی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اور یہ ایسی چیز نہیں ہے جس سے آسانی سے گزر جایا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک بہت سی کتابیں پریشانی اور اضطرابِ قلب پر قابو پانے اور آرام و سکون حاصل کرنے کے طریقوںپر لکھی گئی ہیں ۔
تاریخ بشر ایسے غم انگیز مناظر سے بھری پڑی ہے کہ انسان نے تلاش سکون میں ہر چیز کی طرف ہاتھ بڑھایا، وادی وادی پھرا اور طرح طرح کی عادتیں اپنائیں ۔
لیکن قرآن نے ایک مختصر اور پر مغز جملے میں انتہائی اطمینان کے لئے نزدیک ترین راستے کی نشاندہی کی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : جان لو کہ یادِ خدا دلوں کے لئے آرام بخش اور باعثِ سکون ہے ۔
اس قرآنی حقیقت کی وضاحت کے لئے  مندرجہ ذیل توضیح کی طرف توجہ کیجئے:۔
پریشانی اور اضطراب کے عوامل (۱)اضطراب و پریشانی کبھی تاریک اور مبہم مستقبل کی فکر کی بناء پرہوتی ہے ۔ نعمتوں کا زوال ، دشمن کے چنگل میں گرفتاری ، ضعف کمزوری ، بیماری ، ناتوانی ، درماندگی اور حاجتمندی کا احتمال  یہ سب چیزیں انسان کو پریشان کردیتی ہیں لیکن قادر و متعال اور رحیم و مہر بان خدا پر ایمان  وہ خدا کہ جو ہمیشہ سے اپنے بندوں کی کفالت اپنے ذمہ لئے ہوئے ہے ۔ ایسی پریشانیوں کو دور کرسکتا ہے اور اسے سکون دے سکتا ہے ۔ اس کی یاد یہ حوصلہ دے سکتی ہے کہ آنے والے حوادث کے مقابلے میں تو در ماندہ اور بے یار و مدد گار نہیں ہے توتوانا، قادر اور مہر بان خدا رکھتا ہے ۔
۲۔ کبھی ماضی کی تاریک زندگی فکرِ انسانی کو اپنی طرف مشغول رکھتی ہے اور ہمیشہ اسے پریشان کئے رہتی ہے  ان گناہوں پر پریشانی کہ جو اس نے انجام دئے ہیں اور وہ کوتاہیاں اور لغزشیں جو اس سے سر زد ہوئی ہیں اسے ستاتی رہتی ہیں لیکن اس طرف توجہ کہ خدا غفار، توبہ قبول کرنے والا، رحیم اور غفور ہے ، اسے سکون دیتی ہے اور اسے کہتی ہے کہ اس کی بارگاہ میں تقصیر و کوتاہی پر معذرت چاہو، گزشتہ گناہوں پر عذر خواہی کرو اور ان کی تلافی کی کوشش کرو کیونکہ وہ بخشنے والا ہے اور تلافی ممکن ہے ۔
۳۔ کبھی طبعی اور مادی عوامل کے مقابلے میں انسان کی کمزوری وناتوانی اور کبھی داخلی و خارجی دشمنوں کی کثرت اسے پریشان کردیتی ہے کہ میں طاقتور دشمنوں کے مقابلے میں میدانِ جہاد میں کیا کروں یا ان سے دیگر مقابلوں میں میں کیا کرسکتا ہوںلیکن جب وہ خدا کو یاد کرتا ہے اور اس کی قدرت و رحمت پر بھروسہ کرتا ہے  وہ قدرت جو تمام طاقتوں سے بر تر ہے او رکوئی اس کے مقابلے کی ہمت نہیں رکھتا  تو ا سکے دل کو سکون آجاتا ہے اور وہ اپنے آپ سے کہتا ہے  : وہاں ! میں اکیلا نہیں ہوں ،خدا کے سائے میں میری طاقت لامتناہی ہے ۔
جنگوں میں مجاہد ین ِ راہ خدا کا جذبہ گزشتہ زمانہ ہو یا موجودہ ان کی تعجب انگیز اور خیرہ کن جنگیں  یہاں تک کہ ان مواقع پر بھی جب وہ یک و تنہا ہوتے ہیں  ان سے وہ سکون و اطمینان واضح ہوتا ہے کہ جو صرف سایہ ایمان میں پیدا ہوتا ہے ۔
جب ہم اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں یاکان سے سنتے ہیں کہ ایک افسرِ رشید خیرکن معرکے میں اپنی بینائی بالکل کھوبیٹھتا ہے اور وہ مجروح بدن کے ساتھ ہسپتال میں چار پائی پر پڑا ہوتا ہے لیکن ایسے سکون ِ دل اورا طمینان قلب سے گفتگو کررہا ہوتا ہے گویا اس کے بدن پر کوئی خراش تک نہیں آئی ا س سے ہم ذکر ، خدا کے زیر سایہ پر اعجاز سکون کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔۱
۱۔ ایسے واقعات ہم پر دشمنوں کی مسلط کردہ ایران عراق جنگ میں ایک نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں ہیں ۔ یہ واقعات مجاہدین بد اور دیگر اسلامی جنگوں کے مجاہدین کی تازی کرتے ہیں ۔
۴۔ کبھی انسان کی تکلیف دہ پریشانیوں کی بنیادزندگی کے لئے بے مقصد ہونے کا حساس ہوتا ہے لیکن جو شخص خد اپر ایمان رکھتا ہے اور زندگی میں تکامل و کمال حاصل کرنے کو ایک عظیم مقصد کے طور پر اپنائے ہوئے ہے اور زندگی کے تمام امو ر و حوادث کو اسی مقصد کو روشنی میں دیکھتا ہے اسے نہ زندگی کے بے کار ہونے کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی وہ بے ہدف اور ٹھکرائے ہوئے افراد کی طرح مضطرب و سر گر داں ہوتا ہے ۔
۵۔ پریشانی کا ایک اور عامل یہ ہے کہ انسان بعض اوقات ایک ہدف تک پہچنے کے لئے بہت زیادہ زحمت اٹھاتا ہے لیکن اسے کوئی ایسا فردنظر نہیں آتاجو اسی زحمت و مشقت کا قدر دان ہو۔ یہ ناقدری اسے شدید دکھ دیتی ہے اور اسے ایک عالم اضطراب و پریشانی میں غرق کردیتی ہے لیکن جب وہ احساس کرتا ہے کہ کوئی ہے جو اس کی تمام مساعی اور کاوشو ںسے آگاہ ہے ، وہان سب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہ ان سب پر اجر و ثواب دے گا تو پھر وہ کیوں پریشان اور بے چین ہوگا ۔
۶۔ بد گمانیاں ، تو ہمات اور بے ہودہ خیالات بھی پریشانی کے عوامل میں سے ہیں ۔ بہت سے لوگ ان کی وجہ سے اپنی زندگی میں رنج اٹھاتے ہیں لیکن کیونکر انکار کیا جا سکتا ہے کہ خدا کے لطف و کرم کی یاد نیز اس حکم کی طرف توجہ کہ ہر صاحب ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ حسن ِ ظن سے کام لے اسے یہ پریشانی جاتی رہتی ہے اور ا س کی جگہ سکون و اطمینان لے لیتا ہے ۔
۷۔ دنیا پرستی اور مادی زندگی کی رنگیوں پر دلباختگی انسانوں کے اضطراب و پریشانی کاایک بہت بڑا عامل رہا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات لباس ، جوتے ، ٹوپی یاہزاروں چیزوں میں سے کسی ایک کا خاس رنگ نہ مل سکے تو دنیا پرست کئی گھنٹے ، کئی دن یا کئی ہفتے پریشان اور بے آرام رہتے ہیں لیکن خدا پر ایمان اور ایسی چیزوں سے مومن کی آزادی ایسی تمام پریشانیوں کو ختم کردیتی ہے کیونکہ ایک مومن ہمیشہ اصلاحی زہد کا حامل ہوتا ہے او روہ مادی زندگی کی رنگینیوں کاقیدی نہیں ہوتا ۔
جس وقت انسانی روح اتنی وسعت حاصل کرلے کہ وہ علی علیہ السلام کی طرح کہے:
دنیاکم ھذہ اھون عندی من ورقة فی فم جرادة تقضمھا
تمہاری دنیا میری نظر میں درخت کے اس پتے سے بھی حقیر ہے کو ایک ٹڈی دَل کے منہ میں ہوجسے وہ جبا رہی ہو۔ ۱
تو پھر کسی مادی چیز تک ا سکا نہ پہنچنا یا سے کھوبیٹھنا انسانی روح کا سکون کیسے درہم بر ہم کرسکتا ہے اور اس کے دل و دماغ میں کیونکر پریشانی پیدا کرسکتا ہے ۔
۸۔ پریشانی کا ایک اور اہم عامل مو ت کاخوف بھی ہے یہ خوف ہمیشہ انسانوں کی روح کر ستائے رکھتا ہے ۔ موت کا امکان چونکہ صرف زیادہ بڑی عمر میں نہیں بلکہ دوسرے سالوں میں بھی ہے ، خصوصاً بیماریوں ، جنگوں اور بدامنیوں کی حالت میں لہٰذا یہ وحشت اور خوف عمومی ہو سکتا ہے ۔
البتہ اگر ہم عالم شناسی کے حوالے سے موت کو فنا او رہر چیز کے خامتے کے معنی میں سمجھیں( جیسا کہ مادی نظریہ رکھنے والوں کا خیال ہے ) تو پھر یہ اضطراب بالکل بجا ہے ۔ ایسی موت سے واقعاً ڈرنا چاہیئے جو انسان کی تمام آرزوٴں اور کامیوبیوں کا آخری نقطہ ہو لیکن اگر خدا پر ایمان کی وجہ سے موت کو ایک وسیع تر اور اعلیٰ تر زندگی کا دریچہ سمجھا جائے اور موت سے گزرنے کو زندان کے دالان سے گزر کر ایک آزاد فضا تک پہنچنا شمار کیا جائے تو پھر یہ پریشانی بے معنی ہے بلکہ ایسی موت اگر ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے آئے تو اسے پسند کیا جانا چاہئیے اور وہ چاہے جانے کے قابل ہے ۔
پریشانی کے عوامل انہی میں منحصر نہیں ہیں بلکہ اس کے اور بھی بہت سے عوامل شمار کئے جاسکتے ہیں لیکن یہ بات قابل قبول ہے کہ زیادہ تر پریشانیوں کی بازگشت مذکورہ عوامل ہی کی طرف ہے لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ عوامل خد اپر ایمان کے مقابلے میں پگھل جاتے ہیں ، بے رنگ ہو جاتے ہیں او رنابود ہو جاتے ہیں تو پھر اس بات کی تصدیق کرنا پڑے گی کہ خدا کی یاد دلوں کے سکون و قرار کا باعث ہے ( الابذکر اللہ تطمئن القلوب
۲۔ کیا خوف ِخدا اور اطمینان باہم مطابقت رکھتے ہیں ؟ بعض مفسرین نے یہاں ایک اعتراض اٹھایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم مذکورہ آیت میں پڑھتے ہیں کہ یادِ خدا دلوں کے سکون و اطمینان با عث ہے جب کہ دوسری طرف سورہ انفال کی آیة۲ میں ہے :
انما المومنون الذین اذا ذکراللہ وجلت قلوبھم
مومن وہ ہیں کہ جس وقت خدا کا ذکر کیا جائے تو ان کا دل دھڑکنے لگتا ہے۔
کیا یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ آرام و سکون سے مراد وہی عوامل کے مقابلے میں سکون ہے کہ جو عام لوگوں ک وپریشان کیے رکھتے ہیں ، جن کے واضح نمونے ہم نے سطور بالا میں پیش کئے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اہل ایمان اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں پریشان نہ ہوں دوسرے لفظوں میں جو چیز ان میں نہیں ہوتی وہ ویرا ن گر پریشانیاں ہیں جو دنیا میں عام طور پر ہوتی ہیں باقی رہی اصلاحی پریشانی کہ جو انسان کو خدا اور مخلوق کے بارے میںاحساس ِذمہ داری پر ہوتی ہے اور جو زندگی میں مثبت کردار اور آمادہ کرتی ہے وہ ان میں موجود ہوتی ہے اور اسے ہونا بھی چاہئیے اور خوف خدا سے مراد بھی یہی ہے ۔3
۳۔ ”ذکر خدا “ کیا ہے او ر کس طرح ہے ؟ جیسا کہ راغب اصفہانی نے مفردات میں کہاہے ” ذکر“ کبھی مطالب و معارف کے حفظ کے معنی میں آتا ہے ، اس فرق کے ساتھ کہ لفظ ”حفظ“ اس کی ابتداء میں بولا جاتا ہے اور لفظ ” ذکر“ اسے جاری رکھتے ہوئے اور کبھی کسی چیز کو زبان سے یا دل میں یا د کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اسی لئے علما ء نے کہا ہے کہ ”ذکر“ دو قسم کاہے ”ذکر قلبی “ ذکر زبابی “۔ ان میں ہر ایک پھر دو طر ح کا ہے یا تو فراموشی کے بعد ذکر یا بغیر فراموش کئے ذکر۔
بہرحال زیر بحث آیت میں ذکر خدا کو کہ جو دلوں کے لئے باعث سکون ہے ،سے مراد یہ نہیں کہ اس کا نام زبان پرلایا جائے اور بار بار تسبیح و تحلیل اور تکبیر کہی جائے بلکہ مراد یہ ہے کہ دل کے ساتھ خدا کی طرف اور اس کے عظمت، ا س کے علم اور اس کے حاضر و ناظر ہونے کی طرف متوجہ رہا جائے اور یہ تو جہ انسان میں جہاد و کوشش او رنیکیوں کی طرف حرکت کی بنیاد بنے اور اس کے اور گناہ کے درمیان ایک مضبوط بند کا کردار ادا کرے  یہ ہے وہ ذکر جس کے لئے روایات اسلامی میں اس قدر آثار و بر کات بیان ہوئی ہیں ۔
ایک حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے حضرت علی  سے جو وصیتیں کیں ان میں سے ایک یہ تھی :
یا علی ثلاث لاتطیقھا ھٰذہ الامة المواسات للاخ فی مالہ و انصاف الناس من نفسہ و ذکر اللہ علی کل حال، و لیس ھو سبحان اللہ و الحمد للہ ولا الہ الا اللہ و اللہ اکبر و لٰکن اذا ورد علی مایحرم علیہ خاف اللہ عزو جل عندہ و ترکہ۔
یا علی ۱ تین کام ایسے ہیں جن کی اس امت میں طاقت نہیں ہے (اور ہر شخص یہ کام نہیں کرسکتا ): مال میں دینی بھائیوں کے ساتھ مواسات کرنا ، اپنی طرف سے لوگوں کا حق ادا کرنا اور ہر حالت میں خداکو یاد رکھنا لیکن خدا کی یاد( صرف) سبحان اللہ و الحمد للہ ولا الہ الااللہ و اللہ اکبر نہیں ہے بلکہ یادِخدا یہ ہے کہ جس وقت انسان کسی فعل حرام کا سامنا کرے تو خدا سے ڈرتے اور اسے ترک کردے۔ 4
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
الذکر ذکر اللہ عزو جل عند المصیبة و افضل من ذٰلک ذکر اللہ عند ما حرم اللہ علیک فیکون حاجزاً۔
ذکر دو قسم ہے ۔ ایک تو خدا کو مصیبت کے وقت رکھنا ( اور صبر و استقامت سے کام لینا) اور اس سے افضل و بر تر یہ ہے کہ محرمات کے مقابلے میں خدا کو یاد رکھا جائے اور اس کے اور حرام کام کے درمیان دیوارکھڑی کردی جائے ۔ 5
یہی وجہ ہے کہ بعض روایات میں ذکر خدا کا تعارف ایک سپراور دفاعی ہتھیار کے طور پر کر وایا گیا ہے ۔ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ ایک روز پیغمبر اکرم نے اپنے اصحاب کی طرف رخ کرکے ارشاد فرمایا:
اتخذوا جئنا فقالوا: یا رسول اللہ امن عدد و قد اظلنا؟
قال: لا، ولٰکن من النارقولوا سبحان اللہ و الحمد للہ ولا الہ الا اللہ و اللہ اکبر
اپنے لئے سپر مہیا کرو۔
اصحاب نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا دشمنوں کے مقابلے میں جنہوں نے ہمیں گھیر رکھا ہے اور ہم پرسایہ کئے ہوئے ہیں ؟ فرمایا : نہیں بلکہ جہنم ( کی آگ) سے کہو: سبحان اللہ و الحمد اللہ و الاالہ الااللہ و اللہ اکبر (خدا کی پاکیز گی بیان کرو،اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرو اس کے علاوہ کسی کو معبود نہ بناوٴ اور اسے ہر چیز سے بر تر سمجھو ) ۔6
6۔ سفینة البحار جلد ۱ ص ۴۸۴۔
جو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک احادیث میں پیغمبر اکرم کا تعارف ’ ذکر اللہ “ کے طور پر ہوا ہے تو وہ بھی اس بناء پر ہے کہ وہ لوگوں کو یاد خدا دلاتے ہیں اور ان کی تربیت کرتے ہیں ۔ امام صادق علیہ السلام سے ” الابذکر اللہ تطمئن القلوب“ کی تفسیر کے ضمن میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا :
بمحمد تطمئن القلوب وھو ذکر اللہ و حجابہ
محمد کے ذریعے دلوں کو سکون ہوتا ہے ، وہ ہیں خدا کا ذکر اور ا س کا حجاب۔

 

۳۰۔ کَذَلِکَ اٴَرْسَلْنَاکَ فِی اٴُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِھَا اٴُمَمٌ لِتَتْلُوَ عَلَیْھِمْ الَّذِی اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَھُمْ یَکْفُرُونَ بِالرَّحْمَانِ قُلْ ھُوَ رَبِّی لاَإِلَہَ إِلاَّ ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ مَتَابِ۔
۳۱۔ وَلَوْ اٴَنَّ قُرْآنًا سُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ اٴَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْاٴَرْضُ اٴَوْ کُلِّمَ بِہِ الْمَوْتَی بَلْ لِلَّہِ الْاٴَمْرُ جَمِیعًا اٴَفَلَمْ یَیْئَسْ الَّذِینَ آمَنُوا اٴَنْ لَوْ یَشَاءُ اللهُ لَھَدَی النَّاسَ جَمِیعًا وَلاَیَزَالُ الَّذِینَ کَفَرُوا تُصِیبُہُمْ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ اٴَوْ تَحُلُّ قَرِیبًا مِنْ دَارِھِمْ حَتَّی یَاٴْتِیَ وَعْدُ اللهِ إِنَّ اللهَ لاَیُخْلِفُ الْمِیعَادَ ۔
۳۲۔ وَلَقَدْ اسْتُھْزِءَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَاٴَمْلَیْتُ لِلَّذِینَ کَفَرُوا ثُمَّ اٴَخَذْتُھُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ۔

ترجمہ

۳۰۔ جیسا کہ ( ہم نے گزشتہ انبیاء کو بھیجا ) تجھے بھی ایک امت کے درمیان بھیجا کہ جس سے پہلے دوسری امتیں آئیں اور چلی گئیں ، تاکہ ہم نے جو کچھ تجھ پر وحی کی ہے ان کے سامنے پڑھو حالانکہ وہ رحمن ( وہ خدا کہ جس کی رحمت سب پر محیط ہے ) ست کفر کرتے ہیں ۔کہہ دو وہ میرا پر وردگار ہے ، اسے کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، میں نے اس پر توکل کیا ہے اور میری باز گشت اس کی طرف ہے ۔
۳۱۔ اگر قرآن کہ وجہ سے پہاڑ چلنے لگ جائیں اور زمین ٹکڑے ہو جائے اور اس کے ذریعے مردوںکے ساتھ گفتگو کی جائے ( وہ پھر بھی ایمان لائیں گے) لیکن یہ سب کچھ خد اکے اختیار میں ہے ۔ کیا وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں نہیں جانتے کہ اگر خد اچاہے تو تمام لوگوں کو(جبراً)ہدایت کردے ( لیکن جبری ہدایت کاکوئی فائدہ نہیں ) اور کافروں پر ان کے اعمال کی وجہ سے مسلسل سر کوبی کرنے والی مصیبتیں ٹوٹی رہیں گی یا ان کے گھروں کے ارد گرد نازل ہوں گی یہاں تک کہ خدا کا آخری وعدہ پورا ہو ، خدا اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
۳۲۔ ( انہوں نے صرف تیرا مذاق نہیں اڑا یا بلکہ ) تجھ سے پہلے انبیاء سے بھی انہوں نے استہزاء کیا۔ میں نے کافروں کو مہلت دی اور پھر ان کی گرفت کی ، تونے دیکھا ( میری ) سزا کیسی تھی ؟

شان نزول

مفسرین کا کہنا ہے کہ پہلی آیت صلح حدیبیہ کے بارے میں ہجرت کے چھٹے سال نزال ہوئی ۔ جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا:
لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس پر سہیل بن عمر و اور دیگر مشرکین کہنے لگے : ہم ”رحمان “ ک ونہیں پہچانتے۔ ”رحمن “ تو صرف ایک ہی ہے اور وہ یمامہ میں ہے ( ان کی مراد مسیلمہٴ کذاب سے تھی کہ جو نبوت کا دعویدارتھا) ، بلکہ لکھو: با سمک اللھم
زمانہ ٴ جاہلیت میں اسی طرح لکھا جاتا تھا ۔ اس کے بعد آنحضرت نے حضرت علی  سے کہا لکھو:
یہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ
ابھی اتنا ہی لکھتا تھا کہ مشرکین قریش کہنے لگے : اگر تم خدا کے رسول ہوتے اور ہم تم سے جنگ کرتے اور خانہ خدا کا راستہ تم پر بند کرتے تو ہم بڑے ظالم ہوتے( جھگڑا تو تمہاری اس رسالت کا ہی ہے ) بلکہ لکھو ” یہ صلح نامہ محمد بن عبد اللہ کاہے “۔
اس وقت اصحاب پیغمبر بھڑک اٹھے ۔ کہنے لگے : ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم ان سے جنگ کریں ۔
پیغمبر اکرم نے فرمایا:نہیں ، جس طرح یہ کہتے ہیں ویسے لکھو ۔
اس موقع پر مندر جہ بالا آیت نازل ہو ئی اور خدا کے نام ”رحمن “ کے سلسلے میں ان کی بہانہ جوئی ، ہٹ دھرمی اور مخالفت پر ان کی شدید سر زنش کی گئی کیونکہ یہ تو خداکی قطعی صفات میں سے ہے ۔
یہ شان نزول اس صورت میں صحیح ہے جب ہم اس سورہ کو مدنی سمجھیں تاکہ یہ صلح حدیبیہ کے واقعے سے مطابقت اختیار کرسکے لیکن اگر جیسا کہ مشہور ہے کہ اسے مکی سمجھیں تو پھر اس بحث کی نوبت نہیں آئے گی مگر یہ کہ اس آیہ کی شان نزول کو مشرکین کی اس گفتگو کا جواب سمجھا جائے جو سورہ فرقان میں آئی ہے ۔ انہوں نے ”رحمن “ کو سجدہ کرنے کی دعوتِ پیغمبر کے جواب میں کہا ہے کہ ہم رحمن کو نہیں پہچانتے:
اسجدوا للرحمن قالوا و ما الرحمن
( جب ان سے کہا گیا کہ ) رحمن کو سجدہ کرو تو کہنے لگے رحمن کون ؟ (فرقان۔۶۰)
بہر حال مندرجہ باآیت شانِ نزول سے قطع نظر بھی ایک واضح مفہوم رکھتی ہے کہ جو اس کی تفسیر میں بیان کیا جائے گا۔دوسری آیت کی شان نزول کے بارے میں بھی بعض عظیم مفسرین نے کہا ہے کہ یہ مشرکین مکہ کی ایک جماعت کے جواب میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ لوگ کانہ کعبہ کی پشت کی طرف بیٹھے تھے ۔ انہوں نے پیغمبر اکرم کی طرف کسی کو یہ پیغام دے کر بھیجا :
اگر تو چاہتا ہے کہ ہم تیری پیروی کریں تو مکہ کے ان پہاڑوں کو اپنے قرآن کے ذریعے پیچھے ہٹا دے تاکہ ہماری یہ تنگ زمین کسی حدتک وسیع ہو جائے ۔ نیز زمین میں شکاف کرکے اس میں چشمے اور نہریں جاری کردے تاکہ ہماری یہ تنگ زمین کسی حد تک وسیع ہو جائے ۔ نیز زمین میں شگاف کرکے اس میں چشمے نہریں جاری کردے تاکہ ہم درخت لگائیں اور زراعت کریں تو اپنے گمان میں داوٴد سے کم نہیں ہے کہ جس کے لئے خدا نے پہاڑوں کو مسخر کر رکھا تھا کہ جو اس سے ہم آواز ہو کر خدا کی تسبیح کرتے تھے یا یہ کہ ہمارے لئے ہوا کو مسخر کردے تاکہ ہم اسکے دو ش پر سوار ہو کر شامل کی طرف جائیں اور اپنی مشکلات حال کریں اپنی ضروریات پوری کریں اور اسی دن واپس لوٹ آئیں جیسا کہ سلیمان کے لئے مسخر تھی اور تو اپنے گمان میں سلیمان سے کم نہیں ہے نیز اپنے دادا” قصی“ (قبیلہ قریش کے جدِّ اعلیٰ ) یا ہمارے مردوں میں سے کسی اور شخص کو جسے چاہے زندہ کردے تاکہ ہم اس سے سوال کریں کہ کیا جو کچھ تو کہتا ہے حق ہے یا باطل کیونکہ عیسیٰ مردوںکو زندہ کرتا تھا اور تو عیسیٰ سے کم تر نہیں ہے ۔
اس پر دوسری زیر بحث آیت نازل ہوئی اور ان سے کہا گیا کہ جو کچھ تم کہتے ہو وہٹ دھرمی کے وجہ سے ہے نہ کہ ایمان لانے کے لئے کیونکہ ایمان لانے کے لئے درکار کافی معجزات پیش کیے جاچکے ہیں ۔

 


۱۔ نہج البلاغہ ۲۲۴۔
۲۔مزید وضاحت کے لئے کتاب ”راہ غلبہ پر نگرانیھا “ کی طرف رجوع فرمائیں۔
3۔ تفسیر نمونہ جلد ۸۴( اردو ترجمہ) پر بھی ہم نے اس سلسلے میں وضاحت کی ہے ۔
4۔سفینة البحار جلد ۱ ص ۴۸۴۔
5۔سفینة البحار جلد ۱ ص ۴۸۴۔
 
ہت دھرم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے دنیا پرست تباہ کار
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma