دو اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
انسان اور معاشرے ختم ہو جاتے ہیں ، خدا باقی رہتا ہے قطعی اور قابل ِ تغیر حوادث

۱۔لوح محو و اثبات اور ام الکتاب :”یمحو اللہ مایشاء ویثبت “ مندرجہ بالا آیات میں اگرچہ انبیاء پر نزول معجزات یا آسمانی کتب کے نازل ہونے کے بارے میں آیا ہے لیکن اس میں ایک عمومی قانون بیان کیا گیا ہے کہ جس کی طرف مختلف منابع ِ اسلامی میں بھی اشارہ ہواہے اور وہ یہ کہ تحقق موجو دات اور عالم کے مختلف حوادث کے دو مرحلے ہیں ۔ ایک مرحلہ قطعیت ہے کہ جس میں کسی قسم کا کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا (مذکورہ بالاآیت میں ” ام الکتاب “ اسی کی طرف اشارہ ہے ) ۔ دوسرا مرحلہ غیر قطعی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ مشروط ہے کہ اس مرحلے میں تبدیلی ممکن ہے لہٰذا اسے مرحلہٴ محوو اثبات کہتے ہیں ۔
کبھی انہیں ” لوح محفوظ “ اور ”لوح محو و اثبات“ بھی کہا جاتا ہے ۔ گویا ان میں سے ایک لوح میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور وہ بالکل محفوظہے لیکن دوسری میں ممکن ہے کوئی چیز لکھی جائے اور پھر محو ہو جائے اور اس کی جگہ دوسری چیز لکھی جائے ۔
حقیقت ِ امر یہ ہے کہ کبھی ایک حادثہ پر ہم ا س کے ناقص اسباب کے ساتھ نظر ڈالتے ہیں ۔ مثلاً زہر قاتل کی طبیعت کا تقاضا ہے کہ انسان کو ختم کردے ، اسے نظر میں رکھتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ جو شخص اسے کھائے گامر جائے گا مگر اس سے بے خبر ہوتے ہیں کہ اس زہر کے لئے ایک ” ضد زہر “ بھی ہے اگر اس کے بعد اسے کھا لیا تو اس کے اثرات ختم ہو جائیں گے ( البتہ ممکن ہے ہم بے خبر تو نہ ہوں لیکن اس ” ضد زہر“ کے بارے میں با ت کرنا مناسب نہ سمجھیں) ۔
اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ حادثہ زہر کھانے سے موت، قطعی پہلو نہیں رکھتا یعنی اس مقام پر ” لوح ِ محو و اثبات “ ہے کہ جس میں دوسرے حوادث پرنظررکھتے ہوئے تغیر ممکن ہے لیکن اگر حاثے کو ا س کی علت ِ تامہ یعنی مقتضیٰ کے وجود ، تمام شرائط کی موجود گی او ر تمام موانع کے خاتمے کے ساتھ نظر میں رکھیں (مندرجہ بالا مثال میں زہر کھانے اور ”ضد زہر “ نہ کھانے کے ساتھ نظر میں رکھیں ) تو پھر یہاں حادثہ قطعی ہے اور اصطلاح کے مطابق اس کی جگہ لوح محفوظ اور ام الکتاب میں ہے اور اس میں کوئی تغیر نہیں ہوتا ۔
یہ بات ایک اور طرح سے بیان کی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ خدا کے علم کے دو مرحلے ہیں ۔ ” مقتضیات اور علل ِ ناقصہ کا علم “ اور ”علل تامہ کا علم “ جو دوسرے مرحلے سے مربوط ہے اسے علم الکتاب اور لوح محفوظ کہا جا تا ہے او رجو پہلے مرحلے سے مر بوط ہے اسے لوح محو و اثبات سے تعبیر کرتے ہیں ورنہ آسمان کے کسی گوشے میں کوئی لوح اور تختی نہیں رکھی ہوئی کہ جس پر کوئی چیز لکھی جاتی ہو یا مٹا کر اس پر دوسری چیز لکھی جاتی ہو۔
یہاں سے منابع اسلامی کے مطالعہ سے سامنے آنے والے بہت سے سوالات کا جواب دیا جاسکتا ہے کیونکہ کبھی کبھی روایات یا بعض قرآنی آیات میں ہم پڑھتے ہیں کہ فلاں کام فلاں نتیجے کا سبب بنتا ہے لیکن ہم بعض اوقات اس میں ایسا نتیجہ نہیں دیکھے۔ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اس نتیجہ کا حصول بعض شرائط یا موانع کا حامل ہوتا ہے کہ جو شرط پوری نہ ہونے یا رکاوٹ دور نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پاتا۔
نیز بہت سی روایات کہ جو لوحِ محفوظ ، لوح محو و اثبات او رانبیاء و آئمہ علیہم السلام کے علم کے بارے میں ہیں ان کا مفہوم اس بحث سے واضح ہو جاتا ہے ۔ ان میں سے چند روایات ہم بطور نمونہ پیش کرتے ہیں :
( ۱) امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے مندر جہ بالا آیت کے بارے میں رسول اللہ سے سوال کیا تو حضور نے فرمایا :
لا قرن عینیک بتفسیر ھا ولاقرن عین امتی بعدی بتفسیر ھا، الصدقة علی وجھھا وبر الوالدین و اصطناع المعروف یحول الشقاء سعادة، ویزید فی العمر، وقی مصادع السوء ۔
اس آیت کی تفسیر میں تیری آنکھوں کو روشن کرونگا اور اسی طرح اپنے بعد اپنی امت کی آنکھوں کو ضرورت مندوں کی صحیح طریقے سے مدد کرنا ۔ماں باپ سے نیکی کرنا اور اچھے کام انجام دینا شقاوقت کو سعادت میں دیتا بدل ہے ،زدگی کو طولانی کردیتا ہے اور خطرات سے بچا تا ہے ۔ ( المیزان جلد۱۱ ص۴۱۹) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ سعادت و شقاوت کو حتمی اورناقابل تغیر امر نہیں ۔ یہاں تک کہ اگر انسان نے ایسے اعمال انجام دیئے ہوں کہ جن کی وجہ سے بدبختیوں کی صف میں شامل ہو تو وہ اپنی جگہ تبدیل کرکے اورنیکیوں کا رخ کرکے خصوصاًمخلوق خدا کی مدد اور خدمت کرکے اپنی سر نوشت کوبدل سکتا ہے کیونکہ ان امورکامقام لوحِ محو و اثبات ہے نہ کہ ام الکتاب۔توجہ رہے کہ جوکچھ مندرجہ حدیث میں آیا ہے وہ مفہوم آیت کا ایک حصہ ہے کہ ایک مثال کے طور پر بیان ہوا ہے ۔
(۲) امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ  نے فرمایا:
من الامور محتومة کائنة لامھالة، ومن الامور امور موقوفة عند اللہ ، یقدم فیھا مایشاء و یمحو مایشاء ویثبت منھا مایشاء
کچھ امور حوادث حتمی ہیں کہ جو یقینارونما ہوتے ہیں اور بعض خدا کے ہاںکچھ شرائط کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں وہ جس میں مصلحت دیکھتاہے اسے مقدم کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ثبت کردیتا ہے ۔ ( المیزان جلد۱۱ ص۴۱۹) ۔
نیز مرقوم ہے کہ امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام فرماکرتے تھے :
الولایة فی کتاب اللہ لحدثتکم بما کان مایکون الیٰ یوم القیامة ، فقلت لہ اٰیة فقال قال اللہ: یمحوا اللہ مایشاء و عندہ ام الکتاب
اگر قرآن میں ایک حدیث نہ ہوتی تو میں گزشتہ اور آئندہ قیامت تک حوادث کی تمہیں خبر دیتا۔
راوی حدیث کہتا ہے : میں نے عرض کیا کہ کونسی آیت ہے تو فرمایا:
خدا فرماتا ہے : یمحو ا اللہ مایشاء و یثبت و عند ہ ام الکتاب( نور الثقلین ،جلد ۲ ص ۵۱۲) ۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مختلف حوادث کے متعلق دین کے عظیم راہبروں کے کم از کم کچھ علوم لوح محو و اثبات سے مربوط ہیں اور لوح محفوظ اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ اسے مخصوص ہے اوروہ اس کے کچھ حصے کی کہ جو میں مصلحت سمجھتا ہے اپنے خاص بندون کو تعلیم دے دیتا ہے ۔
و ان کنت من الاشقیاء فامحنی من الاشقایء و اکتبنی من السعدائ
اگر شقاوت مندوں میں سے ہوںتو ان میں سے خذف کرکے مجھے سعادت مندوں میں لکھ دے ( یعنی مجھے اس کام کی توفیق دے) ۔
بہرحال جیسا کہ کہا جاچکا ہے محو و اثبات کا ایک جامع مفہوم ہے ۔ شرائط کی تبدیلی اور موانع کی موجود گی کے زیر اثر اس میں ہر قسم کی تبدیلی شامل ہے اور یہ جوبعض مفسرین نے کسی خاص مصداق کی نشاندہی کی ہے مثلاً انہوں نے کہا ہے کہ یہ تو بہ کے زیر اثر گناہوں کے محو ہونے یاحالات بدلنے سے روزی کم یازیادہ ہونے یا اس قسم کے امور کی طرف اشارہ ہے  ان میں سے ہربات اسی صورت میں صحیح ہوسکتی ہے جب مراد ایک مصداق بیان کرنا ہو۔
۲۔ بداء کیا ہے ؟ شیعہ اور سنی میں جو ایک پیچیدہ بحث پیدا ہو گئی ہے وہ مسئلہ”بداء“ کے بارے میں ہے ۔
فخر رازی اپنی تفسیروں میں زیر بحث آیت کے ذیل میں کہتا ہے :۔
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ خدا کے لئے ”بدا“ جائز ہے اور ان کے نزدیک بدا کی حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص ایک چیز کا معتقد ہو پرپھر ظاہرہو جائے کہ حقیقت اس کے اعتقاد کے برخلاف ہے اور یہ بات ثابت کرنے کے لئے انہوں نے ”یمحوا اللہ مایشاء و یثبت“ کی آیت کا سہارا لیا ہے ۔
فخر رازی مزید کہتا ہے :
یہ عقیدہ باطل ہے کیونکہ علم ِ خدا اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے اور جو ایسا ہو اس میں تغیر و تبدل محال ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسئلہ بداکے بارے میں شیعہ عقیدہ سے عدم آگاہی اور لاعلمی کے سبب بہت سے اہل سنت بھائیوں نے شیعوں کی طرف ایسی ناروا نسبتیں دی ہیں۔ اس کی وضاحت یہ ہے :
لغت میں لفظ ”بداء“ آشکار ہونے اور پوری طرح واضح ہونے کے معنی میں ہے نیز یہ لفظ پشیمانی کے معنی میں بھی آیا ہے کیونکہ جو شخص پشیمان ہوتا ہے یقینااسے کوئی نئی چیز پیش آتی ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ اس معنی ٰ کے لحاظ سے خدا کے بارے میں بداء کاکوئی مفہوم نہیں اور ممکن نہیں ۔ اور کسی عقلمند اور دانا کے لئے ممکن نہیں کہ اسے یہ احتمال ہوکہ کوئی مطلب خدا سے پوشیدہ ہوتا ہے اور پھر وقت گزرنے سے اس پر آشکار ہوجاتا ہے ۔اصولی طور پر یہ بات صریح کفر ہے اورکھٹکنے والی ہے ۔ اس بات کا لازمی مطلب یہ ہے کہ خدا کی ذات ِ پاک کی طرف جہالت کی نسبت دی جائے اور اس کی ذات کومحل تغیر اور محل حوادث سمجھا جائے حاشاوکل شیعہ امامیہ ذات پروردگار اور خدائے لایزال کے بارے میں ایسا احتمال ہر گز نہیں رکھتے ۔
جس میں شیعہ کا بداء کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں او رجس کے مطابق روایاتِ اہل بیت  میں آیاہے کہ ماعرف اللہ حق معرفتہ من لم یعرفہ بالبداء
وہ یہ کہ اکثر ایسا ہوا ہے کہ ہم علل و اسباب کے ظواہر کے مطابق محسوس کرتے ہیں کہ ایک واقعہ و قوع پذیر ہو گا یا کسی پیغمبر کو ایسا واقعہ پیش آنے کی خبر دی گئی حالانکہ ہم بعد میں دیکھتے ہیں ایسا واقع نہیں ہوا تو اس موقع پر ہم کہتے ہیں کہ ” بداء“ واقع ہوا ہے یعنی جس امر کو ہم واقع شدہ سمجھتے تھے اور اس کے رونما ہونے کو یقینی جانتے تھے اس کے خلاف ظاہر ہوا۔
اس بات کی بنیاد اور اصلی علم وہی ہے جو گزشتہ بحث میںبیان ہوچکی ہے اور وہ یہ کہ بعض اوقات ہماری آگاہی کا تعلق صرف علل ناقصہ سے ہوتا ہے اور ہم شرائط و موانع نہیں دیکھ پاتے اور ہم اس کے مطابق فیصلہ کردیتے ہیں اور اس کے بعد جب شرط کے فقدان یا مانع کے وجود سے سامنا کرنا پڑتا ہے اور جس کی ہم توقع کررہے ہوتے ہیں اس کے خلاف واقع ہو جاتا ہے تو ہم ان کے مسائل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔
اسی طرح کبھی امام پیغمبر یا امام لوح پیغمبر یا امام لوح محوو اثبات سے آگاہی حاصل کرلیتے ہیں جب کہ یہ طبعا ً قابل تغیر ہے اور پھر موانع پیش آنے اور شرائط مفقود ہونے کی بناء پر اس طرح رونما نہیں ہوتا۔
اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے ” نسخ “اور ”بداء“ کا آپس میں موازنہ کرنا چاہیئے ۔ ہم جانتے ہیں کہ تمامسلمانوں کے نزدیک نسخ احکام جائز ہے ۔ یعنی ممکن ہے ایک حکم شریعت میں نازل ہو اور لوگ سمجھیں کہ یہ ابدی حکم ہے لیکن پھر وہ ذات ِپیغمبر کے ذریعے منسوخ قرار پاجائے اور اس کی جگہ دوسرا آجائے (جیسے ہم نے تفسیر ، فقہ اور حدیث میں قبلہ کی تبدیلی کے بارے میں پڑھا ہے ) ۔
یہ درحقیقت ”بداء“ کی ایک قسم ہے لیکن عام طور پر امور تشریعی اور احکام و قوانین میں اسے نسخ کہتے ہیں اور مور تکوینی میں بداء ایک قسم کا نسخ ہے ۔ کیا کوئی شخص ایسے منطقی امر کا انکار کرسکتا ہے سوائے ایسے شخص کے جو علت ِتامہ اور علت ناقصہ کے درمیان فرق نہ کر سکے یا یہ کہ وہ شیعیانِ اہل بیت  کے خلاف ہونے والے منحوس پراپیکنڈا کا شکار ہو جائے اور اس کا تعصب اسے اجازت نہ دے کہ شیعہ عقائد کا مطالعہ خود ان کی کتب سے کرے ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ فخر الدین رازی نے ”یمحو اللہ مایشاء اللہ و یثبت “ کے ذیل میں بداء کے بارے میں شیعوں کے عقیدے کی با ت تو کی لیکن اس نے اس مسئلے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی کہ بداء اسی ”محو و اثبات“ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔ اس نے تواپنے مخصوص تعصب کی بناء پر شیعوں پر کڑی نکتہ چینی کی ہے کہ وہ بداے کے قائل کیوں نہیں ۔
اجازت دیجئے کہ مسئلہ بداء کے کے بار ے میں چند ایسے نمونے پیش کئے جائیں کہ جنہیں سب کے قبول کیا ہے ۔
(۱) حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ میں ہم نے پڑھا ہے کہ ان کی قوم کی نافرمانی سبب بنی کہ عذاب الہٰی ان کی طرف آئے اور اس عظیم پیغمبر نے بھی چونکہ انہیں قابل ہدایت نہ سمجھا اور انہیں مستحق ِعذاب جانا تو انہیں چھوڑ کر چلے گئے لیکن اچانک ”بداء واقع ہوا“ اس قوم کے ایک عالم نے جب آثار ِ عذاب دیکھے تو انہیں جمع کیا اور توبہ کی دعوت دی ۔ سب نے بات مان لی اور وہ عذاب کہ جس کی نشانیاں ظاہر ہو چکی تھیں ٹل گیا۔
فلولا کانت قریة اٰمنت فنعھا ایمانھا الاقوم یونس لمّا اٰمنوا کشفنا عنھم عذاب الخزی فی الحیٰوة الدنیا و متعناھم الیٰ حین ۔ (یونس۔ ۹۸) ۔
(۲) اسلامی تواریخ میں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک دلہن کے بارے میں خبر دی کہ وہ اسی شب زفاف مرجائے گی لیکن وہ آپ کی پیش گوئی کے بر خلاف زندہ رہی جب آپ سے ماجرا پوچھا گیا تو فرمایا :
کیا تم نے اس سلسلہ میں کوئی صدقہ دیا ہے ۔
انہوں نے کہا :
جی ہاں
تو آپ  نے فرمایا :
صدقہ حتمی بلاوٴں کو دور کردیتاہے ۔ 1
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے در حقیقت لوحِ محو و اثبات سے ارتباط کی وجہ سے ایسے واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دی تھی حالانکہ یہ واقعہ مشروط تھا ( شرط یہ تھی کہ اس میں صدقہ کی طرح کو ئی مانع پیدا نہ ہو گیا ہو تو نتیجہ کوئی اور نکل آیا۔
(۳) بہادربت شکن ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں قرآن میں ہے کہ وہ اسماعیل  کو ذبح کرنے پر مامور ہوئے اور اس ماموریت کے بعد بیٹے کو قربان گاہ میں لے گئے لیکن جب انہوں نے ثابت کردیاکہ میں پوری طرح آمادہ ہو تو بداء واقع ہو گیا اور واضح ہو گیا کہ یہ ایک امتحان تھا اس عظیم پیغمبر اور انکے فرزند ارجمند کی اطاعت و تسلیم کو آزمایا جائے ۔
(۴) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں ہے کہ پہلے وہ مامور ہوئے کہ اپنی قوم سے تیس دن تک علیحدہ رہیں اور احکام تورات حاصل کرنے کے لئے خدائی وعدہ گاہ کی طرف جائیں لیکن پھر ( بنی اسرائیل کی آزمائش کے لئے ) اس مدت کو دس دن بڑھا دیا گیا۔
یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ بداء کے ایسے واقعات کا کیا فائدہ؟
اس سوال کا جواب ان کے امور میں توجہ کرنے سے ظاہر اً مشکل نہیں رہتا جن کاسطور ِ بالا میں ذکر کیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات اہم مسائل مثلاً کسی شخص کی آزمائش ،کسی قوم کا امتحان ، توبہ اور خدائی بازگشت ( جیسے داستان یونس میں آیاہے )صدقہ ، حاجتمندوں کی مدد اور نیک کاموں کے زیر اثر دردناک برطرف ہو جاتے ہیں ۔ ایسے ماور تقاضا کرتے ہیں کہ آئندہ کے واقعات پہلے اس طرح سے منظم ہوں اور پھر شرائط و حالات بدلنے سے وہ بھی بدل جائیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ان کی سر نوشت خود انہی کے ہاتھ ہے اور روش کی تبددیلی سے وہ اپنی تقدیر بدلنے پر قادر ہیں اور یہ بداء کے ساتھ نہیں پہچانا وہ اس کی پوری معرفت نہیں رکھتا، یہ بھی انہی حقائق کی طرف اشارہ ہے اسی لئے ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ  نے فرمایا :
مابعث اللہ عزوجل نبیاً حتی یاٴخذ علیہ ثلاث خصال الاقرار بالعبودیة وخلع الانداد، و ان الہ یقدم ما یشاء و یوٴخر مایشاء
خدا نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس سے یہ تین پیمان لیے ۔ پر وردگار کی بندگی کا اقرار ، ہرقسم کے شرک کی نفی اور یہ کہ خدا جس چیز کو چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے موخر کرتا ہے ۔ 2
حقیقت میں پہلا پیمان خدا کی اطاعت اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے مربوط ہے دوسرا عہد شرک کے خلاف قیام کرنے سے متعلق ہے اور تیسرا مسئلہ بداء سے مربوط ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کی تقدیر خود اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ حالات تبدیل کرکے اپنے آپ کو لطف ِ الہٰی یا عذاب ِ خدا کا حقدار بنا لیتا ہے ۔
آخری بات یہ ہے کہ مندر جہ بالا پہلووٴں کی بناء پرعلماء شیعہ نے کہا ہے کہ جب ” بداء “ کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے تو یہ ”ابداء“ کے معنی میں ہوتی ہے یعنی کسی ایسی چیز کو ظاہر کردیتا ہے جو پہلے ظاہر نہ ہو او ر جس پیشین گوئی نہ کی جاسکتی ہو۔
لیکن  شیعوں کی طرف یہ نسبت دینا کہ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کبھی کبھی اپنے کام پر پشیمان ہوجاتا ہے یا کسی ایسی چیز سے باخبر ہو جاتا ہے کہ جس سے پہلے آگاہ نہ ہو  یہ بہت بڑی زیادتی ہے اور ایسی تہمت ہے جسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔
اسی لئے آئمہ معصومین علیہم السلام سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا:
من زعم ان اللہ عزوجل یبد ولہ فی شیء لم یعلمہ امس فابرؤا منہ
جو شخص یہ گمان کرے کہ خدا پر کوئی ایسی چیز آج آشکار ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا تو ایسے شخص سے بیزاری اختیار کرو۔ 3


۴۱۔ اٴَوَلَمْ یَرَوْا اٴَنَّا نَاٴْتِی الْاٴَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اٴَطْرَافِھَا وَاللهُ یَحْکُمُ لاَمُعَقِّبَ لِحُکْمِہِ وَھُوَ سَرِیعُ الْحِسَابِ ۔
۴۲۔ وَقَدْ مَکَرَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلِلَّہِ الْمَکْرُ جَمِیعًا یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ وَسَیَعْلَمُ الْکُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَی الدَّارِ
۴۳۔ وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ کَفَی بِاللهِ شَھِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ الْکِتَابِ ۔

ترجمہ

۴۱۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ ہم ہمیشہ زمین کے اطراف (وجوانب) کو کم کررہتے ہیں ( معاشرے ، تمدن اور علماء تدیجاً ختم ہو تے رہتے ہیں )اور خدا حکومت کرتا ہے اور کسی شخص کو اسے روکنے یااس کے احکام رد کرنے کا یارا نہیں اور وہ سریع الحساب ہے ۔
وہ لوگ جنہوں نے ان سے پہلے سازشیں کیں اور منصوبے بنائے لیکن منصوبہ بنانا تو خدا کا کام ہے کہ جو ہر شخص کے کام سے آگاہ ہے اور عنقریب کفار جان لیں گے کہ دوسرے گھر میں ( نیک و بد ) انجام کس کا ہے ۔
۴۳۔ جو کافر ہو گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ر ورسول نہیں ہے۔ کہہ دے کہ خدااور وہ لوگ کہ جن کے پاس علم کتاب ( اور قرآن کی آگاہی ) ہے (میری ۹ گواہی کے لئے کافی ہیں ۔

 


1۔ بحار الانوار چاپ قدیم ، جلد ۲ ص ۱۳۱ از امالی صدوق ۔
2۔اصول کافی ، جلد ۱ ص ۱۱۴، سفینة البحار جلد ۱ ص ۶۱۔
3۔سفینة البحار جلد ۶۱۔

 

انسان اور معاشرے ختم ہو جاتے ہیں ، خدا باقی رہتا ہے قطعی اور قابل ِ تغیر حوادث
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma