تمام تر نظام کائنات کسی حساب کتاب اور نظم و شمار پر قائم ہے ۔ نظام عالم کی کوئی چیز بغیر کسی حساب کتاب کے نہیں ہے ۔ فطری امر ہے کہ انسان کہ جواس سارے نظام کا ایک جزو ہے کسی حساب کتاب کے بغیر زندگی بستر نہیں کر سکتا ۔
اسی بناء پر قرآن کی مختلف آیات میں یہ فرمایا گیا ہے کہ چاند، سورج یا رات دن کا وجود انسان کے لیے نعمات الٰہی میں سے ہے کیونکہ یہ انسان زندگی میں نظم و حساب پیدا کرنے کا ایک عامل ہے ۔کیونکہ بے نظم زندگی فنا اور نابود کا سبب ہے ۔
ایک۔ ”ابتغاء فضل الله“۔ کہ جو عام طور پر مفید اور تعبیر کام کے معنی میں ہے ۔
دوسرا ۔سالوں کا حساب جاننا ۔
ان دونوں کا اکٹھا ذکرشاید اس بات کی دلیل ہے کہ”ابتغاء فضل الله“”نظم و حساب“ سے استفادہ کیے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
گزشتہ زمانے میں شاید یہ بات اتنی واضح نہیں تھی لیکن آج کی دنیا نو اعداد و شمار کی دنیا ہے آج تو ہر اقتصادی، سماجی، سیاسی، سائنسی اور ثقافتی ادارے میں شماریات کا شعبہ ہوتا ہے ۔ ہر کار خانے میں شعبہ ہوتا ہے ۔دور حاضر میں اس قرآن اشارے کی گہرائی کی طرف توجہ کرنا چاہئے اور یہ جاننا چاہیئے کہ قرآن نہ صرف یہ کہ قرآن نہ صرف یہ کہ زمانہ گزرنے سے پرانا نہیں ہوتا بلکہ جوں جوں وقت گرزتا ہے اس کی تازگی زیادہ نکھر کر سامنے آتی ہے ۔ (1)
۱۳ وَکُلَّ إِنسَانٍ اٴَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہُ فِی عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَابًا یَلْقَاہُ مَنشُورًا
۱۴ اقْرَاٴْ کِتَابَکَ کَفیٰ بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا
۱۵ مَنْ اھْتَدیٰ فَإِنَّمَا یَھْتَدِی لِنَفْسِہِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا وَلَاتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اٴُخْریٰ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّی نَبْعَثَ رَسُولًا
۱۳۔اور ہر شخص کے اعمال کو ہم نے اس کے گلے کار ہار بنا دیا ہے اور روز قیامت اس کے لیے ہم ایک کتاب نکالیں گے کہ جسے وہ اپنے سامنے کھلاہوا پائے گا ۔
۱۴۔ (یہ اس کا نامہ اعمال ہی ہوگا ۔ ہم اس کہیں گے)اپنی کتاب پڑھ، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے ۔
۱۵ جو شخص بھی ہدایت پائے اس نے اپنے لیے ہدایت پائی اور جو شخص گمراہ ہو وہ اپنے ہی نقصان میں گمراہ ہوا (اس کا نقصان خود اسی کو پہنچے گا) اور کوئی شخص دوسرے کا بوجھ اپنے کندھے پر نہیں اٹھائے گا ہم (لوگوں کو ان کی ذمہ دارایاں بتانے کے لیے) پیغمبر مبعوث کیے بغیر کسی (شخص یا قوم) کو عذاب نہیں دیتے ۔