چھ اہم احکام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
زنا کا فلسفہ حرمت چند اہم نکات

گزشتہ آیات میں احکام اسلامی کے کچھ حصے آئے ہیں ۔ ان کے بعد زیر نظر آیات میں کچھ مزید احکام پیش کیے گئے ہیں ۔ چھ اہم احکام پانچ آیات میں بہت پر معنی اور دلنشین پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں ۔
(۱) پہلے زمانہ جاہلیت کے ایک بہت قبیح اور برے عمل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ یہ انتہائی دردناک گناہوں میں سے تھا ۔ ارشاد ہوتا ہے: اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو(وَلَاتَقْتُلُوا اٴَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلَاقٍ) ۔ان کی روزی تمہارے ذمہ نہیں ہے بلکہ انہیں اور تمہیں ہم رزق دیتے -ہیں (نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَإِیَّاکُمْ) ۔کیونکہ ان کا قتل ایک بہت بڑا گناہ تھا اور ہے(إِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیرًا) ۔
اس آیت سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ زمانہٴ جاہلیت میں عربوں کی اقتصادی حالت اتنی سخت اور پریشان کن تھی کہ وہ اپنی مالی حالت پتلی ہونے کی وجہ سے اپنی عزیز اولاد تک کو قتل کردیتے تھے ۔
مفسرین میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا زمانہ جاہلیت کے عرب فقر کے خوف سے صرف اپنی بیٹیوں کو مٹی میں دبا دیتے تھے یا بیٹیوں کو بھی زندہ در گور کردیتے تھے ۔
بعض کا نظریہ ہے کہ یہ سب گفتگوبیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کی طرف اشارہ ہے ۔ وہ لوگ ایسا دو وجوہ کی بناء پر کرتے تھے ۔ ایک تو اس خیال کی بناء پر کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی جنگ میں دشمنوں کی قید میں چلی جائیں اور اس طرح ان کی غزت و ناموس دوسروں کے ہاتھ آجائے ۔
دوسرا فقر و فاقہ کی وجہ سے اور اسباب زندگی مہیا کرنے کی طاقت نہ ہونے کے سبب وہ لڑکیوں کو قتل کردیتے تھے ۔ کیونکہ اس زمانہ میں لڑکی مالی پیدا وار کا ذریعہ نہ تھی بلکہ اکثر اوقات اخراجات کا سبب شمار ہوتی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ابتداء میں بیٹے بھی اخراجات ہی کا باعث تھے لیکن زمانہٴ جاہلیت کے عرب ہمیشہ بیٹیوں کو اہم سرمائے کے طور پر دیکھتے تھے اور انہیں گنوانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے ۔
بعض دوسروں کانظریہ ہے کہ وہ دو طرح سے اولاد کو قتل کرتے تھے ۔ ایک قتل و ہ ناموس کی حفاظت کے غلط نام پر لڑکیوں کا کرتے تھے اور دوسرا فقر و فاقہ کے خوف سے بلا تخصیص بیٹے اور بیٹی کا ۔
آیت کی ظاہری تعبیر کہ جو جمع مذکر (قتلھم اور نرزقھم)کی صورت میں آئی ہے، اس نظریے کی دلیل بن سکتی ہے کیونکہ عربی ادب کے لحاظ سے جمع مذکر کا اطلاق بیٹیوں پر مجموعی طور پر درست ہے لیکن خصوصیت سے اس کا بیٹیوں کے لیے ہونا بعید معلوم ہوتا ہے ۔
البتہ یہ جو کہا گیا ہے کہ بیٹے پیدا واری صلاحیت رکھتے تھے اور سرمایہ شمار ہوتے تھے، یہ بالکل صحیح ہے لیکن یہ اس صورت میں کہ جب اس تھوڑی مدت کے لیے وہ اجراجات برداشت کرسکتے ۔ حالانکہ بعض اوقات تو وہ اس قدر تنگ دستی میں ہوتے کہ اس تھوڑی سی مدت کے لیے بھی اسبابِ زندگی مہیا کرنے کے قابل نہ ہوتے ۔
لہٰذا دوسری تعبیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
بہر حال یہ بات ایک وہم و گمان سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی کہ روزی دینے والے ماں باپ ہی ہیں ۔ خدا تعالیٰ اعلان کررہا ہے کہ اس شیطانی خیال کو دماغ سے نکال دو زیادہ سے زیادہ سعی و کوشش کے لئے اٹھ کھڑے ہو تو خدا بھی مدد کرے گا اور ان کی زندگی کا نظام چلادے گا ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ ہم اس قبیح اور شرمناک جرم سے وحشت کرتے ہیں حالانکہ یہی جرم ہمارے زمانے میں ایک اور شکل میں موجود ہے ۔ یہاں تک کہ یہ کام بہت زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی انجام پاتا ہے اور وہ ہے اسقاطِ حمل۔ یہ کام بہت زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام اور اقتصادی حالات کے نام پر کیا جارہا ہے ۔
(مزید توضیح کے لیے تفسیر نونہ جلد ۶ سورہٴ انعام کی آیہ ۱۵۱ کی طرف رجوع کریں)
”خشیة املاق“ بھی اس شیطانی وہم کی نفی کے لیے لطیف اشارہ ہے کہ یہ صرف ایک خوف ہے جو تمہیں اس بہت بڑے جرم پر ابھارتا ہے ورنہ اس میں حقیقت نہیں ہے ۔“
ضمناً توجہ رہے کہ ”کان خطاً کبیراً“ کہ جو فعل ماضی کے ساتھ آیا ہے اس امر کے لیے اشارہ اور تاکید ہے کہ اولاد کو قتل کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہے کہ جو قدیم زمانے سے لوگوں میں موجود ہے اور اس کی قباحت اور برائی فطرت کی گہرائیوں میں موجود ہے لہٰذا یہ قباحت کسی زمانے سے مخصوص نہیں ہے ۔
(۲) ایک اور عظیم گناہ کہ جس کی طرف اگلی آیت اشارہ کرتی ہے وہ زنا اور منافی عفت عمل ہے ۔ قرآن کہتا ہے: زنا کے قریب نہ جاؤ کیونکہ یہ بہت بُرا اور قبیح عمل ہے اور بہت بری روشن ہے (وَلَاتَقْرَبُوا الزِّنَی إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِیلًا) ۔
اس مختصر سے جملے میں تین نکات کی طرف اشارہ ہوا ہے:
الف۔ یہ نہیں فرمایا کہ زنانہ کرو۔ بلکہ فرمایا کہ اس شرمناک کام کے قریب نہ جاؤ۔ یہ تعبیر اپنی گہرائی کے اعتبار سے اس حکم کے لیے تاکید ہے نیز یہ اس امر کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ اکثر اوقات اس گناہ کے کچھ تمہیدی اعمال بھی ہوتے ہیں جو تدریجاً انسان کو اس کے قریب کردیتے ہیں ۔ ہوا و ہوس کی نظر سے عورتوں کو دیکھنا بھی اس کا ایک مقدمہ ہے ۔ بے پردگی اس کا دوسرا مقدمہ ہے ۔ بری باتیں سکھانے والی کتابیں ، گندی فلمیں، گھٹیا جرائد اور برائی کے مختلف مراکز بھی اس کام کا مقدمہ فراہم کرتے ہیں ۔
اسی طرح نامحرم عورتوں کے ساتھ خلوت بھی اس کا ایک عامل ہے (یعنی ایک نامحرم مرد اور عورت کسی خالی مکان یا مقام پر ہوں تو وہ بھی اس کا عامل بن سکتا ہے) ۔
اسی طرح جوان لڑکے اور لڑکی کی شادی نہ کرنا اور دونوں پر بلا وجہ سختیاں عائد کرنا بھی اس کا سبب بن جاتا ہے ۔
یہ سب ”زنا کے قریب جانے کے“عامل ہیں ۔ مذکورہ آیت اپنے مختصر جملے میں ان سب سے روکتی ہے ۔ اسلامی روایات میں ان مقدمات میں سے ہر ایک کی الگ الگ ممانعت کی گئی ہے ۔
ب۔ ”انہ کان فاحشة“ میں تین تاکیدیں موجود ہیں:
ایک ”انّ“ دوسری فعل ماضی اور تیسری ”فاحشة“۔
ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گناہ کتنا بڑا ہے ۔
ج۔ ”ساء سبیلا“ (یعنی زنا بہت بری روش ہے) ۔ یہ جملہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ یہ عمل معاشرے میں دیگر بُرائیوں کو بھی کھینچ لاتا ہے ۔

 

زنا کا فلسفہ حرمت چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma