رُسوا کُن جُھوٹ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۱۔ ایک ترکِ اولیٰ کے بدلےمنحوس سازش

آخر کار بھائی کامیاب ہوگئے ، انہوں نے باپ کو راضی کرلیا کہ وہ یوسف (علیه السلام) کو ان کے ساتھ بھیج دے، وہ رات انہوں نے اس خوش خیالی میں گزاری کہ کل یوسف کے بارے میں ان کا منصوبہ عملی شکل اختیار کرے گااور راستے کی رکاوٹ اس بھائی کو ہم ہمیشہ کے لئے راستے سے ہٹا دیں گے، پریشانی انہیں صرف یہ تھی کہ باپ پشیمان نہ ہو اور اپنی بات واپس نہ لے لے ۔
صبح سویرے وہ باپ کے پاس گئے اور یوسف کی حفاظت کے بارے میں باپ نے ہدایت دہرائیں، انہوں نے بھی اظہارِ اطاعت کیا، باپ کے سامنے اسے بڑی محبت و احترام سے اٹھایا اور چل پڑے ۔
کہتے ہیں کہ شہر کے دروازے تک باپ ان کے ساتھ آئے اور آخری دفعہ یوسف کو ان سے لے کر اپنے سینے سے لگایا، آنسو ان کی آنکھوں سے برس رہے تھے، پھر بھی یوسف کو ان کے سپرد کرکے ان سے جدا ہوگئے لیکن حضرت یعقوب (علیه السلام) کی آنکھیں اسی طرح بیٹوں کے پیچھے تھیں، جہاں تک باپ کی آنکھیں کام کرتی تھیں وہ بھی یوسف (علیه السلام)پر نوازش اور محبت کرتے رہے لیکن جب انہیں اطمینان ہوگیا کہ اَطوٴب باپ انہیں نہیں دیکھ سکتا تو اچانک انہوں نے آنکھیں پھیر لیں، سالہاسال سے حَسد کی وجہ سے جو اُن کے اندر تہ بہ تہ بغض وکینہ موجود تھا وہ حضرت یوسف (علیه السلام) پر نکلنے لگا، ہر طرف سے اسے مارنے لگے، وہ ایک سے بچ کر دوسرے سے پناہ لیتے لیکن کوئی انہیں پناہ نہیں دیتا ۔
ایک روایت میں ہے کہ اس طوفانِ بَلا میں حضرت یوسف (علیه السلام) آنسو بہا رہے تھے اور جب وہ انہیں کنویں میں پھینکنے لگے تو اچانک حضرت یوسف (علیه السلام) ہنسنے لگے،بھائیوں کو بہت تعجب ہوا ہے کہ یہ ہنسنے کو کونسا مقام ہے، گویا یوسف (علیه السلام) نے اس مسئلے کو مذاق سمجھا ہے اور بات سے بے خبر ہے کہ سیاہ وقت اور بدبختی اس کے انتظار میں ہے لیکن یوسف (علیه السلام) نے اس ہنسنے کے مقصد سے پردہ اٹھایا اور سب کو عظیم درس دیا، وہ کہنے لگے:
مجھے نہیں بھولتا کہ ایک دن تم طاقتور بھائیوں، تمہارے قوی بازؤوں اور بہت زیادہ جسمانی طاقت پر مَیں نے نظر ڈالی تو مَیں بہت خوش ہوا اور مَیں نے اپنے آپ سے کہا کہ جس کے اتنے دوست اورمددگار ہوں اسے سخت حوادث کا کیا غم ہے، اس دن مَیں نے تم پر بھروسہ کیا اور تمہارے بازؤوں پر دل باندھا، اب تمہارے چنگل میں گرفتار ہوں اور تم سے بچ کر تمہاری طرف پناہ لیتا ہوں اور تم مجھے پناہ نہیں دیتے، خدا نے تمہیں مجھ پر مسلط کیا ہے تاکہ مَیں یہ درس سیکھ لوں کہ اس کے غیر پر یہاں تک کہ بھائیوں پر بھی بھروسہ نہ کروں ۔
بہر حال قرآن کہتا ہے:جب وہ یوسف کو اپنے ساتھ لے گئے اورانہوں نے متفقہ فیصلہ کرلیا کہ اسے کنویں کی مخفی جگہ پھنک دیں گے، اس کام کے لئے جو ظلم ستم ممکن تھا انہوں نے روا رکھا( فَلَمَّا ذَھَبُوا بِہِ وَاٴَجْمَعُوا اٴَنْ یَجْعَلُوہُ فِی غَیَابَةِ الْجُبِّ ) ۔(۱)
لفظ ”اجمعوا“ نشاندہی کررتا ہے کہ سب بھائی اس پروگرام پر متفق تھے اگر چہ حضرت یوسف (علیه السلام) کو قتل کرنے میں وہ متفق نہ تھے ۔
اصولی طور پر ”اجمعوا“ ”جمع“ کے مادہ سے اکٹھا کرنے کے معنی میں ہے اور ایسے مواقع پر آراء وافکار جمع کرنے کی طرف اشارہ ہوتا ہے ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: اس وقت ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی، اسے تسلی دی اور اس کی دلجوئی کی اور اس سے کہا غم نہ کھاؤ ”ایک دن ایسا آئے گا کہ تم انہیں ان تمام منحوس سازشوں اور منصوبوں سے آگاہ کرو گے اور تمہیں پہچان نہیں سکیں گے(وَاٴَوْحَیْنَا إِلَیْہِ لَتُنَبِّئَنَّھُمْ بِاٴَمْرِھِمْ ھٰذَا وَھُمْ لَایَشْعُرُونَ
وہ دن کہ جب تم تختِ حکومت پر تکیہ لگائے ہوگے اور تمہارے یہ بھائی تمہاری طرف دستِ نیاز پھیلائیں گے اور ایسے تشنہ کاموں کی طرح کہ جو چشمہ خوش گوار کی تلاش میں تپتے ہوئے بیابان میں سرگرداں ہوتے ہیں، تمہارے پاس بڑی انکساری اور فروتنی سے آئیں گے، لیکن تم اتنے بلند مقام پر پہنچے ہوگے کہ انہیں خیال بھی نہیں ہوگا کہ تم ان کے بھائی ہو، اس روز تم ان سے کہو گے کہ کیا تمہی نہ تھے جنہوں نے اپنے چھوٹے بھائی یوسف کے ساتھ یہ سلوک کیا اور اس دن یہ کس قدر شرمسار اور پشیمان ہوں گے ۔
اسی سورہ کی آیہ ۲۲ کے قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وحی الٰہی وحیّ نبوت نہ تھی بلکہ یوسف کے دل پر الہام تھا تاکہ وہ جان لے کہ وہ تنہا نہیں ہے اور اس کا ایک حافظ ونگہبان ہے، اس وحی نے قلب یوسف (علیه السلام) پر امید کی ضیا پاشی کی اور یاس وناامیدی کی تاریکیوں کو اس کی روح سے نکال دیا ۔
یوسف کے بھائیوں نے جو منصوبہ بنا رکھا تھا اُس پر انہوں نے اپنی خواہش کے مطابق عمل کرلیا، لیکن آخرکار انہیںواپس لوٹنے کے بارے میں سوچنا تھاکہ جاکر کوئی ایسی بات کریں کہ باپ کو یقین آجائے کہ یوسف کسی سازش کے تحت نہیں بلکہ طبیعی طور پر وادی عدم میں چلا گیا ہے اور اس طرح وہ باپ کی نوازشات کو اپنی جانب موڈ سکیں ۔
اس مقصد کے لئے انہوں نے جو منصوبہ بنایاتھا وہ بالکل وہی تھا جس کا باپ کو خوف تھا اور وہ جس کی پیش بینی کرچکے تھے، یعنی انہوں نے فیصلہ کیا کہ جاکر کہیں کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا اور اس کے لئے فرضی کہانیاں پیش کرں ۔
قرآن کہتا ہے: رات کے وقت بھائی روتے ہوئے آئے(وَجَائُوا اٴَبَاھُمْ عِشَاءً یَبْکُونَ
ان کے جھوٹے آنسو ؤوں اور ٹسوے بہانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جھوٹا رونا بھی ممکن ہے اور صرف روتی ہوئی آنکھ سے دھوکا نہیں کھانا چاہیئے ۔
باپ جو بڑی بے تابی اور بے قراری سے اپنے فرزند دلبند یوسف کی واپسی کے انتظار میں تھا اُس نے جب انہیں واپس آتے دیکھا اور یوسف ان میں دکھائی نہ دیا تو وہ لرز گیا اور کانپ اٹھا، حالات پوچھے تو انہوں نے کہا: اب جان! ہم گئے اور باہم (سواری اور تیر اندازی کے )مقابلوں میں مشغول ہوگئے اور یوسف کہ جو چھوٹا تھا اور ہم سے مقابلہ نہیں کرسکتا تھا اسے ہم اپنے سامان کے پاس چھوڑ گئے، اس کام میں ہم اتنے محو ہوگئے کہ ہر چیز یہاں تک کہ بھائی کو بھی بھول گئے، اس اثنا ء میں ایک بے رحم بھیڑیا اس طرف آپہنچا اور اس نے اسے چیر پھاڑ کھایا( قَالُوا یَااٴَبَانَا إِنَّا ذَھَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاٴَکَلَہُ الذِّئْبُ
لیکن ہم جانتے ہیں کہ تم ہرگز ہماری باتوں کا یقین نہیں کرو گااگر چہ ہم سچے ہوںکیونکہ تم نے پہلے ہی اس قسم کی پیش بینی کی تھی لہٰذا اسے بہانہ سمجھو گے(وَمَا اٴَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ کُنَّا صَادِقِینَ)۔
بھائیوں کی باتیں بڑی سوچی سمجھی تھیں، پہلی بات یہ کہ انہوں نے باپ کو ”یاابانا“ (اے ہمارے والد) کے لفظ سے مخاطب کیا کہ جس میں ایک جذباتی پہلو تھا، دوسری بات یہ کہ فطری طور پر ایسی تفریح گاہ میں طاقتور بھائی بھاگ دوڑ میں مشغول ہوگئے اور چھوٹے کو ساما ن کی نگہداشت پر مقرر کریں گے اور اس کے علاوہ انہوں نے باپ کو غفلت میں رکھنے کے لئے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور روتی ہوئی آنکھوں سے کہا کہ تم ہرگز یقین نہیں کروگے اگرچہ ہم سچ بول رہے ہوں ۔
نیز اس بناء پر کہ باپ کو ایک زندہ نشانی بھی پیش کریں ”وہ یوسف کی قمیص کو جھوٹے خون میں تر کئے ہوئے تھے“ (وہ خون انہوں نے بکری یا بھیڑ کے بچے یا ہرن کا لگا رکھا تھا) ( وَجَائُوا عَلیٰ قَمِیصِہِ بِدَمٍ کَذِبٍ
لیکن ”دروغ گو حافظہ ندارد“ ایک حقیقی واقعہ کے مختلف پہلو ہوتے ہیں اور اس کے مختلف کوائف اور مسائل ہوتے ہیں، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ان سب کوایک فرضی کہانی میں سمویا جاسکے لہٰذا برادرانِ یوسف بھی اس نکتے سے غافل رہے کہ کم از کم یوسف (علیه السلام) کی کرتے کو چند جگہ سے پھاڑ لیتے تاکہ وہ بھیڑئےے کے حملے کی دلیل بن سکتا وہ بھائی کی قمیص کو اس سے بدن سے صحیح سالم اتار کر خون آلودہ کرکے باپ کے پاس لے آئے، سمجھدار اور تجربہ کار باپ کی جب اس کرتے پر نگاہ پڑی تو وہ سب کچھ سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ تم جھوٹ بولتے ہو ” بلکہ نفسانی ہوا وہوس نے تمہارے لئے یہ کام پسندیدہ بنادیاہے اور یہ شیطانی سازشیں ہیں “(قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اٴَنفُسُکُمْ اٴَمْرًا
بعض روایات میں ہے کہ :
انہوں نے کرتا اٹھا لیا اور اس کا پہلا حصہ آگے کرکے پکار کر کہا:تو پھر اس میں بھیڑئےے کے پنجوں اور دانتوں کے نشان کیوں نہیں ہیں ۔
ایک اور روایت کے مطابق :
حضرت یعقوب (علیه السلام) نے کرتا اپنے منہ پر ڈال لیا، فریاد کرنے لگے اور آنسو بہانے لگے، وہ کہہ رہی تھے: یہ کیسا مہربان بھیڑیا تھا جس نے میرے بیٹے کوتو کھالیا لیکن اس کے کرتے کو ذرہ بھر نقصان نہ پہنچایا، اس کے بعد وہ بے ہوش ہوکر خشک لکڑی کی طرح زمین پر گر پڑے، بعض بھائیوں نے فریاد کی : اے وائے ہو ہم پر روزِ قیامت عدلِ الٰہی کی عدالت میں ہم بھائی بھی ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں اور باپ کو بھی ہم نے قتل کردیا ہے، باپ اسی طرح سحری تک بے ہوش رہے لیکن سہرگاہی کی نسیم سرد کے جھونکے ان کے چہرے پر پڑے تو وہ ہوش میں آگئے ۔(2)
باوجودیکہ یعقوب (علیه السلام) کے دل میں آگ لگی ہوئی تھی، ان کی روح جل رہی تھی لیکن زبان سے ہرگز ایای بات نہ کہتے تھے جو ناشکری، یاس وناامیدی اور جزع و فزع کی نشانی ہو بلکہ کہا ” مَیں صبر کروں گا،صبرِ جمیل، ایسی شکیبائی جو شکر گزاری اور حمد خدا کے ساتھ ہو(فَصَبْرٌجمیل)۔(3)
اس کے بعد یعقوب (علیه السلام) کہنے لگے:” جو کچھ تم کہتے ہو اس کے مقابلے میں مَیں خدا سے مدد طلب کرتا ہوں“( وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ عَلیٰ مَا تَصِفُونَ)، مَیں اس سے چاہتا ہوں کہ جامِ صبر کی تلقی میرے حلق میں شیریں کردے اور مجھے زیادہ تاب وتوانائی دے تاکہ اس عظیم طوفان کے مقابلے میں اپنے اوپر کنٹرول رکھ سکوں اور میری زبان نادرست اور غلط بات سے آلودہ نہ ہو ۔
انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یوسف کی موت کی مصیبت پر مجھے شکیبائی دے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یوسف قتل نہیں ہوئے بلکہ کہا کہ جو کچھ تم کہتے ہو کہ جس کا نتیجہ بہرحال اپنے بیٹے سے جدائی ہے، مَیں صبر طلب کرتا ہوں ۔


۱۔ مندرجہ بالا آیت میں ” لما“ کا جواب محذوف ہے اور اس کی تقدیر اس طرح ہے:فلما ذھبوا بہ واجمعوا ان یجعلوہ فی غیابت الجب عظمت فتنتھم(تفسیر قرطبی)۔
اور یہ حذف شاید اس بنا پر ہو کہ اس دردناک حادثے کی عظمت کا تقاضا تھا کہ کہنے والا اس کے بارے میں خاموش رہے یہ خود بلاغت کے فنون میں سے ایک فن ہے ۔(تفسیر المیزان)
2۔ تفسیر آلوسی مذکورہ آیت کے ذیل میں ۔
3۔ ”صبر جمیل“ صفت وموصوف کے قبیل میں سے ہے اور مبتدا محذوف کی خبر بھی ہے ، یہ دراصل اس طرح تھا:” صبری صبر جمیل“ ۔

 

۱۔ ایک ترکِ اولیٰ کے بدلےمنحوس سازش
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma