۲۔ حضرت یوسف (علیه السلام) کی دلکش دُعا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۳۔”واجمعوا ان یجعلوہ فی غیابت الجب“کا مفہوم۱۔ ایک ترکِ اولیٰ کے بدلے

روایات اہلِ بیت (علیه السلام) اور طرقِ اہل ِ سنت میں ہے کہ جس وقت حضرت یوسف (علیه السلام) کنویں کی تہ میں پہنچ گئے تو ان کی امید ہر طرف سے منقطع ہوگئی اور ان کی تمام تر توجہ ذاتِ پاکِ خدا کی طرف ہوگئی، انہوں نے اپنے خدا سے مناجات کی اور جبرئیل کی تعلیم سے رازونیاز کرنے لگے کہ جو روایات میں مختلف عبارتوں میں منقول ہے ۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ (علیه السلام) نے خدا سے یوں مناجات کی:
اللّٰھم یا مونس کل غریب ویا صاحب کل وحید ویا ملجا کل کائف ویا کاشف کل کربة ویا عالم کل نجوی یامنتھی کل شکوی ویا حاضر کل ملاء یاحیّ یا قیّوم اسئلک ان تقذف رجائک فی قلبی حتّیٰ لایکون لی ھم ولا شغل غیرک وان تجعل لی من امری فرجاً ومخرجاً انک علیٰ کل شیء قدیر۔
بارالہا! اے وہ جو غریب مسافرکا مونس ہے اور تنہا کا ساتھی ہے، اے وہ جو ہر خائف کی پناہ گاہ ہے، ہر غم کو برطرف کرنے والا ہے، ہر فریاد سے آگاہ ہے، ہر شکایت کرنے والے کی آخری امید ہے اور ہر مجمع میں موجود ہے، اے حیّ! اے قیّوم!(اے زندہ! اے ساری کائنات کے نگران!) مَیں تجھ سے چاہتا ہوں کہ اپنی امید میرے دل میں ڈال دے تاکہ تیرے علاوہ کوئی فکر نہ رکھوں اور تجھ سے چاہتا ہوں کہ میرے لئے اس عظیم مشکل سے راہِ نجات پیدا کردے کہ تُو ہر چیز پر قادر ہے ۔
یہ امر جاذبِ نظر ہے کہ اس حدیث کے ذیل میں یہے کہ فرشتوں نے حضرت یوسف (علیه السلام) کی آواز سُنی تو عرض کیا:
الٰھنا نسمع صوتاً ودعاء: الصوت صوت صبی والدعاء دعاء نبی!
پروردگارا! ہم آواز اور دعا سن رہے ہیں آواز تو بچے کی ہے لیکن دعاء نبی کی ہے ۔ (1)
یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ جس وقت حضرت یوسف (علیه السلام) کے بھائیوں نے انہیں کنویںمیں پھنکا تو ان کا کُرتہ اتار لیا اور ان کا بدن برہنہ ہوگیا تو یوسف نے بہت دادوفریاد کی کہ کم از کم میرا کُرتہ تو مجھے دے دو تاکہ اگر مَیں زندہ رہوں تو میرا بدن ڈھانپے اور اگر مرجاؤں تو میرا کفن ہو ، بھائی کہنے لگے: اسی سورج، چاند اور ستاروں سے کہ جنہیں خواب میں دیکھا تھا تقاضا کرو کہ اس کنویں میں تیرے مونس وغمخوار ہوں اور تجھے لباس پہنائیں ۔
حضرت یوسف علیہ السلام جب غیر خدا سے مطلقاً ناامید ہوگئے تو مذکورہ بالا دعا کی ۔(2)
امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا:
جب انہوں نے یوسف کو کنویں میں پھینکا تو جبرائیل ان کے پاس آئے اور کہا: بچّے! یہاں کیا کررہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا : بھائیوں نے مجھے کنویں میں پھینک دیا ہے ۔
جبرائیل کہنے لگے: کیا تم کنویں سے باہر نکلنا چاہتے ہو؟
وہ کہنے لگے: خدا کی مرضی ہے، اگر وہ چاہے گا تو مجھے باہر نکال لے گا ۔
جبرائیل نے کہا: خدا نے حکم دیا ہے کہ یہ دعا پڑھو تاکہ باہر آجاؤ۔
انہوں نے کہا کونسی دعاء؟
جبرائیل نے کہا : کہو:
اللّٰھم انی اسئلک بان لک الحمد لاالہ الا انت المنان، بدیع السمٰوٰت والارض، ذوالجلال والاکرام، ان تصلی علی محمدواٰل محمد وان تجعل لی مما انافیہ فرجاً ومکرجاً
پروردگارا ! مَیں تجھ سے دعا کرتا ہوں، اے کہ حمد و تعریف تیرے لئے ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تُو ہے جو بندوں کو نعمت بخشتا ہے، آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، صاحبِ جلال واکرام ہے، مَیں درخواست کرتا ہوں کہ محمد وآلِ محمد پر درود بھیج اور جس میں مَیں ہوں اس سے مجھے کشائش ونجات عطا فرما ۔(3)
کوئی مانع نہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ دونوں دعائیں کی ہوں ۔

 


1، 2۔ تفسیر قرطبی،ج ۵،ص ۳۳۷۳۔
3۔ نورالثقلین،ج ۲،ص ۴۱۶۔
 
۳۔”واجمعوا ان یجعلوہ فی غیابت الجب“کا مفہوم۱۔ ایک ترکِ اولیٰ کے بدلے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma