ظلمتوں سے نور کی طرف

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
۱۔ ایمان اور راہ ِخدا کو نور سے تشبیہ دیناسوره ابراهیم / آیه 1- 3

یہ سورہ بھی قرآن کی بعض دیگر سورتوں کی طرح حروف مقطعہ ( آلرٰ) سے شروع ہوئی ہے ۔ ان حروف کی تفسیر ہم سورہ بقرہ، آل عمران اور اعراف کی ابتداء میں بیان کرچکے ہیں ۔ یہاں نکتے کا ذکر ہم ضروری سمجھتے ہیں یہ کہ ۲۹ مقامات پر قرآن کی سورتوں کا آغاز حروف مقطعہ سے ہوا ہے ۔ ان میں سے ۲۴ مقامات ایسے ہیں جن میں بلا فاصلہ قرآن مجید کے بارے میں گفتگو آئی ہے ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ قرآن اور حروف مقطعہ کے درمیان کوئی تعلق موجود ہے اور ہوسکتا ہے یہ وہی تعلق ہو جس کا ذکر ہم سورہ ٴ بقرہ کی ابتداء میں کر چکے ۔ وہ یہ کہ خدا چاہتا ہے کہ اس سے واضح کرے کہ یہ عظیم آسمانی کتاب اپنے با عظمت معافی و مفاہیم کہ جن کی بناء پر وہ تمام انسانوں کی ہدایت اپنے ذمہ لئے ہوئے ہے کہ باوجود اسی سادہ سے خام مال ( الف ، باء) سے تشکیل پائی ہے اور یہ اس اعجاز کی اہمیت کی نشانی ہے کہ وہ سادہ ترین چیز سے افضل ترین چیز کو وجود بخشا ہے ۔
بہرحال الف ، لام، را ۔ کے ذکر کے بعد فرمایاگیا ہے :یہ وہ کتاب ہے کہ جو ہم نے تجھ پر اس لئے نازل کی کہ تو لوگوں کو گمراہیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے ۔ (کِتَابٌ اٴَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّور) ۔
درحقیقت نزول قرآن کے تمام تر بیتی ، انسانی ، روحانی اور مادی مقاصد اسی ایک جملے میں جمع ہیں ، ” ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے جانا“۔ ظلم و جہالت سے نورِ علم کی طرف ، ظلمت ِ کفر سے نور ایمان کی طرف ، ظلمت ِ ظلم سے نور ِ عدالت کی ، فساد سے نورِ صلاح کی طرف ظلمتِ گناہ سے نورِ تقویٰ کی طرف اور ظلمت ِ افتراق سے نور ِوحدت کی طرف۔
یہ امر جاذب نظر ہے کہ یہاں ” ظلمات “ بعض دیگر قرآنی سورتوں کی طرح جمع کی شکل میں آیا ہے اور ” نور “ واحد کی صورت میں ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ تمام نیکیاں ، پاکیزگیاں ، ایمان و تقویٰ او ر فضیلت نورِ توحید کے سائے میں اپنے آپ میں وحدت و یگانگی کی حالت میں ہیں اور سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور متحد ہیں اور ان سے ایک متحد و واحد معاشرہ ، جو ہر لحاظ سے پاک و پاکیزہ کپڑ ے کی مانند ہو تیار کیا جاسکتا ہے ۔
لیکن ظلمت ہر مقام پر پراگندگی اور صفوں میں تفرقہ کا سبب ہے ۔ ستم گر ، بدکار، آلودہٴ گناہ اور منحرف لوگ عموماً اپنی انحرافی راہوں میں بھی وحدت نہیں رکھتے اور آپس میں حالت ِ جنگ میں ہوتے ہیں ۔
تمام نیکیوں کا سر چشمہ چونکہ خدا کی ذاتِ پاک اور ادراکِ توحید کی بنیادی شرط اسی حقیقت کی طرف توجہ ہے لہٰذا بلا فاصلہ مزید فرمایا گیا ہے : یہ سب کچھ ان ( لوگوں ) کے پر وردگار کے اذن وحکم سے ہے ( ِ بِإِذْنِ رَبِّھِمْ ) ۔ اس نور کے بارے میں مزید توضیح کے لئے فرمایا گیا ہے :عزیز و حمید خدا کی راہ کی طرف ( إِلَی صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ ) ۔ ۱
وہ کہ جس کی عزت اس کی قدرت کی دلیل ہے کیونکہ کسی کے بس میں نہیں کہ اس پر غلبہ حاصل کرسکے اور اس کا حمید ہونا اس کی بے پایاں نعمات کی نشانی ہے کیونکہ حمد و ستائش ہمیشہ نعمتوں ، عنا ئتوں اور زیبائی پر ہوتی ہے ۔
اگلی آیت میں معرفت ِخدا کے لئے ایک درس ِ توحید دیتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے : وہی خدا کہ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اسی ہے ( اللهِ الَّذِی لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ) ۔ 2
تمام چیزیں اس کی ہیں کیونکہ وہی موجودات کاخالق ہے ، اسی بناء پر وہ قادر و عزیز بھی ہے ، تمام نعمتیں بخشنے والا اور حمید بھی ۔
ذکر مبداء کے بعد آیت کے آخر میں مسئلہ معاد کی جانب توجہ توجہ دی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : وائے ہو کفار پر قیامت کے شدید عذاب سے ( وَوَیْلٌ لِلْکَافِرِینَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیدٍ ) ۔
اگلی آیت میں بلا فاصلہ کفار کا تعارف کروایا گیا ہے ۔ ان کی صفات کے تین حصوں کاذکر کرکے ان کی کیفیت کو پوری طرح مشخص کردیا گیا ہے اس طرح سے کہ ہر شخص ان کا سامنا کرتے ہیں انہیں پہچان لے فرمایا گیا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں جو اس جہان کی پست زندگی کو آخرت کی زندگی پر مقدم شمار کرتے ہیں ( الَّذِینَ یَسْتَحِبُّونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا عَلَی الْآخِرَةِ ) ۔3
اسی وجہ سے وہ ایمان ، حق ، عدالت ، ، شرفِ آزادگی اور سر بلندی کہ جو آخرت سے لگاوٴ رکھنے والوں کی خصوسیات میں سے ہیں اپنے گھٹیا مفادات، شہوات اور ہوا و ہوس پر قربان کردیتے ہیں
اس کے بعد فرمایا گیا ہے : ایسے لوگ اسی ہر بس نہیں بلکہ خود ہی میں پڑنے کے بعد دوسروں کو بھی بھٹکا نے کی کوشش کرے ہیں اور ”وہ لوگوں کو راہ خدا سے روکتے ہیں “۔ ( وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ ) ۔
در حقیقت وہ اللہ کی راہ کہ جو راہِ فطرت ہے اور انسان خود سے چل کر اسے عبود کر سکتا ہے اس میں طرح طرح کی دیوار اٹھاتے ہیں اور رکا وٹیں کھری کرتے ہیں ۔ اپنی ہوا و ہوس اور خواہشا کی بنا سنوار کر پیش کرتے ہیں ، لوگوں کو گناہ کا شوق دلاتے ہیں اور راستی و پاکیزگی کے راستے سے خوف زدہ کرتے ہیں ۔
ان کا کام فقط اللہ کے راستے میں رکاوٹیں اور دیواریں کھڑی کرنا نہیں بلکہ ” کو شش کرتے ہیںکہ لوگوں کے سامنے اسے بگاڑ کر پیش کریں “(وَیَبْغُونَھَا عِوَجًا) ۔
در اصل وہ پوری توانائیوں سے کو شش کرتے ہیں کہ دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگ لیں اور اپنا ہم مسلک بنالیں لہٰذا ان کی کو شش ہوتی ہے کہ اللہ کے سیدھے کو ٹیڑھا کر کے دکھائیں ۔ اس لئے وہ اس میں طرح طرح کی خرافات اور بے ہودہ گیاں پیدا کرتے ہیں ، مختلف تحریفات سے کام لیتے ہیں ۔ قبیح بدعتوں کو رواج دیتے ہیں اور کثیف طور طریقے اختیار کرتے ہیں ۔ واضح ہے کہ ” ان صفات و اعمال کے حامل ہونے کی وجہ سے ایسے افراد بہت دور کی گمراہی میں ہیں “ ( اٴُوْلَئِکَ فِی ضَلَالٍ بَعِیدٍ) ۔یہ وہی لوگ ہیں کہ راہِ حق سے زیادہ دور ہونے کی بناء پر جن کا راہ ِ حق کی طرف لوٹ آنا آسانی سے ممکن نہیں لیکن یہ سب کچھ خود انہی کے اعمال کا نتیجہ ہے ۔

۱۔ ایمان اور راہ ِخدا کو نور سے تشبیہ دیناسوره ابراهیم / آیه 1- 3
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma