خلقت حق کی اساس پر ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
سوره ابراهیم / آیه 21- 23 سوره ابراهیم / آیه 19- 20

خلقت حق کی اساس پر ہے

گزشتہ آیت میں باطل ک اذکر ہے ۔ وہ باطل کہ خاکستر کی طرح ہے ۔ وہ خاکستر کہ جو پراگندہ ہے اور آندھی سے ادھر ادھر بکھر جاتی ہے ۔ زیر نظر پہلی آیت میں حق کے بارے میں گفتگو ہے ۔ یہ حق کے استقرار سے متعلق ہے ۔
روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے دنیا کے تمام طالبان حق کے لئے نوممنے کے طور پر فرمایا گیا ہے : کیا تو نے نہیں دیکھا کہ خد انے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے ( اٴَلَمْ تَرَی اٴَنَّ اللهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ بِالْحَقّ) ۔
”حق“ جیسا کہ مفردات میں راغب نے کہا ہے در اصل ”مطابقت “ اور ہم آہنگی “ کے معنی میں ہے لیکن کے اس کے استعمال کے مواقع مختلف ہیں ۔
بعض اوقات حق ایسے کام کو کہا جاتا ہے جوحکمت کے موافق اور نظم و نسق کے مطابق کیا گیا ہو جیسا کہ قرآن میں ہے :
ھو الذی جعل الشمس ضیاء والقمر نور ماخلق ذٰلک الابالحق
وہ وہی ہے کہ جس نے خورشید کو روشنی او ر چاند کو نور افشانی کا ذریعہ قرار دیا ہے  اس نے یہ کام حکمت اور حساب وکتاب کے بغیر انجام نہیں دیا ۔

 

( یونس ۔ ۵)
کبھی اس ذات کو حق کہا جاتا ہے جو اس قسم کا کام انجام دے ۔ جیسے اللہ کے لئے اسی لفظ کا اطلاق ہوا ہے :
فذٰلکم اللہ ربکم الحق
تمہارا یہ خدا تمہارا پروردگار ہے ۔ (یونس ۔۳۲)
کبھی ایسے اعتقاد کو حق کہا جاتاہے جو حقیقت کے مطابق ہو ۔ مثلاً
فھدی اللہ الذی اٰمنوا لما اختلفوا فیہ من الحق
جن اعتقاد میں اختلاف کرتے ہیں خدا نے ایمان والوں کو ان میں حق کی ہدایت کی ہے ۔ (بقرہ ۔ ۲۱۳)
کبھی ایسی گفتگو او ر عمل کو حق کہا جاتا ہے کہ جو ضروری مقدار کے مطابق ہو اور اس وقت انجام دئے جب ضروری ہو ۔مثلاً
حق القول منی لاملئن جھنم
مجھ سے یہ قول حق صاد ر ہوا ہے کہ میں جہنم کو ( گنہگاروں سے ) بھر دوںگا ۔ (سجدہ ۔۱۳)
بہر حال ”حق“ کے مقابل باطل ” ضلال“ ۔ ” لعب“ بیہودہ اور اس قسم کے دیگر کام ہیں لیکن زیر بحث آیت میں بلا شبہ اس پہلے معنی کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی عالم آفرینش کے عمارت اور آسمان و زمین سب نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کی خلقت میں نظم و نسق ،حساب وکتاب اور حکمت و ہدف ہے ۔ خدا کو انہیں خلق کرنے کی احتیاج تھی نہ اسے تنہائی سے وحشت ہو تی تھی اور نہ ان سے وہ اپنی ذات کی کسی کمی کو دور کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے بلکہ یہ وسیع و عریض جہان مخلوقات کی پر ورش اور انہیں زیادہ سے زیادہ تکامل و ارتقاء ء بخشنے کی منزل ہے ۔
اس کے بعدمزید فرمایا گیا ہے : اس بات کی دلیل ہے کہ اسے تمہاری اور تمہارے ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ ہے کہ ”اگر وہ ارادے کرے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ کوئی نئی مخلو ق لے آئے “ ایسی مخلوق کہ جو ساری کی ساری ایمان رکھتی ہو اور تمہارے غلط کاموں میںسے کسی کو انجام نہ دے ( إِنْ یَشَاٴْ یُذْھِبْکُمْ وَیَاٴْتِ بِخَلْقٍ جَدِیدٍ ) ۔
اور یہ کام خدا کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے ( وَمَا ذَلِکَ عَلَی اللهِ بِعَزِیزٍ) ۔
اس گفتگو کی شاہد سورہ نساء کی یہ آیت ہے :
فان تکفروا فان للہ مافی السمٰوات و الارض و کان اللہ غنیاً حمید ان یشاء یذھبکم ایھاالناس و یاٴت باٰخرین و کان اللہ علیٰ ذٰلک قدیرا ۔
اگر تم کافر ہو جاوٴو اس سے خدا کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہے او ر خدا بے نیاز اور لائق ِ حمدہے  اے لوگو!وہ جب چاہے تمہیں لے جائے اور دوسرا گروہ لے آئے او ریہ کام خدا کے لئے آسان ہے ۔ (نساء ۱۳۱۔تا ۔ ۱۳۳)
مذکورہ بالا آیت کے متعلق یہ تفسیر ابن عباس سے بھی نقل ہوئی ہے ۔
ایک اور احتمال بھی ہے اور وہ یہ کہ مندرجہ بالا مسئلہ معاد کی طرف اشارہ ہے یعنی خدا کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں کہ سب انسانوں کو لے جائے اور دوسری مخلوق پیدا کرنے تو کیا اس قدرت کے باوجود مسئلہ معاد دوسرے جہان کی طرف تمہاری باز گشت میں تمہیں شک ہو سکتا ہے ؟

سوره ابراهیم / آیه 21- 23 سوره ابراهیم / آیه 19- 20
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma