کفران ِ نعمت کا انجام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
چند اہم نکات سوره ابراهیم / آیه 28- 30

کفران ِ نعمت کا انجام

ان آیات میں روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف سے ہے ۔ در اصل ان میں شجرہٴ خبثہ کے ایک موقع کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے نعمت ِ الہٰی میں تبدیل کردیا ہے ( اٴَلَمْ تَرَی إِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللهِ کُفْرًا ) ۔
اور بالآخرہ انہوں نے اپنی قوم کو دار البوار او رہلاکت کے گڑھے کی طرف دھکیل دیا (وَاٴَحَلُّوا قَوْمَھُمْ دَارَ الْبَوَارِ ) ۔
یہ و ہی شجرہ خبیثہ کی جڑیں اور کفر و انحراف کے رہبر ہیں جن کے دامن میں نعمتیں تھیں مثلاً وجود ، پیغمبر کی سی نعمت کہ جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہ تھی ۔ چاہے تویہ تھا کہ وہ ان سے استفادہ کرتے اور شب بھر میں سوسال کی مسافت طے کرلیتے لیکن اندھے تعصب ، ہٹ دھرمی ، خود غرضی اور خود پسندی کے سبب وہ اس عظیم ترین نعمت سے استفادہ نہ کرسکے ۔ وہ نہ فقط خود کفران ِ نعمت کے مرتکب ہوئے بلکہ اپنی قوم کو بھی وسوسہ میں مبتلا کیا اور ہلاکت و بد بختی کی انہیں سوغات دی ۔
بزرگ مفسرین نے منابع ِ اسلامی میں آنے والی روایات کے پیش نظر کبھی اس نعمت کو وجود ِپیغمبر کہا ہے ، کبھی آئمہ اہل بیت (علیه السلام) اور کفران ِ نعمت کرنے والے کبھی بنو امیہ قرار دئیے ہیں ۔کبھی بنی مغیرہ اور کبھی زمانہٴ پیغمبر کے سب کفار لیکن آیت کا مفہوم یقینا وسیع ہے او ریہ کسی معین گروہ کے لئے مختص نہیں ہے اور اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو خدا کی کسی نعمت کا کفران کریں ۔
ضمناًمندرجہ بالا آیت سے یہ حقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ خدائی نعمتوں خصوصاً عظیم ہادیوں اور رہبری کی نعمت کہ جو اہم ترین نعمتوں میں سے ہے ، سے استفادہ کرنا خود انسان کے فائدے میں ہے ۔ اب ان نعمتوں کا کفران اور آخری رہبری سے منہ پھیرنا سوائے ہلاکت اور دار البوار میں گرنے کے اور کچھ نہیں ہے ۔
اس کے بعد قرآن ”دار البوار “ کی تفسیر کرتا ہے : یہ جہنم ہے کہ وہ جس کے جلاڈالنے والے شعلوں میں جاگریں گے اور یہ بد ترین ٹھکانا ہے ( جَھَنَّمَ یَصْلَوْنَھَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ ) ۔۱
اگلی آیت میں کفران ِ نعمت کی ایک بد ترین قسم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،کہ جس کے وہ مر تکب ہوتے تھے ۔ارشاد ہوتا ہے :انہو ں نے خدا کے لیے شریک قراردیئے تا کہ اس طریقے سے لو گوں کو اس کی راہ سے گمراہ کریں(وجعلواللہ انداً لیضلوا عن سبیلہ )
شرک و کفر اختیار کر کے اورلو گوں کو دین و طریق حق سے منحرف کرکے وہ لوگوںپر چند روزہ مادی اقتدار کوئی حا صل کرتے ہیں ۔
اے رسول !ان سے کہو: اس ناپائیدار اور بے وقعت مادی زندگی سے فائدہ اٹھا لولیکن یہ جان لو کہ تمہارا انجام ِ کار آگ ہے ( وَجَعَلُوا لِلَّہِ اٴَندَادًا لِیُضِلُّوا عَنْ سَبِیلِہِ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِیرَکُمْ إِلَی النَّارِ ) ۔
نہ تمہاری یہ زندگی ہے بلکہ بدبختی ہے او رنہ تمہارا یہ اقتدار کوئی حیثیت رکھتا ہے بلکہ تباہ کاری مصیبت ہے لیکن اس کے باوجود اپنے انجام کے بدلے تم اس سے فائدہ اٹھا لو ۔
ایک اور آیت میں فرمایا گیا ہے :
قل تمتع بکفرک قلیلاً انک من اصحابِ النار
کہہ دو : اپنے کفر سے تھوڑا سا فائدہ اٹھالے آخر کار تو اصحاب ِ نار میں سے ہے ۔(زمر ۔ ۸)

 


۱۔”یصلون “ ” صلی “مادہ سے آگ جلانے ، آگ میں جلنے، آگ میں مبتلا ہونے اور آگ میں جل کر کباب ہونے کے معنی میں ہے ۔
چند اہم نکات سوره ابراهیم / آیه 28- 30
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma