رسالت کا آخری مرحلہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
قرآن اور ابراہیم کا مقام بلند حضرت ابراهیم (ع) کی هجرت

رسالت کا آخری مرحلہ

 

حضرت ابراہیم نے تمام عمر ہر طرح کی بت پرستی خصوصا ً انسان پرستی کے خلاف جہاد کرتے گزاری ۔ آپ نے آمادہ دلوں کو نور توحید سے روشن کیا ۔ آپ نے انسانی جسموں میں نئی روح پھونک دی اور بہت سے لوگوں کو خود غرضوں اور خود سروں کی قید سے رہائی دلائی ۔ اب ضروری تھا کہ آپ بندگیٴ خدا کے آخری مرحلے میں قدم رکھیں اور اپنی متاع حیات کو طبق اخلاص میں رکھ کر بارگاہ الٰہی میں پیش کر دیں تاکہ خدا کی عظیم آزمائشوں سے گزر کر ایک عظیم روحانی انقلاب کے ذریعے انسانوں کی امامت کے مرحلے میں داخل ہوں ۔
اس کے ساتھ ساتھ اب انہیں خانہٴ توحید یعنی خانہ ٴ کعبہ کی بنیادوں کو بھی بلند کرنا تھا اور اسی خدا پرستی کے ایک بے نظیر مرکز میں تبدیل کرنا تھا اور تمام آمادہ دل موٴمنین کو اس عظیم مرکز توحید کے پاس ایک عظیم کانفرنس کی دعوت دینا تھا ۔
آپ نے اپنی کنیز ہاجرہ کو اپنی بیوی بنا لیا تھا ۔ اس سے انہیں اسمٰعیل جیسا بیٹا نسیب ہوا ۔ آپ کی پہلی بیوی سارہ نے ان سے حسد کیا ۔ یہی حسد سبب بنا کہ آپ ہاجرہ اور اپنے شیر خوار بچہ کو حکم خدا سے فلسطین سے لے کر مکہ کی جلتی ہوئی سنگلاخ پہاڑوں کی سر زمین میں لے گئے ۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں پانی کی ایک بوند بھی دستیاب نہ تھی آپ حکم خدا سے ایک عظیم امتحان سے گزرتے ہوئے انہیں وہاں چھوڑ کر واپس فلسطین آگئے ۔
وہاں چشمہٴ زمزم پیدا ہوا ۔ اس اثناء میں جرہم قبیلہ ادھر سے گزرا ۔ اس نے جناب ہاجرہ سے وہاں قیام کی اجازت چاہی ۔ گویا واقعات کا ایک طولانی سلسلہ ہے کہ جو اس علاقہ کی آبادی کا باعث بنا ۔
حضرت ابراہیم نے خدا سے دعا کی تھی کہ اس جگہ کو آباد اور پر برکت شہر بنا دے اور لوگوں کے دل میری اولاد کی طرف مائل کر دے ۔ ان کی اولاد وہاں پھلنے پھولنے لگی تھی ۔ 1
یہ بات جاذب نظر ہے کہ بعض مورخین نے نقل کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ہاجرہ اور شیر خوار اسمعیل کو مکہ میں چھوڑ کر واپس جانا چاہتے تھے تو جناب ہاجرہ نے فریاد کی : اے ابراہیم آپ کو کس نے حکم دیا ہے کہ ہمیں ایسی جگہ پر چھوڑ جائیں کہ جہاں نہ کوئی سبزہ ہے ، نہ دودھ دینے والا کوئی جانور ، یہاں تک کہ جہاں پا نی کا ایک گھونٹ بھی نہیں ہے ۔ آپ پھر بھی ہمیں بغیر زاد و توشہ اور مونس و مدد گار کے چھوڑے جارہے ہیں ۔
حضرت ابراہیم نے مختصر سا جواب دیا : میرے پروردگار نے مجھے یہی حکم دیا ہے ۔
ہاجرہ نے یہ سنا تو کہنے لگی : اگر ایساہے تو پھر خدا ہر گز ہمیں یوں ہی نہیں چھوڑے گا ۔ 2
حضرت ابراہیم بار ہا فلسطین سے اسماعیل کو ملنے کے لئے مکہ آئے ۔ ایک سفر کے موقعہ پر آپ مراسم حج بجا لائے اور حکم خدا سے اپنے آبرو مند اور نہایت پاکیزہ صاحب ایمان نو جوان بیٹے اسماعیل کو لے کر قربان گاہ میں آئے ۔ اسمعیل آپ کی زندگی کا بہترین ثمر تھے ۔ آپ بالکل تیار تھے کہ انہیں راہ خدا میں قربان کر دیں ۔
اس اہم ترین آزمائش سے جب آپ نہایت عالی طریقہ سے عہدہ بر آ ہو چکے اور آخری مرحلے تک اپنی آمادگی کا مظاہرہ کر چکے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانی کو قبول کر لیا اور اسمعیل کو بچا لیا اور قربانی کے لئے ایک دنبہ کو بھیج دیا ۔ 3
حضرت ابراہیم ان سب امتحانات سے کامیابی سے گزر چکے اور آزمائشوں کی اس کٹھالی سے کامیاب نکل آئے تو آپ کو ایک ایسا مقام حاصل ہوا جو وہ بلند ترین مقام ہے جو ایک انسان ترقی کرکے حاصل کر سکتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
اللہ نے کچھ کلمات کے ذریعے ابراہیم کاا متحان لیا ۔ وہ ان سب سے کامیاب گزرے تو اس پر اللہ نے ان سے کہا : میں تجھے لوگوں کا امام اور پیشوا قرار دیتا ہوں ۔ ( ابراہیم اس خوش خبری پر وجد میں آئیں گے ) کہنے لگے : یہ مقام میرے کچھ اولاد کو بھی عطا کر دے ۔ ( ان کی دعا قبول ہو گئی لیکن ایک شرط کے ساتھ) اللہ نے کہا : یہ مقام ہر گز کسی ایسے شخص کو نصیب نہ ہوگا جس سے ظلم و ستم اور انحراف سرزد ہوا ہو۔ 4

 


1 ۔ کامل ابن اثیر جلد ۱ ص ۱۰۳
2 ۔ سورہ صٰفٰت ۱۰۴ تا ۱۰۷
3 ۔ بقرہ ۔ ۱۲۴
4 ۔ سفینة البحار جلد ۱ ۔ ص ۷۴۔
قرآن اور ابراہیم کا مقام بلند حضرت ابراهیم (ع) کی هجرت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma