قرآن اور ابراہیم کا مقام بلند

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
رسالت کا آخری مرحلہ

قرآن اور ابراہیم کا مقام بلند

 

آیات قرآن مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو بہت بلند مقام عطا فرمایا تھا ۔ ایسا بلند مقام اللہ تعالیٰ نے کسی اور گزشتہ نبی کو عطا نہیں فرمایا تھا ۔
اس پیغمبر خدا کی عظمت ان تعبیرات سے واضح طور پر معلوم کی جا سکتی ہے :
۱۔ خدا نے ابراہیم کی ایک ” امت “ قرار دیا ہے اور ان کی شخصیت کو ایک امت کی مانند گردانا ہے ( نحل ۔ ۱۲۰ ) َ ۔
۲ ۔اللہ نے آپ کو خلیل اللہ کا مرتبہ عطا فرمایا ہے :
واتخذ اللہابراھیم خلیلا (نساء ۔ ۱۲۵) ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ بعض روایات میں ہے :
یہ مقام انہیں اس بناء پر حاصل ہوا کہ ابراہیم نے خود کبھی کسی چیز کے لئے کسی کے سامنے دست دراز بلند نہ کیا اور کبھی کسی سائل کو محروم نہیں لوٹایا ۔ 2
۳ ۔ قرآن کے مطابق وہ نیک ۱ صالح ۲ قانتین میں سے ، ۳ صدیقین میں سے ، ۴ صابرین میں سے ۵ اور ایفائے عہد کرنے والوں میں سے تھے ۔ 1
۱ ۔ ص ۴۷
۲ ۔ نحل ۔ ۱۲۲
۳ ۔ نحل ۱۲۰
۴ ۔ مریم ۔ ۴۱
۵ ۔ توبہ ۱۱۴
۶ ۔ نجم ۔ ۳۷
۷ ۔ ذاریات ۲۴ تا ۲۷
یہاں تک کہ بعض روایات میں انہیں ابوا ضیاف ( مہمانوں کا باپ یا مہمانوں کا ساتھی ) کا لقب دیا گیا ہے ۔ 3
۸ ۔ سفینة البحار جلد ۱ ص ۷۴
جب ہت دھر قوم آپ کو آگ کے سمندر میں پھینک رہی تھی ۔ فرشتوں نے خواہش کی تھی کہ ہم آپ کو بچا لیں ۔ ابراہیم نے ان کے اس تقاضے کو قبول نہ کیا ۔ تاریخ میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے ۔ آپ (علیه السلام) نے کہا : میں سر تا نیاز و احتیاج ہوں لیکن مخلوق سے نہیں صرف خالق سے ، 4
۶۔ شجاعت و بہادری میں بے مثال تھے ۔ بت پرستوں کے دہاڑتے ہوئے سیلاب کے سامنے تنہا کھڑے ہو گئے ، ان کا دل لمحہ بھر کے لئے ان سے وحشت زدہ نہ ہوا ۔ آپ نے ان کے بتوں کا مذاق اڑایا اور ان کے بت کدے کو ڈھا کر پتھروں کا ڈھیر بنا دیا نیز نمرود اور اس کے جلادوں کے بڑی جراٴت سے بات کی جو قرآنی آیات میں موجود ہے ۔
۷۔ ابراہیم بڑی منطق سے بات کرتے تھے ۔ آپ نے گمراہوں کو بہت مختصر ، محکم ، دندان شکن استدلال سے جواب دئے اور اپنے مطقی استدلال سے مخالفین کو رسواکر دیا ۔
آپ کبھی سختی و خشونت سے پیش نہیں آتے تھے بلکہ بڑے اطمینان سے بات کرتے ۔ آپ کا یہ انداز آپ کی عظیم روحانی قوت کا ترجمان تھا ۔ آپ نے گفتار و کردار سے مخالفین کو شکست دی ۔ نمرود کے سامنے آپ کی بات چیت اور اپنے چچا آزر سے آپ کی گفتگو بابل کے قاضیوں سے مناظرہ بڑی وضاحت سے مرقوم ہے ۔ بابل کے قاضی آپ کو خدا پرستی اور بت شکنی کے جرم میں سزا دینا چاہتے تھے آپ نے بڑے اعتماد اور اطمینان سے مدلل جواب دئے ۔ اس سلسلے میں سورہ انبیاء کی مندرجہ ذیل آیات کو غور سے پڑھنا چاہیے :
قاضیوں نے آپ سے پوچھا : کیا وہ تم ہی ہو جس نے ہمارے خداوٴں کے سر پر یہ مصیبت ڈھائی ہے اور ان سب چھوٹے بڑے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے ۔
قالو ا اٴانت فعلت ھٰذا بالٰھتنا یاابراھیم
( کہنے لگے : اے براہیم کیا وہ تم ہی ہو جس نے ہمارے خداوٴں کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے )؟ ۔
آپ نے انہیں ایسا جواب دیا کہ ان کےلئے بچ نہ نکلنے کی کوئی راہ نہ رہی ۔قرآن کے الفاظ میں :
قال بل فعلہ کبیرھم ھٰذا فاسئلوھم ان کانوا ینطقون
بولے :ہوسکتا ہے کہ ان کے بڑے نے یہ کام کیا ہو اگر یہ بات کرسکتے ہیں تو انہیں سے پوچھو ۔
اس ایک ہی جملہ سے آپ نے اپنے دشمنوں کے لئے تمام راستے بند کردئے ۔ اب اگر وہ کہیں کہ بت گونگے ہیں ، لب پستہ ہیں او ربا ت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ، تو ان کے گونگے اور بے عزت خدا وٴں کی کتنی رسوائی ہے اورا گر کہیں کہ یہ با ت کر سکتے ہیں تو پھر ان کے پوچھنا پڑتا او رانہیں جواب دینا پڑتا ۔
اس پر ان کا کوابیدہ وجدان جاگ اٹھا ۔ ان کے اندر آواز آئی : تم ظالم اور خود پرست ہو ، نہ اپنے اوپر رحم کرتے ہو اور نہ اپنے معاشر پر ۔
قرآن الفاظ میں :
فارجعوا الیٰ انفسھم فقالوا انھم انتم الظالمون
بہرحال جواب تو انہیں دینا ہی تھا ۔
ثم نکثو ا علی روٴسھم لقد علمت ما ھووٴلاء ِ ینطقون
بڑی بے دلی سے سر شکستہ ہو کر کہنے لگے : تم تو جانتے ہی ہو کہ یہ بات نہیں کرسکتے ۔
یہاں حضرت ابراہیم (علیه السلام) بات ان کے سر پر بجلی بن کر گری ۔
آپ نے پکار کر کہا :
اف لکم و لما تعبدون من دون اللہ افلا تعقلون
حیف ہے تم پراور ان پر کہ خدا کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو ۔ کیا گیاہے تمہاری عقلوں کو؟ ۔
آخر کا رجب انہوں نے دیکھا کہ وہ ابراہیم (علیه السلام) قوی منطق کے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتے تو انہوں پھر تمام جھوٹے سر کشوں کی طرح طاقت کا سہارا لیا اور کہنے لگے :تمہیں چاہئیے کہ انہیں جلادو:
اس کام کے لئے انہوں بت پرستوں کے جاہلانہ تعصبات سے مدد لی او رپکا رکر کہا : اگر تم میں طاقت ہے تو اسے جلا دو اور اپنے خداوٴں کی مدد کےلئے تیار ہو جاوٴ۔
”قالوا حرقوہ و انصروا الٰھتکم ان کنتم فاعلین “17
یہ ابراہیم (علیه السلام) کی رسا ،استدالالی اور قاطع منطق کا ایک نمونہ تھا ۔
۸۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ایک اعزازیہ شمار کرتا ہے کہ وہ دین ابراہیم پر ہیں 5
اور قرآن کہتا ہے کہ ان ہی نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے ۔ 6
یہاں تک کہ مسلمانوں کو شوق دلانے کے لئے ان کے چند کے احکام پر عمل در آمد کی دعوت دیتا ہے او رکہتا ہے کہ تمہیں ابراہیم او ران کے انصا رکی اقتدا کرنا چاہئیے ۔ 7
۹۔ اس عظمت و شکوہ سے مراسم حج کی بنیاد حکم الٰہی سے حضرت ابراہیم (علیه السلام) نے رکھی ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مراسم حج میں ابراہیم کا نام ، ان کے کی یاد اور ان کا ذکر موجود ہے ۔ 8
۱۰۔ ابراہیم (علیه السلام) کی شخصیت اس قدر بلند ہے کہ ہر گروہ کی کوشش تھی کہ انہیں اپنے میں سے قرار دیں ۔
یہودی اور عیسائی ابراہیم (علیه السلام) کے ساتھ اپنے تعلق پر بہت زور دیتے تھے یہاں تک کہ قرآن ان کے جواب میں یہ حقیقت بیان کرتا ہے کہ وہ ایک مسلمان اور سچے موحد تھے یعنی وہ ہر امر میں حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم تھے ، اس کے علاوہ انہیں کوئی سوچ نہ تھی اور بس اسی کی راہ میں قدم اٹھاتے تھے ۔ 9


1۔ ابراہیم بہت مہمان نواز تھے ۔ 13
2 ۔ ان کا توکل بے مثال تھا یہاں تک کہ کسی کام اور کسی مشکل میں خدا کے علاوہ کسی پر نظر نہیں رکھتے تھے ۔ جو کچھ بھی مانگتے خدا ہی سے مانگتے اور اس کے علاوہ کسی کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے تھے 15
3- شعراء ۷۸ تا ۸۲
4 ۔ کامل بن اثیر جلد ۱ ۔ ص ۹۹ ۔
5۔انبیاء ۶۳ ۔تا ۔ ۶۷۔
6۔ ملة ابیکم ابراھیم  حج ۷۸۔
7۔ ملة ابیکم ابراھیم  حج ۷۸۔
8۔ ممتحنة ۔۴۔
9۔ سورہ حج ۲۷۔
 
رسالت کا آخری مرحلہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma