بے بنیاد آرزوئیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
لمبی آروزئیں غفلت کا سبب ہیںسوره حجر / آیه 1 - 5

بے بنیاد آرزوئیں


اس سورہ کی ا بتداء میں ہمیں پھر حروف مقطعات ( الف ۔ لام ۔ راء ) کا سامنا ہے ۔ یہ حروف واضح کرتے ہیں کہ آسمانی کتاب کہ جو ساری نوع انسانی کے لئے سعاد کا راستہ کھولنے والی انہی سادہ سے حروف الف ، باء سے ترتیب پائی ہے اس کاخام مال وہی ہے جو تمام افراد بشر یہاں تک کہ دو تین سالہ بچے کے اختیار میں بھی ہے یہ انتہائی اعجاز ہے کہ ایسے مصالحہ سے اس قسم کا بے نظیر محصول بنا یا جائے ۔
لہٰذا بلا فاصلہ فرمایا گیا ہے : یہ آسمانی کتا ب اور واضح کی آیات ہیں (الر تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ وَقُرْآنٍ مُبِین) ۔
ہم جانتے ہیں کہ ”تلک “ دور کا اسم اشارہ ہے حالانکہ قاعدتاً یہاں ھٰذہ ہونا چاہئیے تھا ( کہ جو نزدیک کے لئے اسم اشارہ ہے ) لیکن جیسا ہ ہم کہہ چکے ہیں کہ عربی ادب میں ( بلکہ فارسی ادب میں بھی )بعض اوقات کسی عظمت بیان کرنے کے لئے دو کے اسم اشارہ سے استفادہ کیا جاتا ہے  یعنی اس کی وہ عظمت ہے کہ گویا ہم سے بہت دور آسمانوں کے فاصلے پرہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے بعض اوقات ایک بزرگ شخص کی موجودگی میں ہم کہتے ہیں کہ اگرآنجناب اجازت دیں تو ہم فلاںاقدام کریں یہاں ”آں“ (وہ ) کا لفظ ا س کے مقام کی عظمت بیان کرنے کے لئے ہے جیسا کہ ”نکرہ“ کی صورت میں قرآن کا ذکر بھی بیان ِ عظمت کے لئے ہے ۔
بہر حال ”کتاب “ کے بعد لفط ”قرآن “ کا آنا در حقیقت تاکید کے عنوان سے ہے اور لفظ ”مبین “ کے ذریعے اس کی توصیف اس لئے کی گئی ہے کیونکہ حقائق کو بیان کرنے والا اور حق کو باطل سے جدا کرکے واضح طور پر پیش کرنے والا ہے ۔
یہ جو بعض مفسرین نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ لفظ ” کتاب “ یہاں تورات اور انجیل کی طرف اشارہ ہے ۔ بہت بعید معلوم ہوتا ہے ۔
اس کے بعد ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جو ان واضح خدائی آیات کے بارے میں ہٹ دھرمی اور مخالفت میں اصرار کرتے ہیں ۔ فرمایا گیا ہے : ایک دن ایسا آئے گا کہ یہ لوگ اپنے منحوس کفر، اندھے تعصب اورہٹ دھرمی پرپشیمان ہوں گے اور ”کبھی یہ کار آرزو کریں گے کہ اے کاش ہم مسلمان ہوتے “ ( رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ کَانُوا مُسْلِمِینَ ) ۔
جیسا کہ تفسیر المیزان میں ہے ؛ ”یود“ ( دوست رکھتا ہے ) سے مراد پسند کرنا، تمنا کرنا اور آرزو کرنا ہے اورلفظ”لو“ کا ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اسلام کی آرزو ایسے زمانے میں کریں گے جب وہ اس کی طرف نہیں آسکتے ہوں گے اور یہ خود اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ اس کی تمنا اور آرزو دوسرے جہان میں اپنے اعمال کے نتائج دیکھنے کے بعد کریں گے ۔
حضرت صادق علیہ السلام سے اس سلسلہ میں منقول حدیث بھی اسی معنی کی تائید کرتی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں :
ینادی مناد یوم القیامة یسمع الخلائق انہ لا ید خل الجنة الا مسلم فثم یود سائر الخلائق انھم کانوا مسلمین
جب قیامت کا دن ہوگا تو کوئی اس طرح پکارے گا کہ تمام مخلوق ا س کی آواز سنے گی ، وہ کہے گا : (آج) جنت میں ان لوگوں کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوگا کہ جو اسلام لاچکے ہیں اس وقت سب لوگ آرزو اور تمنا کریں گے کہ اے کاش ہم مسلمان ہوتے ۔ ۱
نیز عظیم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے منقول ہے :
جس وقت دوزخی جہنم میں جمع ہوں گے اور مسلمانوں کے ایک گنہ گار گروہ کو ان کے ساتھ رکھا جائے گا تو کفار مسلمانون سے کہیں گے کہ کیا تم مسلمان نہیں تھے ۔ وہ جواب دیں گے کہ تھے تو سہی ۔ تو وہ کہیں گے کہ پھر تمہارا اسلام بھی تمہارے لئے فائدہ مند نہ ہوا ۔ کیونکہ تم بھی ہمارے ساتھ ایک ہی جگہ پر ہو ۔ وہ جواب دیں گے کہ ہم نے( بہت بڑے )گناہ کئے تھے کہ جن کے باعث ہم اس انجام کو پہنچے ہیں ( گناہ اور تقصیر کا یہ اعتراف اور دشمن کی وہ سر زنش سبب بنے گی کہ ) خدا وند عالم حکم دے گا کہ ہر وہ باایمان مسلمان کہ جوجہنم میں ہے اسے باہر نکالو ۔ تو اس وقت کفار کہیں گے کہ اے کاش ہم بھی اسلام لائے ہوتے۔ ۲
 تفسیر طبرسی میں بی اسی مضمون کی چند احادیث زیر بحث آیت کے ذیل میں نقل ہوئی ہیں ۔
آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ کافروں میں ایسے افراد بھی ہیں کہ جن کا ضمیر ابھی بیدار ہے اور جب وہ پیغمبر ِ اسلام کی دعوت کو سنتے ہیں اور کتاب مبین کی آیات کے ان پیارے مضامین کو دیکھتے ہیں تو دل کی گہرائیوں سے ان کے گر ویدہ ہو جاتے ہیں اور آرزو کرتے ہیں کہ اے کاش ہم بھی اسلام لائے ہوتے ۔ لیکن تعصب ، ہٹ دھرمی یا مادی مفادات انھیں اجازت نہیں دیتے کہ اس عظیم حقیقت کو قبول کرلیں لہٰذاوہ اسی طرح کفر اور بے ایمانی کے قید خانے میں محصور رہ جاتے ہیں ۔
ہمارا ایک صاحب ایمان اور مجاہد دوست یورپ گیا تھا ۔ وہ بیان کرتا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے اسلام کی خوبیان ایک عیسائی کے سامنے شما کیں وہ ایک منصف مزاج آدمی تھا اس نے جواب میں کہا: میں شچ مچ تمہیں مبارکباد دیتا ہوں کہ ہم اس قسم کے مذہب کے پیروکار ہو ۔ لیکن میں کیا کرو ں، میری زندگی کے حالات اجازت نہیں دیتے کہ میں اپنے مذہب سے دست بردار ہوجاوٴں ۔
یہ بات ضاذب نظر ہے کہ بعض اسلامی روایات میں ہے کہ جس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قاصد آنحضرت کا خط لے کر قیصر روم کے پاس پہنچا تو اس نے خصوصیت کے ساتھ آپ کے قاصد کے سامنے اظہار ایمان کیا یہاں تک کہ وہ رومیوں کو اس دین توحید و اسلام کی دعوت دیتا چاہتا تھا ۔ اس نے سوچا کہ پہلے ان کی آزمائش کی جائے جن اس کی فوج نے محسوس کیاکہ وہ عیسائیت کو ترک کردینا چاہتا ہے ۔ تو اس نے اس کے قصر کا محاصرہ کرلیا ۔ قیصر نے ان سے فوراً کہاکہ میں تمہیں آزمانا چاہتا تھا اپنی جگہ واپس جاوٴ۔
اس کے بعد اس نے رسول اللہ کے قاصد سے کہا : میں جانتا ہوں کہ تمہارا پیغمبر خدا کی طرف سے ہے اور وہی ہے جس کے ہم نتظر تھے لیکن میں کیا کروں کہ میں ڈرتا ہوں کہ میری حکومت ہاتھ سے نکل جائے گی اور میری جان بھی خبرے میں ہے ۔ 3
توجہ رہے کہ ان دونوں تفسیروں میں آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ او رممکن ہے آیت کا اشارہ اس جہان میں بھی کفارے بعض گروہوں کی پشیمانی کی طرف ہواور اس جہان میں بھی ۔ جب کہ وہ مختلف حوالوں سے اس جہان میں لوٹ آنے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ اس جہان میں ( غور کیجئے گا) ۔
اس کے بعد قرآن بہت سر زنش کے لہجہ میں کہتا ہے : اے پیغمبر ! انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دے ( تاکہ چوپایوں کی طرح )کھاتے پھریں ۔ اس ناپائیدار زندگی کی لذتیں حاصل کرلیں اور آرزوئیں انھیں اس عظیم حقیقت سے غافل کردیں لیکن یہ بہت جلدی سمجھ جائیں گے ( ذَرْھُمْ یَاٴْکُلُوا وَیَتَمَتَّعُوا وَیُلْھِھِمْ الْاٴَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ) ۔چونکہ یہ تو جانور ہیں جو اپنے اصطبل ، گھاس پھوس اور مادی لذّات کے سوا کچھ نہیں سمجھتے اور ان کی حرکتیںبس انہی چیزوں کے لئے ہیں ۔
غرور ، غفلت اور لمبی آرزوٴں نے ان کے دلوں پر اس طرح سے پر دہ ڈال رکھا ہے اور انھیں اپنے میں ایسا مگن کر رکھا ہے کہ اب وہ ادراکِ حقیقت کی قدرت نہیں رکھتے ۔لیکن جب اجل کا طمانچہ ان کے منہ پر لگا ، غرور غفلت کے پردے ان کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹے اور انہوں نے اپنے آپ کو ااستانہٴ موت پر یا عرصہٴ قیامت میں پایا تو اس وقت سمجھیں گے کہ کس قدر غفلت میں تھے، کسی قدر زیاں کا اور بدبخت تھے اور کس طر ح انہوں نے اپنا قیمتی ترین سرمایہ خود اپنے ہاتھوں گنوا دیا ہے ۔
بعد والی آیت میں ، اس بناء پر کہیں وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ مہلت اور لذائذ ِدنیا سے بہرہ دری کا سلسلہ ختم ہو نے والا نہیں ، مزید ارشاد ہوتا ہے : ہم نے کسی گروہ کو کسی شہر میں نابود نہیں کیا مگر یہ کہ وہ اجلِ معین اور تغیرنا پذیر دور رکھتے تھے ۔
( وَمَا اٴَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَةٍ إِلاَّ وَلَھَا کِتَابٌ مَعْلُومٌ ) ۔
”کوئی امت اور جمیعت اپنی اجل معین سے تجاوز نہیں کرسکتی اور نہ کوئی پیچھے رہ سکتی ہے “ ( مَاتَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَھَا وَمَا یَسْتَاخِرُوْنَ) ۔
ہر جگہ یہی سنت الٰہی کار فرما رہی ہے کہ اس نے جدید نظر ، بیداری اور آگاہی کے لئے کافی مہلت دی ۔ اس نے دردناک حوادث سے بھی دور چار کیا اور وسائل ِ رحمت سے بھی نواز ۔ اس نے ڈرایا بھی اور شوق بھی دلا یا ۔وہ خطرے سے خبر دار کرتا ہے تاکہ سب پر حجت تمام ہو جائے ۔
مگر جب یہ مہلت تمام ہوتی ہے تو حتمی انجام انھیں آلیتا ہے ۔ دیر اور جلدی کا تربیتی مصالح کی خاطر ممکن ہے لیکن 
کیا اسی حقیقت کی طرف توجہ کافی نہیں ہے تاکہ سب کے سب گذشتہ لوگوں کی سر نوشت سے عبرت حاصل کریں ، اور خدائی مہلت سے باز گشت اور اصلاح کے لئے استفادہ کریں کیا اب ہمیں بیٹھا رہنا چاہئیے تاکہ گذشتہ گمر اہ اور ظالم قوموں کا سا برا انجام ہمارے لئے بھی دہرایا جائے ۔ اور بجائے اس کے کہ ہم گذشتہ لوگوں سے عبرت حاصل کریں ، آنے والوں کے لئے عبرت بن جائیں ۔
ضمنی طور پر آخری دو آیات سے آیات ِ قرآن میں اور خود زیر بحث سورت میں گذشتہ لوگوں کی تاریخ بیان کرنے کا مقصد واضح ہو جائے ۔


* * *



۱۔مجمع البیان اور نور الثقلین میں یہ روایت محل بحث آیت کے ذیل میں عیاشی کے حوالے سے درج کی گئی ہے ۔
۲۔ مجمع البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔ نیز فخر رازی اپنی تفسیر میں اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث نقل کی ہے ( البتہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ )
3۔ مکاتیب الرسول جلد ۱ ص ۱۱۲۔
لمبی آروزئیں غفلت کا سبب ہیںسوره حجر / آیه 1 - 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma