پھر وہی بہانے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
”ما منع الناس“ اور ملائکة یمشون مطمئنین“ کا مفہومسوره اسراء / آیه 94 - 95

پھر وہی بہانے


گزشتہ آیات میں توحید کے بارے میں مشرکین کی بہانہ تراشیوں کے حوالے سے گفتگو کی گئی تھی زیرِ بحث آیات میں بھی ان سے ملتے جلتے ایک بہانے کا ذکر کیا گیاہے، ارشاد ہوتا ہے:ہدایت آجانے کے بعد وہ تنہا چیز جو لوگوں کے ایمان لانے میں حائل ہوئی یہ تھی کہ کہتے تھے کہ خدا نے انسان کو نبی بنا کر کیوں بھیجاہے ( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اٴَنْ یُؤْمِنُوا إِذْ جَائَھُمَ الْھُدیٰ إِلاَّ اٴَنْ قَالُوا اٴَبَعَثَ اللهُ بَشَرًا رَسُولًا
وہ کہتے کی کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ یہ بلند مقام اور بہت اہم منصب کسی انسان کے سپرد کیا جائے ، یہ عظیم رسالت کسی افضل مخلوق مثلا فرشتوں کے سپرد کیوں نہ ہوتا کہ وہ اس سے اچھی طرح سے عہدہ برآ ہوں، خاکی انسان کہاں اور رسلات الٰہی کہاں ، اس مقام کے اہلِ افلاک کے باسی ہیں نا کہ خاکی انسان۔
یہ کمزور سی منطق کسی ایک یا دو گروہوں نے ہی پیش نہیںکی بلکہ پوری تاریخ میں اکثر بے ایمان افراد نے انبیاء کے سامنے یہ بات کی ۔
قومِ نوح،اس عظیم پیغمبر کی مخالفت میں کہتی تھی:
< مَا ھٰذَا إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُکُمْ۔
یہ تو ہماری طرح کا ایک انسان ہے ۔(مومنون:۲۴)
حضرت ہود (علیه السلام) کی بے ایمان قوم کہتی تھی۔
<مَا ھٰذَا إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یَاٴْکُلُ مِمَّا تَاٴْکُلُونَ مِنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ
یہ تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہے، جو کچھ تم کھاتے ہو یہ بھی کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو یہ بھی پیتا ہے ۔(مومنون:۳۳)
یہاں تک کہ وہ یہ بھی کہہ گزرتے:
< وَلَئِنْ اٴَطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَکُمْ إِنَّکُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ۔
اگر تم نے اپنے جیسے بشر کی اطاعت کی تو نقصان اٹھاؤ گے ۔(مومنون:۳۴)
بعینہ یہی اعتراض پیغمبر اسلام ﷺپر بھی کیا جاتا تھا، مخالفین ہتے تھے ۔
<مَالِ ھٰذَا الرَّسُولِ یَاٴْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِی فِی الْاٴَسْوَاقِ لَوْلَااٴُنزِلَ إِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُونَ مَعَہُ نَذِیرًا
یہ رسول کھاتا پیتا کیوں ہے اور بازاروں میں کیوں چلتا پھرتا ہے، کم از کم اس کے ساتھ ایک فرشتہ کیوں نازل نہیں ہوا جو اس کے ساتھ مل کر لوگوں کو ڈراتا(فرقان:۷)
قرآن ایک نہایت مختصر سا معنی خیز اور واضح جواب دیتا ہے :کہہ دو اگر روئے زمین پر فرشتے ہوتے کہ جو آراموسکون سے رہ رہے ہوتے تو ہم ان پر آسما ن سے فرشتے کو پیغمبر کے طور پرنازل کرتے( قُلْ لَوْ کَانَ فِی الْاٴَرْضِ مَلَائِکَةٌ یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَسُولاً
یعنی رہبرہمیشہ اس نوع میں سے ہونا چاہیئے جس میں اس کے پیروکار ہوں، انسان انسانوں کے لئے اور فرشتہ فرشتوں کے لئے، رہبر اور پیروکاروں کے ایک جیسے ہونے پر دلیل بھی واضح ہے کیونکہ کسی رہبر کی تبلیغ کا اہم ترین حصہ اس کی عملی تبلیغ ہے، ایس کو نمونہ اور اسوہ ہونا چاہیئے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ وہی احساسات وجذبات اور طبیعت وفطرت رکھتا ہواور اس کی جسمانی وروحانی ساخت بھی وہی ہو، ایک فرشتہ کہ جو شہوتِ جنسی سے پاک ہوتا ہے ، جسے مکان کی ضروت ہے نہ لباس کی اور جو غذا کی احتیاج بھی نہ رکھتا ہو اور جس میں انسانی مزاج اور غرئض کی باقہی چیزیں بھی موجود نہیں وہ انسانوں کے کے لئے نمونہ اور اسوہ کیسے بن سکتا ہے بلکہ وہ رہبر ہو تو لوگ کہیں کہ اسے ہمارے دل کی کیا خبر؟ اسے کیا معلوم کہ ہماری روح پر شہوت اور غضب کس طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں، وہ تو صرف اپنے دل کی بات کرتا ہے، اس کے احساسات وجذبات ہماری طرح کے ہوتے تو وہ ہم جیسا ہی ہوتا یا ہم سے بھی برتر، لہٰذا اس کی باتوں کی کیااہمیت ہے ۔
لیکن جب علی علیہ السلام جیسا ہادی کہے:
انما ھی نفسی اروضھا بالتقویٰ لتاتی اٰمنة یوم الخوف الاکبر۔(۱)
میرا نفس بھی تمہاری طرح کا ہے لیکن مَیں نے اسے تقوی ٰ کی لگام دی ہے تاکہ روزِ قیامت امن میں رہے ۔
دوسری طرف رہبر ایسا ہونا چاہیئے کہ جو اپنے پیروکاروں کی مشکلات، احتیاجات اور خواہشات کو اچھی طرح سے سمجھ سکے تاکہ ان کے حل اور انہیں پورا کرنے کے لئے آمادہ رہے، اور اس مصرعے کا مصداق نہ بنے:
آگہ نئی از حال من مشکل ہمین است
مشکل یہ ہے کہ تجھے میری حالت کی خبر ہی نہیں ۔
خاص طور پر یہی وجہ ہے کہ انبیاء عام انسانوں میں سے تھے اور انہوں نے عموماً نہایت اور مشکل اور کٹھن زندگی گزاری ہوتی تھی، یہ اس لئے تھا تاکہ وہ زندگی کی تمام تلخیوں کو چکھیں اور دردناک حقیقتوں کو چھوئیں اور ان کے ھل کے لئے اپنے آپ کوتیار کریں ۔

 

 

 


۱۔ نہج البلاغہ، نامہ۴۵
”ما منع الناس“ اور ملائکة یمشون مطمئنین“ کا مفہومسوره اسراء / آیه 94 - 95
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma