”ما منع الناس“ اور ملائکة یمشون مطمئنین“ کا مفہوم

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره اسراء / آیه 96 - 97 پھر وہی بہانے


۱۔ ”ما منع الناس“ کا مفہوم:


یہ جملہ کہتا ہے کہ ان کے ایمان کے لئے واحد رکاوٹ ان کی یہی بنانہ جوئی تھی البتہ یہ تعبیر انحصار کی دلیل نہیں ہے بلکہ مسئلے کی اہمیت کے اظہار کے لئے اور تاکید کے طور پر ہے ۔


۲۔ ”ملائکة یمشون مطمئنین“ کا مفہوم:


اس کے بارے میں مفسرین نے بحث کی ہے اور انھوں نے اس کی متعدد تفسیریں بیان کی ہیں ۔
بعض نے اسے زمانہ جاہلیت کے عربوں کی گفتگو کی طرف اشارہ سمجھا ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ ہم اس جزیرہ میں رہتے تھے اور اطمینان کی زندگی بسر کررہے تھے ۔ محمد (ص) آیا اس نے ہمارا امن و سکون تباہ کردیا ۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر فرشتے بھی اس طرح کے امن و سکون سے زمین میں رہ رہے ہوتے تو ہم انہی کی نوع میں سے ان کے لیے پیغمبر بھیجتے ۔
بعض دیگر نے کہا ہے کہ اس سے مراد دنیا اور اس کی لذات پر مطمئن ہونا ہر دین و مذہب سے لا تعلق ہونا ہے ۔
بعض نے اس سے زمین میں ”سکونت و توطن“ مراد لیا ہے ۔
البتہ یہ احتمال قوی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد ہ ہے کہ اگر فرشتے بھی زمین میں بس رہے ہوتے اور زندگی تصادم، دشمنی اور کشمکش سے پاک ہوتی پھر بھی ان کی اپنی نوع سے ایک رہبر کی ضرورت ہوتی کیونکہ انبیاء کو فقط بے سکونی اور بے اطمینانی ختم کرنے کے لیے اور آرام و سکون پیدا کرنے کے لیے نہیں بھیجا جاتا بلکہ یہ سب کچھ تو تکامل و ارتقاء کا مقدمہ ہے اور مختلف پہلوؤں سے روحانی و انسانی تربیت کی تمہید ہے اصل اس کام کے لیے خدائی رہبر کی ضرورت ہے ۔


۳۔ لفظ ”ارض“ سے ایک استفادہ:


زیر نظر آیت میں جو لفظ ”ارض“ آیا ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں:
روئے زمین پر مادی زنگی کا مزاج وجودِ پیغمبر کا محتاج ہے اور اس کے بغیر زندگی ہرگز پنپ نہیں سکتی ۔
علاوہ ازیں علامہ طباطبائی اس لفظ کو زمین کی کشش ثقل کی طرف ایک لطیف اشارہ سمجھتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر امن سکون و اطمینان سے چلا پھر ا نہیں جاسکتا ۔

سوره اسراء / آیه 96 - 97 پھر وہی بہانے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma