پاک دل غریب لوگ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
۱۔ طبقاتی تفاوت۔ معاشرے کی عظیم مشکل ہےشان نزول

پاک دل غریب لوگ

اصحاب کہف کے واقعے نے ہمیں جو بہت سے درس دیئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسانوں کی قدر و قیمت کا معیار منصب، ظاہری مقام اور دولت و ثروت نہیں ہے ۔ الله کی راہ میں وزیر اور چرواہا ایک ہی صف میں ہیں ۔ زیر بحث آیات میں در حقیقت اسی اہم مسئلے کا ذکر ہے ۔ ان میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کوحکم دیا گیا ہے: ان افراد کے ساتھ رہو کہ جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور صرف اسی کی پاک ذات کے طلبگار ہیں(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْھَہُ) ۔
”وَاصْبِرْ نَفْسَکَ“(اپنے آپ کو صابر بنا) ۔ یہ تعبیر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ رسول اللہ پر مستکبر دشمنوں اور بُرے اشراف کی طرف سے دباؤ تھا کہ غریب و فقیر مومنین کو اپنی بارگاہ سے دور کردیں لہٰذا اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اس دباؤ کے مقابلے میں صبر و استقامت اختیار کرو اور ہرگز ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرو ۔
”صبح و شام“کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ وہ ہر حالت میں اور زندگی بھر یادِ خدا میں محو رہتے ہیں ۔
”یُرِیدُونَ وَجْھَہُ“(وہ اس کی ذات کے طلب گار ہیں) ۔ یہ تعبیر ان کے خلوص اور اخلاص کی دلیل ہے ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ خدا سے صرف اسی کو چاہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ بہشت کی نعمتیں اگر چہ بہت عظیم ہیں مگر وہ اس کی خاطر اللہ کی بندگی نہیں کرتے اور جہنم کا غذاب اگر چہ بہت درد ناک ہے لیکن وہ اس کے خوف سے عبادتِ الٰہی نہیں کرتے بلکہ صرف اس کی پاک ذات کی خاطر اس کی پرستش کرتے ہیں ۔ ان کے دل کی آواز تو بس یہ ہے:
ما از تو بغیر از تو نداریم تمنا
ہم تجھ سے تیرے علاوہ کوئی تمنا نہیں رکھتے ۔
اور یہ اللہ کی اطاعت، اس بندگی، اس کے عشق اور اس پر ایمان کا اعلےٰ ترین درجہ ہے ۔(۱)
اس کے بعد تاکید کے طور پر گفتگو جاری ہے: یہ ایمان کہ جو ظاہراً فقیر سے ہیں، ان سے ہرگز اپنی آنکھیں نہ پھیرو اور دنیا کی زینتوں کی خاطر خدا سے بے خبر ان مستکبرین کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ یکھو (وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْھُمْ تُرِیدُ زِینَةَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا) ۔(۲)
مزید تاکید کے لیے فرمایا گیا ہے: اور جن کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے ان کی اطاعت نہ کرو (وَلَاتُطِعْ مَنْ اٴَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا) ۔ ان کی کہ جنھوں نے ہوائے نفس کی پیروی کی ہے (وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ) ۔وہی کہ جن کے سارے کام افراط پر مبنی ہیں ۔ جو سوچ بچار اور غور و فکر سے کام نہیں لیتے اور جن کے کام حد سے بڑھے ہوئے ہیں (وَکَانَ اٴَمْرُہُ فُرُطًا) ۔(۳)

یہ بات جاذب نظر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کی صفات کو ایک دوسرے کے مدِّ مقابل رکھ دیا ہے ۔
حقیقی مومنین۔ کہ جو تہی دست ہیں ۔ ان کے دل عشق خدا سے سرشار ہیں ۔ وہ ہمیشہ اس کی یاد میں محور ہتے ہیں اور اس سے فقط اس کے طلبگار ہیں ۔
لیکن دولت مند مستکبر یادِ خدا سے بالکل غافل ہیں ۔ ہوائے نفس کے علاوہ ان کی کوئی طلب نہیں ۔ ان کے سارے کام اعتدال کی حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور وہ افراط و تجاوز سے کام لیتے ہیں ۔
مذکورہ موضوع کی اس قدر اہمیت ہے کہ اگلی آیت میں قرآن صراحت کے ساتھ رسول الله سے کہتا ہے: کہدو کہ میرا تو یہ طریقِ کار ہے اور یہ تمھارے پروردگار کی طرف سے ایک حقیقت ہے جو چا ہے ایمان لے آئے اور اس حقیقت کو قبول کر لے اور جو چاہے کافر ہوجائے

( وَقُلْ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ) ۔
لیکن یہ جان لو کہ یہ دنیا پرست ظالم کہ جو اپنی دنیا وی زندگی اور اس کی زیب و زینت پر اتراتے ہوئے سلمان و ابوذر جیسے لوگوں کے کھردرے لباس کا مذاق اڑاتے ہیں ان کا انجام بہت برا اور تاریک ہے کیونکہ ”ہم نے ان ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے کہ جس کے بلند خیموں نے چاروں طرف سے انھیں گھیر رکھا ہے “(إِنَّا اٴَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِینَ نَارًا اٴَحَاطَ بِھِمْ سُرَادِقُھَا) ۔
جی ہاں! وہ جب اس دنیاوی زندگی میں پیاسے ہوتے تو آواز دیتے اور خدام طرح طرح کے مشروبات ان کے سامنے لا حاضر کرتے لیکن ”جہنم میں جب وہ پانی مانگیں گے انھیں ایسا پانی پیش کیا جائے گا جو ایسی پگھلی ہوئی دھات کی مانند ہوگا کہ اگر چہرے کے قریب ہو تو اسے بھون دے“۔ (وَإِنْ یَسْتَغِیثُوا یُغَاثُوا بِمَاءٍ کَالْمُھْلِ یَشْوِی الْوُجُوہَ) ۔(4) یہ پینے کی کیا بری چیز ہے (بِئْسَ الشَّرَابُ) ۔ اور دوزخ کتنا برا ٹھکانا ہے (وَسَائَتْ مُرْتَفَقًا) ۔(5)
غور کیجئے ۔ وہ پانی کہ جو چہرے کے قریب ہو تو اسے بھون دے، کیا پینے کے قابل ہے؟ یہ اس بناپر ہے کہ یہ لوگ دنیا میں اچھے اچھے مشروبات پیا کرتے تھے جبکہ محروم اور مستضعف لوگوں کے دلوں کو جلایا کرتے تھے ۔ اب یہ وہی آگ ہے جس نے یہ جسمانی شکل اختیار کرلی ہے ۔
عجیب بات یہ ہے کہ قرآن نے یہاں دولت مندوں اور ظالم و بے ایمان مفاد پرستوں کے لیے جہنم میں بھی اس جہاں کے تکلفات کا ذکر کیا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ دنیا میں دولت مندوں کے جو ”سرادق“یعنی بلند خیمے (یہ لفظ فارسی کے لفظ ”سراپردہ“سے لیا گیا ہے) ہوتے ہیں ان میں غریبوں کا کوئی گزر نہیں ۔ یہاں یہ امیروں کے عیش و نوش اور بادہ گساری کے لیے ہوتے ہیں لیکن وہاں ان کے بلند خیمے ”دوزخ کے بلند بھڑکتے ہوئے شعلے“ ہیں ۔ یہاں ان کے عیش کدوں میں طرح طرح کے مشروبات ہیں اور جب وہ ساقی کو آواز دیتے ہیں تو وہ شراب کے رنگارنگ جام ان کے سامنے لا حاضر کرتے ہیں ۔ دوزخ میں بھی ان کے لئے ساقی اور مشروبات موجود ہیں ۔ لیکن وہاں کا مشروب پگھلی ہوئی دھات کی مانند ہوگا ۔ یتیموں کے اشکِ سوزان اور محتاجوں کی آہِ آتشیں سے ابلتا ہوا پانی ۔
جی ہاں وہاں جو کچھ ہے وہ یہاں کی کیفیتوں کا تجسّم ہے (پناہ بخدا) ۔
قرآنِ حکیم کی روش چونکہ تطبیقی اور ترتیبی ہے لہٰذا خود غرض دنیا پرستوں کے اوصاف اور ان کا کیفرِ کردار بیان کرنے کے بعد حقیقی مومنین کی حالت اور ان کا انتہائی زیاہ اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے ۔ پہلے مختصر طور پر اور پھر ذرا تفصیل سے ارشاد ہوتا ہے: وہ کہ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے ہم ان نیکوکاروں کا اجر و ثواب ضائع نہیں کریں گے (إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَانُضِیعُ اٴَجْرَ مَنْ اٴَحْسَنَ عَمَلًا) ۔ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جنّاتِ جاوداں ان کے لیے ہیں (اٴُوْلٰئِکَ لَھُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ) ۔وہ باغاتِ بہشت کہ جن کے درختوں تلے نہریں رواں ہیں (تَجْرِی مِنْ تَحْتِھِمْ الْاٴَنْھَارُ) ۔ وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ ہوں گے (یُحَلَّوْنَ فِیھَا مِنْ اٴَسَاوِرَ مِنْ ذَھَبٍ) ۔(6) اور وہ سبز رنگ کے نازک دبیز ریشم کے فاخرہ لباس زیبِ تن کیے ہوں گے (وَیَلْبَسُونَ ثِیَابًا خُضْرًا مِنْ سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ) ۔ جبکہ وہ تختوں اور کرسیوں پر تکیہ لگائے ہوں گے (مُتَّکِئِینَ فِیھَا عَلَی الْاٴَرَائِکِ) ۔(7)
واہ کیا کہنا! کیا اچھی چیز ہے (نِعْمَ الثَّوَابُ) ۔
اور دوستوں کا کیسا اچھا اکٹھ ہے (وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا) ۔

 


 

۱۔ ”وجہ“کبھی ”ذات“کے معنی میں آتا ہے اور کبھی ”چہرے“کے معنی میں ۔ اس قسم کے مواقع پر اس لفظ کے انتخاب کے بارے میں ہم تفسیر نمونہ جلد ۲ ص ۲۰۵ (اردو ترجمہ)پر تفصیلی بحث کرچکے ہیں ۔
۲۔ ”َلَاتَعْد“ ”عدا یعدوا“ کے مادہ سے تجاوز کرنے کے معنی میں ہے لہٰذا جملے کا مفہوم یہ ہوگا ”ان سے آنکھیں ہی نہ ہٹا کہ دوسرے پر نگاہ پڑے“۔
۳۔ ”فرط“حد سے تجاوز کرنے کے معنی میں ہے اور ہر وہ چیز جو اپنی حد سے نکل کر اسراف ہوجائے اسے ”فرط“کہتے ہیں ۔
4۔ ”مُہل“(بروزن ”قفل“) ۔ جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے تہ نشین تیل کو کہتے ہیں کہ جو عام طور پر گندا، کثیف، گاڑھا اور بدذائقہ ہوتا ہے لیکن بعض مفسروں نے اس لفظ سے ہر قسم کی پگھلی ہوئی دھات مراد لیا ہے اور ”یشوی الوجوہ“(چہروں کو بھون دیتا ہے)یہ تعبیر دوسرے معنی کی تائید کرتی ہے ۔
5۔ ”مرتفق“”رفق“ اور ”رفیق“کے مادہ سے ہے ۔ اس سے دوستوں کے جمع ہونے کی جگہ مراد ہے ۔
6۔ ”اساور“ ،”اسورہ“ (بروزن ”مَشورہ“) کی جمع ہے اور خود ”اسورہ“(بروزن ”غبار“ اور ”کتاب“)کی جمع ہے ۔ اصل میں یہ فارسی لفظ ہستوار (کنگن) سے لیا گیا ہے ۔ اسے عربی میں ڈھالنے کے بعد اس سے عربی کے فصل بھی مشتق ہوئے ہیں ۔
7۔ ”ارائک“، ”اریکة“ کی جمع ہے ۔ یہ اس تخت کو کہتے ہیں جو چاروں طرف سے سائبان کی طرح ڈھانپا گیا ہو ۔ راغب کے بقول یہ اصل میں ”اراک“سے ہے جو ایک مشہور درخت (پیلو)کا نام ہے، سے لیا گیا ہے کیونکہ عرب بعض اوقات اس درخت سے ایک خاص طرح کا سائبان بناتے تھے ۔ یا یہ لفظ ”اروک“سے لیا گیا ہے کہ جو اقامت اور توقف کرنے کے معنی میں ہے ۔
۱۔ طبقاتی تفاوت۔ معاشرے کی عظیم مشکل ہےشان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma