۱۔ کیا شیطان فرشتہ تھا؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
۲۔ گمراہوں کو تعاون کی دعوت نہیں دینا چاہئیے شیطانوں کو اپنا سر پرست نہ بناؤ

۱۔ کیا شیطان فرشتہ تھا؟


ہم جانتے ہیں کہ فرشتے معصوم ہیں ۔ قرآن نے ان کی پاکیزگی اور عصمت کا ذکر کیا ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے:
<بَلْ عِبَادٌ مُکْرَمُونَ ، لَایَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاٴَمْرِہِ یَعْمَلُونَ
وہ خدا کے محترم و مکرم بندے ہیں ۔ کسی بات میں اس پر سبقت نہیں کرتے اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں ۔(انبیاء۲۶،۲۷)
اصولی طور پر ان کے جوہر میں عقل ہے اور شہوت نہیں ہے لہٰذا تکبر، خود پرستی اور گناہ پر اکسانے والی کوئی چیز ان میں نہیں ہے ۔
مندرجہ بالا آیات میں کہا گیا ہے کہ ابلیس کے سوا سب فرشتوں نے سجدہ کیا ۔ اسی طرح کا ذکر دوسری آیات میں بھی ہے ۔اس استثناء سے یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا جبکہ اس کی نافرمانی اور سرکشی پر نظر کی جائے تو یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی فرشتہ گناہان کبیرہ کا مرتکب ہو ۔
خصوصاً جبکہ نہج البلاغہ کے بعض خطبات میں بھی ہے کہ:-
(ما کان الله سبحانہ لیدخل الجنة بشرا با امرا خرج بہ منھا ملکا)
ہر گز ممکن نہیں ہے کہ الله انسان کو ایسا کام کرنے پر بہشت میں بھیج دے جیسا کام کرنے پر اس نے ایک فرشتے کو بہشت سے نکال دیا تھا
یہ ابلیس کے غرور کی طرف اشارہ ہے ۔
زیر نظر آیات نے اس سوال کو حل کردیا ہے ۔ ارشاد ہواتاہے:
”کان من الجن“
ابلیس جنوں کے گروہ میں سے تھا ۔
جن ایسے موجودات ہیں جو ہماری نظروں سے پنہان ہیں ۔ وہ عقل و شعور بھی رکھتے ہیں اور شہوت و غضب بھی ۔ ہم جانتے ہیں کہ لفظ ”جنّ“ قرآن میں جہاں کہیں بھی آیا ہے اسی مخلوق کی طرف اشارہ ہے ۔
بعض مفسرین کہ جن کا نظریہ ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا وہ زیر بحث آیت میں آنے والے لفظ”جنّ “ کا لغوی معنی لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”کان من الجن“سے مراد یہ ہے کہ ابلیس دیگر فرشتوں کی طرح نظروں سے پنہاں تھا ۔ حالانکہ یہ معنی بالکل خلاف ظاہرِ قرآن ہے ۔
ہماری دعویٰ کے ثبوت میں سے واضح دلیل یہ ہے کہ قرآن ایک طرف سے کہتا ہے:
<وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ
جنّ کوہم نے آگ کے مخلوق شعلے سے پیدا کیا(رحمٰن۔۱۵)
دوسری طرف سے جس وقت ابلیس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو اس سر کشی کے لیے یہ منطق پیش کی:
<خَلَقْتَنِی مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَہُ مِنْ طِینٍ
میری تخلیق تو نے آگ سے کی اور اسے تو نے مٹی سے بنایا ہے ۔(اعراف۔۱۲)
اس سے قطع نظر بحث آیات میں ابلیس کی”ذریہ“(اولاد)کا ذکر ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ فرشتوں کے ہاں اولاد نہیں ہوتی ۔
جو کچھ کہا گیا ہے اسے ملحوظ نظر رکھا جائے اور فرشتوں کے جوہر ساخت کو بھی پیش نگاہ رکھا جائے تو مجموعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابلیس ہرگز فرشتہ نہیں تھا لیکن چونکہ ان کی صف میں شامل ہو گیا تھا اور اس نے الله کی اتنی عبادت کی تھی کہ مقربِ خدا، فرشتوں کے مقام تک جا پہنچا تھا لہٰذا جب آدم کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا تو وہ بھی شامل تھا ۔ اس لیے آیاتِ قرآن میں اس کی نافرمانی کا ذکر استثناء کی صورت میں آیا ہے نیز خطبہ قاصعہ میں اسے ”ملک“ مجازی طور پر کہا گیا ہے(غور کیجیے گا) ۔
”عیون الخبار“ میں امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے منقول ہے:سب فرشتے معصوم ہیں اور لطف پروردگار سے کفر اور برائیوں سے محفوظ ہیں ۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا:تو کیا ابلیس فرشتہ نہیں تھا؟
امام نے فرمایا:نہیں جنّوں میں سے تھا ۔ کیا تو نے ا لله کا یہ ارشاد نہیں اسنا کہ وہ فرماتا ہے:
<وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِاسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِیسَ کَانَ مِنَ الْجِن
جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا اور وہ جنوں میں سے تھا ۔(1)
ایک اور حدیث میں ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے ایک خاص صحابی میں نے اما م سے ابلیس بارے میں استفسار کیا کہ وہ فرشتوں میں سے تھا ؟
آپ(ع) نے فرمایا:نہیں وہ تو جنّوں میں سے تھا لیکن فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا اور اس سے ان کے ساتھ تھا کہ وہ(اس کی عبادت اور قرب الٰہی کے سبب) سمجھتے تھے کہ وہ انہی کی نوع میں ہے لیکن خدا جانتا تھا کہ وہ ان میں سے نہیں ہے ۔ جس وقت سجدے کا حکم ہوا تو یہ بات ظاہر ہوئی (پردے ہٹ گئے اور ابلیس کی ماہیت و حقیقت آشکار ہوگئی) ۔(2)
ابلیس اور شیطان کے بارے میں ہم نے سورہٴ اعراف کی آیت ۱۱ تا ۱۸ (تفسیر نمونہ۶(۹۵)اردو ترجمہ)اور سورہٴ انعام کی آیت ۱۱۲ (تفسیر نمونہ۵ (۳۲۶) اردو ترجمہ)اور سورہٴ بقرہ کی آیت ۳۴ (تفسیر نمونہ جلد اوّل (۱۶۶) اردو ترجمہ)کے ذیل میں تفصیلی بحث کی ہے ۔

 


(1)(2)نور الثقلین، ج ۳ ص ۲۶۷-
۲۔ گمراہوں کو تعاون کی دعوت نہیں دینا چاہئیے شیطانوں کو اپنا سر پرست نہ بناؤ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma