خضر(ع) اور موسی(ع) کی حیرت انگیز داستان

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره کهف / آیه 65 - 70 سوره کهف / آیه 60 - 64


خضر(ع) اور موسی(ع) کی حیرت انگیز داستان

مفسّرین نے ان آیات کی شان نزول کے بارے میں لکھا ہے کہ کچھ اہل قریش رسول الله کی خدمت میں آئے ۔ انھوں نے آپ سے اس عالم کے بارے میں سوال کیا کہ حضرت موسیٰ کوجس کی پیروی کا حکم دیا گیا تھا ۔ یہ آیات اسی ضمن میں نازل ہوئی ہیں ۔
اصولی طور اِس سورت کہف میں تین واقعات بیان ہوئے ہیں ۔ یہ تینوں ایک لحاظ سے ہم آہنگ ہیں ۔ پہلا واقعہ ذوالقرنین کے بارے میں ہے، حضرت موسی(ع) اور حضرت خضر(ع) کی داستان ہے، تیسرا واقعہ ذالقرنین کے بارے میں ہے جو بعد میں آئے گا ۔
یہ تینوں واقعات ہمیں ہماری اس محدود زندگی سے باہر نکالتے ہیں جس کے ہم عادی ہوچکے ہیں ۔ یہ واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ جہان اسی میں محدود نہیں کہ جو کچھ ہمیں لگتا ہے اور نہ ہی واقعات کی حقیقت بس وہی ہے جو ہمیں معلوم ہوتی ہے یا جو ہم سمجھتے ہیں ۔
بہر حال اصحاب کہف کا واقعہ ایسے جوانمردوں کی کہانی ہے کہ جنھوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے ہر چیز کو ٹھوکر مار دی ۔
حضرت موسی(ع) اور خضر(ع) کہ جو اس زمانے کے بڑے عالم تھے ان کاواقعہ بھی عجیب ہے ۔ یہ واقعہ نشاندہی کرتا ہے کہ حضرت موسی(ع) جیسے اولوالعزم پیغمبر کہ جو اپنے ماحول کے آگاہ ترین اور عالم ترین فرد تھے، بعض پہلووٴں سے ان کا علم محدود تھا لہٰذا وہ اس سے درس لیں ۔ استاد نے بھی ایسے درس دیئے کہ جن میں سے ہر ایک دوسرے سے عجیب تر ہے ۔ اس داستان میں بہت سے اہم نکات پوشیدہ ہیں ۔
پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ نے اپنے دوست اور ساتھی جوان سے کہا کہ میں تو کوشش جاری رکھوں گا جب تک ”مجمع البحرین“تک نہ پہنچ جاؤں، اگر چہ مجھے یہ سفر لمبی مدت تک جاری رکھنا پڑے ( وَإِذْ قَالَ مُوسیٰ لِفَتَاہُ لَااٴَبْرَحُ حَتَّی اٴَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اٴَوْ اٴَمْضِیَ حُقُبًا) ۔
اس آیت میں ”موسیٰ“ سے مراد بلاشبہ وہی مشہور اولوالعزم پیغمبر حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس احتمال کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ مفسرین اس واقعے سے ابھرنے والے چند سوالات کاجواب تلاش نہیں کر پائے لہٰذا وہ مجبور ہوئے ہیں کہ کوئی اور موسیٰ فرض کریں حالانکہ قرآن نے جہاں کہیں ”موسیٰ“کی بات کی ہے وہاں موسیٰ بن عمران علیہ السلام ہی مراد ہیں ۔
بہت سے مفسرین اور بہت سی روایات کے مطابق آیت میں ”ِفَتَاہ“سے مراد ”یوشع بن نون“ ہیں ۔و ہ بنی اسرائیل کے رشید، شجاع اور با ایمان جوانمرد تھے ۔ ہوسکتا ہے اُن کے لیے لفظ ”فتیٰ“ (جوان) انہی برجستہ صفات کی بناء پر ہویا اس لیے کہ وہ حضرت موسیٰ(ع) کی خدمت کرتے تھے، ان کے ہمراہی اور ہم قدم تھے ۔
”مجمع البحرین“ کا مطلب ہے دو دریاؤں کا سنگم۔ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے کہ ”بحرین“ سے یہاں کون سے دو دریا ہیں ۔ اس سلسلے میں تین مشہور نظریے ہیں:
۱۔ خلیج عقبہ اور خلیج سویز کے ملنے کی جگہ۔ ہم جانتے ہیں کہ بحیرہ احمر دوحصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔ ایک حصہ شمال مشرق کی طرف بڑھتا رہتا ہے اور دوسرا شمال مغرب کی طرف، پہلے حصے کو ”خلیج عقبہ“ کہتے ہیں اور دوسرے کو ”خلیج سویز“ اور یہ دونوں خلیجیں جنوب میں پہنچ کر آپس میں مل جاتی ہیں اور پھر بحیرہ احمر اپنا سفر جاری رکھتا ہے ۔
۲۔ اس سے بحرِ ہند اور بحیرہ احمر کے ملنے کی طرف اشارہ ہے کہ جو ”باب المندب“ پر جا ملتے ہیں ۔
۳۔ یہ بحیرہ روم اور بحرِ اطلس کے سنگم کی طرف اشارہ ہے کہ جو شہر طنجہ کے پاس جبل الطارق کا تنگ دہانہ ہے ۔
تیسری تفسیر تو بہت ہی بعید نظر آتی ہے کیونکہ حضرت موسیٰ(ع) جہاں رہتے تھے وہاں سے جبل الطارق کا فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ اس زمانے میں حضرت موسیٰ اگر عام راستے سے وہاں جاتے تو کئی ماہ لگ جاتے ۔
دوسری تفسیر میں جس مقام کی نشاندہی کی گئی ہے اس کا فاصلہ اگر چہ نسبتاً کم بنتا ہے لیکن اپنی حد تک وہ بھی زیاہ ہے کیونکہ شام سے جنوبی یمن کا فاصلہ بھی بہت زیادہ ہے ۔
پہلا احتمل زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جہاں رہتے تھے وہاں سے یعنی شام سے خلیج عقبہ تک کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہے ۔ ویسے بھی زیرِ نظر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ(ع) نے کوئی زیادہ سفر طے نہیں کیا تھا اگر چہ وہ مقصد تک پہنچنے کے لیے بہت زیادہ سفر کے لیے بھی تیار تھے (غور کیجئے گا) ۔
بعض روایات میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ نظر آتا ہے ۔
لفظ ”حقب“’ ’عرصہ د راز“ کے معنی میں ہے ۔ بعض نے اس کی ۸۰ سال سے تفسیر کی ہے ۔ اس لفظ سے حضرت موسیٰ(ع) کا مقصد یہ تھا کہ مجھے جس کی تلاش ہے میں اسے ڈھونڈھ کے رہوں گا چاہے اس مقصد کے لیے مجھے سالہا سال تک سفر جاری رکھنا پڑے ۔
جو کچھ سطورِ بالا میں کہا گیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ(ع) کو کسی نہایت اہم چیز کی تلاش تھی ۔ وہ اس کی جستجو میں در بدر پھر رہے تھے ۔ وہ عزم بالجزم اور پختہ ارادے سے اسے ڈھونڈھ رہے تھے ۔ وہ ارادہ کیے ہوئے تھے کہ جب تک اپنا مقصود نہ پالیں چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔
حضرت موسیٰ(ع) جس کی تلاش پر مامور تھے اس کا آپ(ع) کی زندگی پر بہت گہرا اثر ہوا اور اس نے آپ(ع) کی زندگی کا نیا باب کھول دیا ۔ جی ہاں! وہ ایک مردِ عالم و دانشمند کی جستجو میں تھے ۔ ایسا عالم کہ جو حضرت موسیٰ(ع) کی آنکھوں کے سامنے سے بھی حجاب ہٹا سکتا تھا اور انھیں نئے حقائق سے روشناس کروا سکتا تھا اور ان کے لیے علوم و دانش کے تازہ باب کھول سکتا تھا ۔
ہم اس سلسلے میں جلد پڑھیں گے کہ اس عالمِ بزرگ کی جگہ معلوم کرنے کے لیے حضرت موسیٰ(ع) کے پاس ایک نشانی تھی اور وہ اس نشانی کے مطابق ہی چل رہے تھے ۔
بہر حال جس وقت وہ ان دو دریاؤں کے سنگم پر جا پہنچے تو ایک مچھلی کہ جوان کے پاس تھی اسے بھول گئے ( فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِھِمَا نَسِیَا حُوتَھُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیلَہُ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا) ۔(۱)
یہ مچھلی جو ظاہراً ان کے پاس غذا کے طور پر تھی ۔ کیا بھونی ہوئی تھی اور اسے نمک لگا ہوا تھا یا یہ تازہ مچھلی تھی کہ جو معجزانہ طور پر زندہ ہوکر اچھل کر پانی میں جا کر تیرنے لگی ۔ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے ۔
بعض کتب تفاسیر میں یہ بھی ہے کہ اس علاقے میں آبِ حیات کا چشمہ تھا ۔ اس کے کچھ قطرات مچھلی پر پڑگئے جس سے مچھلی زندہ ہوگئی ۔
لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ مچھلی ابھی پوری طرح مری نہ تھی کیونکہ بعض مچھلیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو پانی سے نکلنے کے بعد بہت دیر تک نیم جاں صورت میں رہتی ہیں اور اس مدت میں پانی میں گر جائیں تو ان کی معمولی کی زندگی پھر شروع ہوجاتی ہے ۔
آخر کار موسیٰ(ع) اور ان کے ہمراہی دو دریاؤں کے سنگم سے آگے نکل گئے تو لمبے سفر کے باعث انھیں خستگی کا احساس ہوا اور بھوک بھی ستانے لگی ۔ اس وقت موسیٰ(ع) کو یاد آیا کہ غذا تو ہم ہمراہ لائے تھے لہٰذا انھوں نے اپنے، ہمسفر دوست سے کہا ہمارا کھانا لائیے ۔ اس سفر نے بہت تھکادیا ہے (فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاہُ آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِینَا مِنْ سَفَرِنَا ھٰذَا نَصَبًا) ۔
”غَدَاء“نا شتے کو یادد دو پہر کے کھانے کو کہتے ہیں لیکن کتبِ لغت میں جو تعبیرات آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ زمانے میں ”غَدَاء“ صرف اس کھانے کو کہتے تھے جو دن کی ابتداء میں کھایا جاتا تھا کیونکہ یہ لفظ ”غَدَوة“ سے لیا گیا دن کے آغاز کے معنی میں ہے جبکہ موجودہ عربی زبان میں”غَدَاء“ ا ور ”تغدی“ د ن یا دن کے کھانے کو کہتے ہیں ۔
بہر حال یہ جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ(ع) اور حضرت یوشع(ع) نے اتنا راستہ طے کرلیا تھا کہ جس پر سفر کا اطلاق ہوتا تھا لیکن یہی تعبیرات نشاندہی کرتی ہیں کہ سفر کچھ زیادہ طولانی نہ تھا ۔
اس وقت ”ان کے ہمسفر نے انھیں خبردی کہ آپ کو یاد ہے کہ جب ہم نے اس پتھر کے پاس پناہ لی تھی (اور آرام کیا تھا) تو مجھے مچھلی کے بارے میں بتانا یاد نہ تھا اورشیطان ہی تھا جس نے یہ بات مجھ بھلادی تھی ۔ ہوا یہ کہ مچھلی نے بڑے حیران کن طریقے سے دریا کی راہ لی اور پانی میں چلتی بنی “(قَالَ اٴَرَاٴَیْتَ إِذْ اٴَوَیْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّی نَسِیتُ الْحُوتَ وَمَا اٴَنْسَانِی إِلاَّ الشَّیْطَانُ اٴَنْ اٴَذْکُرَہُ وَاتَّخَذَ سَبِیلَہُ فِی الْبَحْرِ عَجَبًا) ۔(2)
یہ معاملہ چونکہ موسیٰ(ع) کے لیے اس عالمِ بزرگ کو تلاش کرنے کے لیے نشانی کی حیثیت رکھتا تھا لہٰذا ”موسیٰ(ع) نے کہا: یہی تو ہمیں چاہئے تھا اور یہی چیز تو ہم ڈھونڈتے پھرتے تھے“( قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ) ۔
اور اُس وقت وہ تلاش کرتے ہوئے اسی راہ کی طرف پلٹے (فَارْتَدَّا عَلیٰ آثَارِھِمَا قَصَصًا) ۔
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ کیا ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ(ع) جیسے پیغمبر نسیاں کا شکار ہوجائیں کیونکہ قرآن کہتا ہے:
”نسیا حوتہما“
وہ دونوں اپنی مچھلی کو بھول گئے ۔
علاوہ ازیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ موسیٰ(ع) کے ہمسفر نے اپنی بھول کی نسبت شیطان کی طرف کیوں دی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ جن مسائل کا تعلق احکام ِ الٰہی اور امورِ تبلیغی سے نہ ہو یعنی روز مرّہ کے عام مسائل ہوں ان میں نسیاں ہوجائے (خصوصاً ایسے موقع پر جہاں معاملے کا تعلق آزمائش سے ہو جیسا کہ اس موقع پر حضرت موسیٰ(ع) کے لیے کہا جاتا ہے ۔ اس کی تشریح بعد میں آئے گی) ۔(3)
باقی رہا آپ کے ہمسفر کا نسیاں کی نسبت شیطان کی طرف دینا ۔ تو ممکن ہے یہ اس بناء پر ہو کہ مچھلی کا معاملہ اس عالمِ بزرگ کو پانے اور اس کی ملاقات سے مربوط تھا اور چونکہ شیطان ہر نیکی میں حائل ہونے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا چاہا کہ اس ملاقات میں انھیں دیر ہوجائے اور شاید اس کی بنیاد خود یوشع کی طرف سے پڑی ہوکہ اس کام میں جس قدر اہتمام اور احتیاط ضروری تھی وہ انھوں نے نہ کی ہو ۔

 

 


۱۔ جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ”سرب“ (بروزن ”جرب“) نشیب کی طرف جانے کے معنی میں ہے اور ”سرب“ (بروزن ”جرب“) نشیبی راستے کے معنی میں ہے ۔
2۔ ”وَمَا اٴَنْسَانِی إِلاَّ الشَّیْطَانُ اٴَنْ اٴَذْکُرَہُ“۔ یہ جملہ معترضہ ہے کہ جو بات کے بیچ میں آگیا ہے ۔ یہ جملہ در حقیقت بھول جانے کی علت بیان کررہا ہے اس لیے درمیان میں آگیا ہے ۔ خصوصاً ایسے اشخاص کہ جنھیں کسی بزرگ تر شخصیت کی طرف سے عتاب و خطاب ہو رہا ہو معمولاً وہ علتِ اصلی کو اپنی گفتگو کے بیچ میں جملہ معترضہ کی صورت میں ذکر کر دیتے ہیں تاکہ اعتراض کم ہوجائے ۔
3۔ یہ جواب اطمیان بخش نہیں ہے، خصوصاً شیعہ مسلک کے حوالے سے (مترجم) ۔

 

سوره کهف / آیه 65 - 70 سوره کهف / آیه 60 - 64
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma