قوم لوط کے گنہ گاروں کا انجام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
۱۔ ”قطع من اللیل “ سے کیا مراد ہے ؟سوره حجر / آیه 61 - 77

قوم لوط کے گنہ گاروں کا انجام

 

 
گذشتہ آیات میں ہم نے ان فرشتوں کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات کا حال پڑھا جو قوم ِ لوط پر عذاب کے لئے مامور تھے زیر نظر آیات میں ہم ان کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے چلے آنے اورحضرت لوط کے پاس آنے کا حال پوچھیں گے۔
پہلے فرمایا گیا ہے :جس وقت فرستادگان الہٰی خاندان لوط کے پاس آئے ( فَلَمَّا جَاءَ آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ ) ۔
تو لوط نے ان سے فر مایا ”تم اجنبی لوگ ہو “۔ ( قَالَ إِنَّکُمْ قَوْمٌ مُنْکَرُونَ ) ۔
مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام نے ان سے یہ بات اس لئے کہی کہ وہ بہت خوبصورت نوجوانوں کی صورت میں ان کے پاس آئے تھے اور ہوسکتا کہ ان کا آنا آپ کے لئے ایک مشکل کا باعث بن جاتا ۔ایک طرف وہ مہمان تھے محترم تھے اور ان کا آنا مبارک تھا اور دوسری ماحول انتہائی شرمناک اور مشکلات سے پر تھا اور اسی لئے سورہٴ ہود کی آیات میں یہی واقعہ جو کسی اور مناسبت سے آیا ہے وہاں”سیء بھم “ کے الفاظ آئے ہیں یعنی یہ امر خدا کی طرف سے اس پیغمبر کے لئے سخت ناگوار تھا اور وہ ان کے آنے سے پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بہت ہی سخت ہے ۔
لیکن فرشتوں نے انھیں زیادہ دیر انتظار میں نہ رکھا اورصراحت کے ساتھ کہا کہ ہم تیرے پاس ایسی چیز لے کر آئے ہیں جس میں وہ شک رکھتے تھے ۔ ( قَالُوا بَلْ جِئْنَاکَ بِمَا کَانُوا فِیہِ یَمْتَرُونَ ) ۔یعنی ہم اس دردناک عذاب کے لئے مامور ہیں جس کے بارے میں تو انھیں تنبیہ کر چکا ہے لیکن انھوں نے اسے کبھی بھی سنجید گی سے نہیں لیا ۔
اس کے بعد انھوں نے بطور تاکید کہا : ہم تیرے لئے مسلم اور ناقابل تردید حقیقت لائے ہیں “ یعنی ہم اس بے ایمان اور منحرف قوم کے لئے حتمی عذاب اور قطعی سزا لے کر آئے ہیں (وَاٴَتَیْنَاکَ بِالْحَقّ) ۔
پھر انھوں نے مزید تاکید کے لئے کہا : ہم یقینا سچ کہہ رہے ہیں “( وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ) ۔
یعنی یہ قوم اپنے لوٹنے کے تمام راستے تباہ کر چکی ہے اور ان کی شفاعت کا موقع اب باقی نہیں رہا یہ اس لئے کہ کہیں لوط ان کی سفارش کے لئے نہ سوچنے لگےں کہ یہ لوگ اب ہر گز شفاعت کی اہلیت نہیں رکھتے۔
نیز ضروری تھا کہ مومنین کا چھوٹا سا گروہ ( کہ جو ان کی بیوی کے سوااہل خاندان پر مشتمل تھا) اس ہلاکت انگیزی سے بچ جائے لہٰذا انھوں نے حضرت لوط کو ضروری احکامات دئیے ، کہنے لگے : رات کے وقت جب یہ گنہ گار لوگ سو جائیں یا شراب و شہوت میں مست ہو جائیں تم اپنے خاندان کو لے کر شہر کے باہر نکل جاوٴ( فَاٴَسْرِ بِاٴَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِنْ اللَّیْل) ۔”لیکن تم ان کے پیچھے پیچھے رہنا“تاکہ ان کی نگرانی کرسکو ان میں سے کوئی پیچھے نہ رہ جائے ( وَاتَّبِعْ اٴَدْبَارَھُمْ وَلاَیَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اٴَحَدٌ) ۔”اور اسی مقام ( شام یا کوئی دوسرا علاقہ جہاں کے لوگ اس آلود گی سے پاک ہیں ) کی طرف چلے جاوٴ“ ( وَامْضُوا حَیْثُ تُؤْمَرُونَ) ۔
اس کے بعد گفتگوکا لب و لہجہ بدل جاتا ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے”ہم نے لوط کو اس امر کی وحی کی کہ دمِ صبح سب کی ریشہ کنی ہو جائے گی “۔ یہاںتک کہ ان میں سے ایک فرد بھی نہیں بچے گا ۔ ( وَقَضَیْنَا إِلَیْہِ ذَلِکَ الْاٴَمْرَ اٴَنَّ دَابِرَ ھَؤُلَاءِ مَقْطُوعٌ مُصْبِحِینَ ) ۔
غور کیجئے گا ۔
قرآن اس واقعے کو یہیں چھوڑ کر ابتداء کی طرف لوٹتا ہے اور واقعے کا وہ حصہ جو ایک مناسبت کیو جہ سے وہاں رہ گیا تھا کہ جس کا ہم بعد میں ذکرکریں گے ، اسے بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : شہر والوں کو جب لوط کے پاس آنے والے نئے مہمانوں کا پتہ چلا تو وہ ان کے گھر کی طرف چل پڑے ،راستے میں وہ ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے تھے ( وَجَاءَ اٴَھْلُ الْمَدِینَةِ یَسْتَبْشِرُونَ ) ۔گمراہی کی شرمناک وادی میںبھٹکنے والے ان افرادکا خیال تھا کہ گویا نرمال ان کے ہاتھ آگیا ہے خوبصورت اور خوش رنگ نوجوان اور وہ بھی لوط کے گھر میں ۔
”اہل مدینہ “ کی تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ کم از کم شہر کے بہت سے لوگ ٹولیوں میں حضرت لوط (علیہ السلام)کے گھر کی طرف چل پڑے۔ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک بے شرم ، ذلیل اور جسور تھے ۔ خصوصاً لفظ ”یستبشرون“ ( ایک دوسرے کو بشارت دیتے تھے)ان کی آلوگیوں کے گہرائی کی حکایت کرتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا شرمناک عمل ہے کہ شاید کسی نے ان کی نظیر جانوروں میں بھی بہت کم دیکھی ہو گی اور یہ عمل اگرکوئی انجام دیتا بھی ہے تو کم از چھپ چھپاکر اور احساس شرمندگی کے ساتھ ایسا کرتا ہے ، لیکن یہ بدکا ر کمینہ صفت قو،م کھلم کھلاایکدوسرے کو مبارک باد دیتی تھی ۔
حضرت لوط علیہ السلام نے جب ان کا شور غل سنا تو بہت گھبرائے اور مضطرب ہوئے انھیں اپنے مہمانوں کے بارے میں بہت خوف ہوا کیونکہ ابھی تک وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ مہمان مامورین عذاب ہیں قادر وقاہر خدا کے فرشتے ہیں لہٰذا وہ ان کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے : یہ میرے مہمان ہیں ،میری آبرو نہ گنواوٴ“ قَالَ إِنَّ ھَؤُلَاءِ ضَیْفِی فَلاَتَفْضَحُونِی) ۔یعنی اگر تم خدا، پیغمبر اور جزاء اور سزا کے مسئلہ سے صرف نظر کرلو تو بھی کم از کم یہ انسانی مسئلہ ہے اور یہ بات تو سب انسانوں میں چاہے مومن ہوں یا کافر ،موجود ہے کہ وہ مہمانوں کااحترام کرتے ہیں تم کیسے انسان ہو کہ اتنی سی بات بھی نہیں مانتے ہو ۔ اگر تمہارا کوئی دین نہیں تو کم ازکم آزاد انسان توبنو ۔
اس کے بعد آپ نے مزید کہا:آوٴ خدا سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے سامنے شرمسار نہ کرو( وَاتَّقُوا اللهَ وَلاَتُخْزُونِی) ۔۱
لیکن ”خزی“ در اصل دور کرنے کے معنی میں ہے بعد ازاں شرمندگی کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ گویا لوط چاہتے تھے کہ ان مہمانوں کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرو اور انھیں مجھ سے دور نہ کرو ۔
لیکن وہ ، وہ بہت جسور اور منہ پھٹ تھے بجائے اس کے وہ شرمندہ ہوتے کہ انھوں نے اللہ کے پیغمبر لوط (علیہ السلام) سے کیسا مطالبہ کیا ہے الٹا اس طرح سے پیش آئے جیسا لوط سے کوئی جرم سر زد ہو اہے انھوں نے زبان اعتراض دراز کی اورکہنے لگے : کیا ہم نے تجھ سے نہ کہا تھا کہ دنیاوالوں کو اپنے ہاں مہمان نہ ٹھہرانا اورکسی کو اپنے ہاں نہ آنے دینا ( قَالُوا اٴَوَلَمْ نَنْھَکَ عَنْ الْعَالَمِینَ ) ۔
تم نے اس کی خلاف ورزی کیوں کی اور ہمارے کہنے پر عمل کیوں نہ کیا ۔
یہ اس بناء پرتھا کہ یہ قوم انتہائی کم ظرف اور کنجوس تھی یہ لوگ ہر گز کسی کو اپنے ہاں مہمان نہیں ٹھہراتے تھے او ر اتفاق سے ان کے شہر قافلوں کے راستے میں پڑ جاتے تھے کہتے تھے کہ انھوں نے یہ کام بعض آنے والوں کے ساتھ اس لئے کیا کہ کوئی ان کے ہاں ٹھہرے نہ ۔ آہستہ آہستہ ان کی عادت بن گیا لہٰذا جب حضرت لو ط کو شہر میں کسی مسافر کے آنے کی خبر ہوتی تو اسے اپنے گھر میں دعوت دیتے تاکہ وہ کہیں ان کے چنگل میں نہ پھنس جائے ان لوگوں کو جب اس کا پتا چلتا تو بہت سیخ پا ہوئے اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے کھل کر کہنے لگے تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اب تم کسی مہمان کو اپنے گھر لے جاوٴ۔
لہٰذا یوں لگتا کہ زیر نظر آیت میں لفظ ”عالمین “ مسافروں اور ایسے افراد کی طرف اشارہ ہے جو اس شہر اور علاقے کے رہنے والے نہ تھے اور ان کا صرف وہاں سے گذر ہوتا تھا ۔
بہرحال حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کی یہ جسارت اور کمینگی دیکھی تو انھوں نے ایک طریقہ اختیار کیا تاکہ انھیں خواب غفلت اور انحراف و بے حیائی کی مستی سے بیدار کرسکیں۔آپ نے کہا : تم کیوں انحراف کے راستے پر چلتے ہو اگر تمہارا مقصد جنسی تقاضوں کو پورا کرنا ہے تو جائز اور صحیح طریقے سے شادی کرکے انھیں پورا کیوں نہیں کرتے ،یہ میری بیٹیاں ہیں (میں تیار ہو ں کہ انھیں تمہاری زوجیت میں دے دوں )اگر تم صحیح کام انجام دینا چاہتے ہو تو اس کا راستہ یہ ہے ( قَالَ ھَؤُلَاءِ بَنَاتِی إِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِینَ) ۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت لوط(علیہ السلام) کی تو چند بیٹیاں تھیں اور ان افراد کی تعداد زیادہ تھی لیکن مقصد یہ تھا کہ ان پر اتمام حجت کیا جائے اور کہاجائے کہ میں اپنے مہمانوں کے احترام اور حفاظت اور تمہیں برائی کی دلدل سے نکالنے کے لئے اس حد تک ایثار کے لئے تیار ہوں۔
بعض نے یہ بھی کہا کہ ’ھوء لاء بناتی “سے مراد شہر کی بیٹیاں ہیں اور روحانی باپ کے اعتبار سے انھوں نے سب کو اپنی بیٹیاں کہاں ہے لیکن پہلی تفسیر اایت کے معنی کے زیادہ نزدیک ہے ۔
بغیر کہے واضح ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) یہ نہیں چاہتے تھے کہ اپنی بیٹیاں گمراہ مشرکین کی زوجیت میں دے دیں بلکہ ان کا مقصد تھا کہ آوٴ ! ایمان لے آوٴاور اس کے بعد میں اپنی بیٹیاں تمہارے عقد میں دے دوں گا ۔
لیکن فسوس شہوت ،انحراف اور ہٹ دھرمی کے اس عالم میں ان میں ذرہ بھر بھی انسانی اخلاق اور جذبہ باقی ہوتا تو کم از کم اس امر کے لئے کافی تھا کہ وہ شرمندہ ہوتے اورپلٹ جاتے مگر نہ صرف یہ کہ وہ شرمندہ نہ ہوئے بلکہ اپنے جسارت میں اوربڑھ گئے اور چاہا کے حضرت لوط (علیہ السلام) کے مہمانوں کی طرف ہاتھ بڑھائیں ۔
اس مقام پر اللہ تعالیٰ روئے سخن رسول اسلام کی طرف کرتے ہوئے کہتا ہے :تیری جان اور زندگی کی قسم !وہ اپنی مستی میں سخت سر گرداں تھے ( لَعَمْرُکَ إِنَّھُمْ لَفِی سَکْرَتِھِمْ یَعْمَھُونَ ) ۔
سورہ ٴ ہود میں اسی قسم کی بحث کے بعد ہے کہ فرشتوں نے اپنی مامویت سے پر دہ اٹھایا اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے مخاطب ہوکر کہنے لگے :ڈرئیے نہیں یہ لوگ آپ کو ئی تکلیف نہیں پہنچاسکتے ۔
سورہ قمر آیہ ۳۷میں ہے کہ جب ان کی جسارت اور بڑھ گئی اور انھوں نے مہمانوں پر تجاوز کا مصمم ارادہ کرلیا تو ان کی آنکھیں اندھی ہو گئیں ۔ قرآن کے الفاظ میں ۔
ولقد راو دوہ عن ضیفہ فطمسنااعینھم
(انھوں نے ان کے مہمانوں کے بارے میں ناجائز خواہش کی تو ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کردیں)
بعض روایت میں آیا ہے کہ ایک فرشتے نے مٹھی بھر مٹی ان کے چہرے پر پھینک دی تو وہ سب اندھے ہو گئے ( اور چیختے چلاتے پلٹ گئے ) ۔
اس مقام پر اس قوم کے بارے میں اللہ کی گفتگوانتہاء کو پہنچ جاتی ہے وہ دو جچی تلی اور مختصر آیات میں ان کا منحوس انجام پڑ ے قاطع تباہ کن اور عبرت انگیز صورت میں بیان کرتا ہے اور کہتا ہے : آخر کار طلوع آفتاب کے وقت وحشت ناک چنگھاڑ نے ان سب کو گھیر لیا ( فَاٴَخَذَتْھُمْ الصَّیْحَةُ مُشْرِقِینَ) ۔
یہ”صیحہ“ہوسکتا ہے کہ ایک عظیم صاعقہ یا وحشت ناک زلزلہ کی آواز ہو ۔ بہر حال ایک بہت بڑی چنگھاڑ تھی ۔ اس کی وحشت سے سب کے سب بے ہو ش ہو گئے یا مر گئے ۔ہم جاتے ہیں کہ آواز کی لہریں جب ایک معین حد سے بڑھ جائیں تو تکلیف دہ اور وحشت ناک ہوتی ہیں اور اس سے بھی بڑھ جائیں تو انسان کو بیہوش کردیتی ہیں یا پھر موت کا سبب بن جاتی ہیں یہاں تک کہ ہوسکتا ہے کہ وہ عمارتوں کو تباہ کردیں ۔
لیکن ہم نے اسی پر اکتفاء نہیں کی بلکہ ان کے شہر کو ہم نے بالکل زیر و زبر کردیا اور عماتوں کے اوپر والے حصے نیچے اور نیچے والے اوپر کردئے ( فَجَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا) ۔
ان کے لئے یہ عذاب بھی کافی نہ تھا ۔ اس پر ہم نے ان پر پتھریلے کنکروں کی بارش برسائی ( وَاٴَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّی) ۔
پتھروں کی یہ بارش ہو سکتا ہے ان لوگوں کے لئے ہو جو اس وقت وحشت ناک چنگھاڑ سے نابود نہیں ہوئے تھے یا جو اسی گر می و عذاب میں مبتلا نہیں ہوئے تھے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ناپاک اجساد اور ناپاک آثار کو محو کرنے کے لئے ہو شہر کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ پتھروں کی بارش کے بعد کوئی شخص اس علاقے سے گذرتا تو آسانی سے باور نہیں کرسکتا تھا کہ کبھی اس علاقے میں ایک شہر آباد تھا ۔
یہ تین عذاب ( وحشت ناک چنگھاڑ، شہر کا تہہ و بالا ہونا اور پتھروں کی بارش ) کیوں تھے جبکہ ان میں سے ہر ایک اس قوم کو ہلاک کرنے کے لئے کافی تھا ۔
ایسا یا تو ان کے گناہ کی شدت اور بے حیائی میں ان کے جسور ہونے کی بناء تھا یا دوسروں کے لئے عبرت کی خا طر اللہ نے ان پر عذاب کو کئی گنا کردیا ۔؟
یہ وہ مقام ہے جہاں قرآن تربیتی اور اخلاقی نتیجہ حاصل کرتے ہوئے کہتا ہے : اس واقعہ میں باہوش لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں ( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِین) ۔
جو اپنی خاص فراست و دانائی کی وجہ سے ہو ، علامت سے واقعہ ہر اشارے سے حقیقت اور ہر نکتے سےاہم تربیتی مطلب اخذ کرلیتے ہیں ۔ 2
لیکن یہ تصور نہ کریں کہ ان کے آثار بالکل ختم ہو گئے ہیں ۔ نہیں ”قافلوں اور راہ گیروں کے لئے ہمیشہ برقرار ہیں “( وَإِنّھَا لَبِسَبِیلٍ مُقِیمٍ) ۔
اگر تم باور نہیں کرتے تو اٹھ کھڑے ہواور ان تباہ حال شہروں کے ویرانوں کو جاکر دیکھو کہ جو شامکے ایک راستے مدینہ جانے والوں مسافروں کے لئے موجود ہےں ، دیکھو اور ان میں غور کرو، عبرت حاصل کرو، خدا کی طرف پلٹ آوٴ راہ توبہ اختیار کرواور اپنے قلب و روح کو غلاظتوں سے پاک کرلو ۔
تاکید مزید کے لئے اور اہل ایمان کو اس عبرت انگیز داستان میں غورو فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے : اس واقعہ میں اہل ایمان کی نشانیاں ہیں ( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَةً لِلْمُؤْمِنِینَ) ۔
کیسے ممکن ہے کہ کوئی صاحبِ ایمان یہ ہلادینے والا واقعہ پڑھے اور اس سے عبرت حاصل نہ کرے ۔
سجیل “ سے کیا مراد ہے ، اس گناہ گار قوم پر پتھروں کی بارش کیوں برسی؟ان کے شہر تہ و بالا کیوں ہوئے ،نزول عذاب صبح کے وقت کیوں ہوا ؟ خاندان لوط سے کیوں کہا گیا کہ پلٹ کر نہ دیکھیں اور قوم لوط کا اخلاق ان سب امور کے لئے سورہ ہود کی تفسیر میں ہم کافی بحث کرچکے ہیں ۔
(تفسیر نمونہ جلد ۹ ص تا ص ( اردو ترجمہ ملاحظہ کیجئے )

۱۔ ”قطع من اللیل “ سے کیا مراد ہے ؟سوره حجر / آیه 61 - 77
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma