انبیاء کی ذمہ داری واضح تبلیغ ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
۱۔ ”بلاغ مبین “ کیا ہے سوره نحل/ آیه 33 - 37

انبیاء کی ذمہ داری واضح تبلیغ ہے

 


قرآن دوبارہ مشرکین اور مستکبرین کی طرز فکر اور طرز عمل کے بارے میں تجزیہ و تحلیل کرتا ہے اور تہدید آمیز لہجے میں کہتا ہے : وہ کس انتظار میں ہیں ” کیا وہ اس بات کے منظر ہیں کہ موت کے فرشتے ان کے پاس آئیں “ توبہ کے دروازے بند ہو جائیں دفتر اعمال لپیٹ دیا جائے اور واپسی کی کوئی راہ باقی نہ رہے (ھَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ اٴَنْ تَاٴْتِیَھُمْ الْمَلاَئِکَةُ) ۔
یا پھر وہ کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے لئے تیرے پر وردگار کی طرف سے عذاب کا حکم صادر ہو ( اٴَوْ یَاٴْتِیَ اٴَمْرُ رَبِّکَ)جبکہ اس حالت میں بھی توبہ کے دروازے بند ہو جائیں گے اور باز گشت اور تلافی کا راستہ باقی نہ رہے گا ۔
یہی ان کی کیسی طر فکر ہے ، کیسی ہٹ دھرمی ہے اور کیا احمقانہ اندا ز ہے ۔
یہاں لفظ ”ملائکہ “ اگر چہ مطلق طور پر آرہا ہے لیکن گذشتہ آیات کی طرف توکہ کرتے ہوئے کہ جن میں روح قبض کرنے والے فرشتے کے بارے میں گفتگوہے یہاں بھی وہی مراد ہےں۔
یاتی امر ربک“ ( خدا کا حکم آجائے گا ) اس جملے سے بہت سے احتمالات پیدا ہوسکتے ہیں لیکن اگر اس امر کی طرف توجہ کی جائے یہی تعبیر قرآن کی مختلف آیات میں نزول عذاب کے بارے میں آئی ہے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہاں بھی وہی معنی مراد ہے ۔
بہر حال مجموعی طور پر ان دونوں جملوں سے تہدید کا مفہوم نکلتا ہے یہ تہدید اور دھمکی مستکبرین کے لئے ہے ان سے کہا گیا ہے کہ اگر خدا کی طرف سے پند و نصیحت اور ا س کے انبیا ء کی طرف سے وعظ و نصیحت سے تم بیدار نہیں ہو تے تو عذاب اور موت کے تازیانے تمہیں بیدار کریں گے لیکن اس بیدار ہونے سے تمہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔
اس کے بعد مزید فرما یا گیا ہے : یہی گروہ نہیں کہ جس کا طرز عمل ہے بلکہ ”گذشتہ مشرکین اور مستکبرین بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے ( کَذَلِکَ فَعَلَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ) ۔ خدا نے تو ان پر ظلم نہیں کیا انہوں نے خود ہی اپنے اوپرظلم کیا ہے ( وَمَا ظَلَمَھُمْ اللهُ وَلَکِنْ کَانُوا اٴَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُونَ ) ۔
کیونکہ در حقیقت خدا ان کے اعمال ہی کا نتیجہ ان کی طرف لوٹائے گا ، یہ جملہ پھر اس حقیقت کی تائید کرتا ہے کہ ہر ظلم اور برائی جو انسان سے سر زد ہوتی ہے آخر کار اسی کی دامن گیر ہوتی ہے بلکہ ہر چیز سے پہلے ان تک آپہنچی ہے کیونکہ برے عمل کے برے آثار اپنے فاعل کی رو ح پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس سے اس کا دل تاریک ہو جاتا ہے روح آلودہ ہو جاتی ہے اور آرام و سکون جاتا رہتا ہے ۔
دوبارہ ان کے اعمال کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : بالآخرہ ان کے اعمال کی برائیاں ان تک آپہنچی ہیں ( فَاٴَصَابَھُمْ سَیِّئَاتُ مَا عَمِلُوا ) ۔
(وعدہٴ عذاب الہٰی کہ)جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ان تک آپہنچے گا (وَحَاقَ بِھمْ مَا کَانُوا بِہِ یَسْتَھْزِئُون ) ۔
حاق بھم “ کامعنی ہے ”ان پر وارد ہوا“لیکن قرطبی، فرید وجدی اور دیگر مفسرین نے اسے احاطہ کرنے کے معنی میں لیا ہے البتہ اس سے ایسا مفہوم مراد لیا جانا چاہئیے جس میں وارد ہونا اور احاطہ کرنا دونوں معانی شامل ہوں ۔
بہر حال یہ آیت جو کہتی ہے کہ ” ان کے اعمال کی برائیاں ان تک آپہنچیں “ایک مرتبہ پھر اس حقیقت پر زور دیتی ہے کہ یہ انسان کے اپنے اعمال ہیں کہ جو اس جہان میں بھی اور اس جہاں میں بھی اسے دامن گیر ہوتے ہیں اس کے یہ اعمال مختلف صورتوں میں بھی مجسم ہوتے ہیں اور اسے رنج تکلیف ، آزار اور اذیت دیتے ہیں ۔ 1
اگلی آیت مشرکین کی ایک کمزور اور بے بنیاد منطق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے : مشرکین کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو ہم کو ہمارے آباء و اجداد اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے “ اور بتوں کا رخ نہ کرتے ( وَقَالَ الَّذِینَ اٴَشْرَکُوا لَوْ شَاءَ اللهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِہِ مِنْ شَیْءٍ نَحْنُ وَلاَآبَاؤُنَا) ۔اور کوئی چیز اس کے اذن کے بغیر حرام قرار دیتے ( وَلاَحَرَّمْنَا مِنْ دُونِہِ مِنْ شَیْءٍ ) ۔یہ جو کچھ چوپایوں کی طرف اشارہ ہے کہ جنہیں مشرکین نے زمانہ ٴ جاہلیت میں اپنی طرف سے حرام قرار دے لیا تھا ان کے اس طرز عمل پر پیغمبر شدید تنقید کرتے تھے ۔
خلاصہ یہ کہ ان کا دعویٰ تھا کہ بتوں کی پرستش اور حلال حرام قراردینا اور ان کے دیگر کام اللہ کی رضا سے ہیں اور اس کے اذن کے بغیر نہیں ہیں ۔
ہوسکتا ہے کہ یہ گفتگو اس امر کی طرف اشارہ ہو کہ وہ جبر کا عقیدہ رکھتے تھے اور ہر چیز کو تقدیر سے وابستہ سمجھتے تھے ۔ اس آیت سے بہت سے مفسرین نے یہی مراد لیا ہے ۔
لیکن یہ احتمال بھی ان کا یہ کہنا عقیدہٴ جبر کی بنیاد پر نہ ہوا اور اس کا استدلال یہ ہو کہ اگر ہمارے اعمال پر خدا راضی نہیں ہیں ہے تو پھر اس نے پہلے پیغمبر اور رسول بھیج کر ان سے منع کیوں نہیں کیا اور کیوں ہمارے بزرگوں سے پہلے دن ہی نہیں کہا کہ میں ان کاموں سے راضی نہیں ہوں ۔ اس کی یہ خاموشی اس کی رضا کی دلیل ہے ۔
یہ تفسیر اس آیت اور کے بعد کی آیات کے ظاہری مفہوم سے مناسبت رکھتی ہے اسی لئے بلافاصلہ فرمایا گیا ہے ان کے آباوٴ و اجداد بھی یہی کچھ کرتے تھے (اور انہی بہانوں کا سہارا لیتے تھے ) لیکن کیا انبیاء الہٰی کی ذمہ داری واضح تبلیغ کے علاوہ کچھ اور ہے ؟
( کَذَلِکَ فَعَلَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَھَلْ عَلَی الرُّسُلِ إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِینُ) ۔
یعنی
اولاً یہ جو تم کہتے ہو کہ خدا نے سکوت اختیار کررکھا ہے ، ایسا ہر گز نہیں ہے ، جو پیغمبر بھی آیا ہے اس نے توحید کی اور نفی شرک کی دعوت دی ہے ۔
ثانیاً خدا اور پیغمبر کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ مجبور کریں بلکہ ان کے ذمہ ہے کہ راستے کی نشان دہی کریں اور یہ کام کیا جاچکا ہے ۔
ضمنی طور پر ”کَذَلِکَ فَعَلَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِم“(جو لوگ اس سے پہلے تھے انھوں نے بھی یہی کام انجام دئیے ہیں )یہ ایک طرح سے پیغمبر کی تسلی کے لئے ہے تاکہ وہ جان لیں کہ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں پہلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا آیا ہے لہٰذا ملول نہ ہوں ، استقامت سے کام لیں اور ڈٹ جائیں خدا آپ کا یار و مدد گار ہے ۔
یہ حقیقت بیان کرنے کے بعد کہ انبیاء کی ذمہ داری صرف ابلاغ ِ آشکار اور تبلیغ واضح ہے ۔ اگلی آیت میں انبیاء کی کیفیت ِ دعوت کی طرف ایک مختصر اور جامع اشارہ کیا گیا ہے فرمایا گیا ہے :ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا ہے ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ اٴُمَّةٍ رَسُولاً ) ۔
لفظ ”امة“ ”ام “ ماں کے معنی میں ہے یا ہر چیز کے معنی میں ہے جو کسی دوسری چیز کو اپنا ضمیمہ قرار دے لہٰذا ہر وہ جماعت کہ جس کے افراد میں زمان ، مکان ، فکر یا ہدف میں کسی طرح کی وحدت ہو اسے ” امہ“ کہا جاتا ہے قرآن میں یہ لفظ ۶۴سے زیادہ مرتبہ آیاہے ان کے مطالعے سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے ۔
ا س کے بعد مزید فرمایا گیا ہے :کہ ان سب رسولوں نے یہی دعوت دی ہے کہ خدائے یکتا کی پرستش کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو“ اٴَنْ اُعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ) ۔2
یعنی تمام انبیا ء کی دعوت کی بنیاد پر عقیدہٴ توحید اور طاغوت سے مقابلہ تھا اور یہی وہ پہلی چیز تھی کی جس کی طرف سب انبیاء بلااستثناء دعوت دیتے تھے کیونکہ اگر توحید کے ستوں مستحکم نہ ہوں اور انسانی معاشرے سے طاغوتیت اور طاغوتی افکار نکال باہر نہ کئے جائیں تو کوئی اصلاحی پروگرام قابل ِ عمل نہیں ہے ۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ” طاغوت“ مبالغے کا صیغہ ہے یہ ”طغیان کے مادہ سے ہے جس کا مطلب ہے حد اور سر حد سے تجاوز کرنا اور ”طاغوت“ تجاوز کرنے والے کوکہتے ہیں لہٰذا شیطان ، بت اور ظالم و ستمگر حاکم کو ”طاغوت“ کہتے ہیں اورہر وہ راستہ جو غیر حق تک جا پہنچائے اسے ” طاغوت کہا جاتا ہے یہ لفظ مفرد اور جمع دونوں معانی میں استعمال ہوا ہے اگر چہ بعض اوقات اس کی جمع ”طواغیت“ کی جاتی ہے ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کی دعوت ِ توحید کا نتیجہ کیا نکلتا ہے قرآن کہتا ہے : ان امتوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں خدا نے ہدایت کی ( فَمِنْھمْ مَنْ ھَدَی اللهُ) ۔اور ان میں ایسے تھے کہ گمراہی جنہیں دامن گیر ہوئی ( وَمِنْھُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلاَلَةُ ) ۔
اس موقع پر بھی مکتب جبر کے پیروں کاروں نے آواز بلند کی ہے کہ یہ آیت بھی ہمارے مکتب کی صداقت کے لئے ایک دلیل ہے لیکن ہم نے بار ہا کہا ہے کہ اگر ہدایت و ضلات والی آیات کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہیں رہتا اور نہ صرف یہ کہ وہ جبر کی طرف اشارہ نہیں کرتیں ، وضاحت سے انسانی اختیار ، ارادے اور آزادی کو بیان کرتی ہیں کیونکہ بہت سی قرآنی آیات میں ہے کہ خدائی ہدایت و ضلالت اس اہلیت اور نااہلی کے بعد کہ جو انسان کے اعمال کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔
قرآن صراحت سے کہتا ہے کہ خدا تعالی ٰ ظالموں، ہیرا پھیری کرنے والوں ، جھوٹو ں اور اس قسم کے لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا اس کے برعکس جو لوگ راہ خدا میں جہاد اور جد و جہد کرتے ہیں اور دعوت انبیاء کو قبول کرتے ہیں ان پر اپنی رحمتیں نازل کرتا ہے ۔ انھیں تکامل و ارتقاء کی منزلوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور سیر الی اللہ کا راستہ کہ جو نشیب و فراز سے پر ہے اس میں ہدایت کرتا ہے جبکہ ظالموں اور جھوٹوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتیں اور عالم بے راہ روی میں سر گرداں رہیں نیز اعمال اچھے ہوں یا برے ان کی خاصیت چونکہ خدا کی طرف سے ہے لہٰذا ان کے نتائج کی نسبت خدا کی طرف دی جاسکتی ہے ۔
جی ہاں !خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ ہدایت تشریعی کا طریقہ اختیار فرماتا ہے یعنی انبیاء کو مبعوث کرتا ہے تاکہ وہ فطرت سے ہم آہنگ ہو کر لوگوں کو توحید اور نفی طاغوت کی دعوت دیں اس ہدایت تشریعی کے بعد جو شخص یا گروہ اپنی لیاقت و اہلیت ثابت کرتا ہے وہ اس کے لطف و ہدایت ِ تکوینی سے ہم کنار ہو جاتا ہے ۔
جی ہاں ! یہ ہے خد اکی دائمی سنت ، نہ وہ کہ جو فکر الدین رازی اور اس جیسے مکتب جبر کے طرفداروں نے کہا ہے کہ خدا پہلے انبیاء کے ذریعہ دعوت دیتا ہے اور پھر جبری طور پر ( بغیر کسی وجہ کے) لوگوں میں ایمان یا کفر پیدا کردیتا ہے ، تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کے خیال میں اس سلسلے میں خدا سے کسی قسم کا کوئی سوال و جواب نہیں ہوسکتا ۔
واقعا ًلوگوں نے خدا کا کیسا وحشت ناک تصور پیش کیا ہے کہ جوکسی عقل ، احساس او رمنطق سے مناسبت نہیں رکھتا ۔
یہ امر لائق توجہ ہے کہ زیر بحث آیت میں ہدایت و ضلالت کے بارے میں مختلف انداز سے بات کی گئی ہے پہلے فرما یا گیا ہے : ” خدا نے ایک گروہ کی ہدایت کی “ لیکن ضلات کے بارے میں یہ نہیں فرمایا کہ ” خدا نے ایک گروہ کو گمراہ کیا“۔ بلکہ فرمایا :۔
حقت علیھم الضلالة
یعنی  گمراہی ان کے لئے ثابت ہو گئی اور ان کے دامن سے لپٹ گئی ۔
تعبیر کا یہ فرق ہوسکتا ہے ۔ دوسری آیاتِ قرآن اور بعض روایات سے ظاہر ہونے والی اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو کہ ہدایت کا زیادہ تعلق ان مقدمات سے ہے جو خدا تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں ، اس نے عقل دی ہے ، انسانی فطرت کو توحید کے لئے آمادہ کیاہے ، انبیاء بھیجے ہیں اور تشریعی و تکوینی آیات دکھائی ہیں اب صرف بندوں کیط رف سے ایک آزادنہ ارادے کی ضرورت ہے کہ جو انھیں منزل مقصود تک پہنچادے ۔
جبکہ ضلالت و گمراہی میں تمام تر کردار خود بندوں کا ہے کیونکہ خود بندے ہی تکوینی و تشریعی ہدایت کے خلاف قدم اٹھاتے ہیں الہٰی فطرت کے قوانین کو پامال کرتے ہیں ۔ تشریعی و تکوینی آیات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور انبیاء کی دعوت پر چشم بصیرت اور گوش ہوش بند کرلیتے ہیں ۔ خلاصہ یہ تخریب و تحریف کے ان سب عنا صر کے ساتھ وادیٴ ضلالت میں قدل رکھتے ہیں
تو کیا یہ سب امور انہی کی طرف سے نہیں ہیں ؟
سورة نساء کی آیہ ۷۹ میں اسی چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
مااصابک من حسنة فمن اللہ و ما اصابک من سیئة فمن نفسک
جو بھلائی تجھے حاصل ہو وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو برائی تجھے پہنچے وہ خود تیری طرف سے ہے ۔
امام علی بن موسی رضا علیہ السلام کی طرف سے اصول کافی میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے کہ اس مطلب کو زیادہ واضح کرتی ہے ۔
ایک صحابی نے آپ سے جبر و اختیار کے بارے میں سوال کیا:۔
آپ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا:
1۔ اس بناء پر ضروری نہیں کہ ہم ”جزا“ کو ”سیئات“ سے پہلے مقدر فرض کریں ۔
2۔ یہ جملہ تقدیر میں یوں تھا ۔” لیقول لھم اعبدو ا اللہ
لکھو
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قال علی بن الحسین قال اللہ عزوجل :
یابن آدم ! بمشیتی کنت انت الذی تشاء، بقوتی ادیت الیٰ فرایضی، وبنعمتی قویت الیٰ معصیتی ، جعتک سمیعاً بصیراً
” مااصابک من حسنة فمن اللہ وما اصابک من سیئة فمن نفسک“
”وذٰلک الیٰ اولیٰ بحسناتک منک ، اونت اولیٰ بسیئاتک منی“


ترجمہ
 


بسم اللہ الرحمن الرحیم
( امام ) علی بن الحسین ( زین العابدین ) نے فرمایا کہ
(حدیث قدسی میں )اللہ عزوجل فرماتا ہے :
اے فرزندآدم !میرا ارادہ ہے کہ جس کی بنیاد پر تو ارادہ کرسکتا ہے ( میں نے توتجھے ارادے کی آزادی بخشی ہے )،
اور میری عطاکردہ قوت کے ساتھ تو واجبات ادا کرسکتا ہے،
جبکہ میری نعمت سے سوئے استفادہ کرتے ہوئے تونے اس وقت کو نافرمانی کی طاقت میں بدل لیا ہے ،
میں نے تجھے سننے اور دیکھنے والا بنایاہے (اور صحیح و غلط راستے کی نشاندہی کردی ہے ) ۔
اب جو بھلائی تجھے پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اورجس برائی کا تجھے سامنا کرنا پڑتا ہے وہ خود تیری طرف سے ہے ۔ “
یہ اس لئے ہے کہ تو جو نیک کام انجام دیتا ہے اس کے حوالے سے میں تجھ سے اولیٰ اور زیادہ مستحق ہوں او رجن برے کاموں کا تو مرتکب ہوتا ہے مجھ سے سزا وار تر ہے ۔ 1
یہ تعبیر بھی انسانی ارادے کی آزادی کے لئے ایک زندہ دلیل ہے کیونکہ ہدایت و گمراہی جبری ہوتی تو زمین میں چلنا پھرنا اور گزشتہ لوگوں کے حالات کا مطالعہ کرنا فضول تھا لہٰذا یہ حکم بذاتِ خود اس بات کی تاکید ہے کہ کسی شخص کی سر نوشت پہلے سے معین شدہ نہیں ہے بلکہ خود اس کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔
سیر فی الارض “( زمین میں چلنا پھرنا ) اور گذشتہ لوگوں کے حالات کا مطالعہ کرنا ، اس بارے میں قرآن مجید میں بہت اور قابل توجہ مباحث موجود ہیں اس کا تفصلی ذکر ہم تفسیر نمونہ ، جلد ۳ سورہ آل عمران آیت ۱۳ کے ذیل میں کر آئے ہیں ۔
زیر بحث آیت میں پیغمبر اکرم کی دلجوئی کے طور پر تاکید کی گئی ہے کہ آخر کار یہ گمراہ اورہٹ دھرم لوگ اس مقام تک جاپہنچےں گے تو جس قدر بھی ”ان کی ہدایت کے لئے خواہش مند ہو جائے او رکوشش کرے ، کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ خدا جسے گمراہ کرے (پھر اسے ) ہدایت نہیں کرتا“۔(إِنْ تَحْرِصْ عَلَی ھُدَاھُمْ فَإِنَّ اللهَ لاَیَھْدِی مَنْ یُضِلُّ) ۔اور ان کے لئے کوئی یارو مددگار نہیں ہے “ ( وَمَا لَھُمْ مِنْ نَاصِرِینَ) ۔
”تحرص“ مادہ ” حرص“ سے خوب کوشش کے ساتھ کوئی چیز طلب کرنے کے معنی میں ہے ۔
واضح ہے کہ یہ جملہ تمامنحرفین اور کجرو لوگوں کے بارے میں نہیں ہے کیونکہ پیغمبر کا فریضہ ہے تبلی و ہدایت کرنا اور ہم جانتے ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ تبلیغ وہدایت بہت سے گمراہوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے باعث سے بہت سے افراد دین ِ حق سے منسلک ہو جاتے ہیں او ربڑے عشق او رجذبے سے دین حق کا دفاع کرنے لگتے ہیں اور اس کا ساتھ دینے لگتے ہیں ۔
لہٰذ امندرجہ بالاجملہ ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے کہ جن کی ہٹ دھرمی اور بد دماغی انتہا کو پہنچ گئی ہو اور وہ استکبار ، غرور ، غفلت اور گناہ میں ایسے غرق ہو گئے ہوں گے کہ ان کے سامنے ہدایت کے دروازے نہ کھل سکین ۔ ایسے لوگوں کی ہدایت کے لئے پیغمبر جتنی بھی کو شش کرلیں بے نتیجہ ہوتی ہے کیونکہ اپنے اعمال کے سبب وہ اس حد تک گمراہ ہیں کہ قابل ہدایت نہیں رہے ۔
فطری امر ہے کہ ایسے لوگوں کا کوئی یار و مدد گار بھی نہیں ہوتا کیونکہ یا و رو مدگار تو کسی مناسب موقع پر ہی اقدام کرسکتا ہے ۔
ضمنی طور پر یہ تعبیر بھی نفی جبر کی دلیل ہے کیونکہ ” ناصر“ ایسے موقع سے مر بوط ہے جہاں خود انسان کے اندر سے جوش پیدا ہواور اس کا نتیجہ نصرت و مدد ہو ( (غور کیجئے گا ) ۔
ناصرین “ جمع کی صورت میں ہے یہ شاید اس طرف اشار ہ ہو ۔ اس گروہ کے بر عکس گروہ مومنین کا ایک دوست اور مدد گار نہیں بلکہ بہت سے دوست اور مدد گار ہیں خدا ان کا مد دگار ہے انبیاء اور اولیاء الہٰی ان کے ناصر ہیں ۔ ملائکہ رحمت بھی ہیں ان کے حامی و مدد گار ہیں ۔ سورہٴ مومن کی آیہ ۵۱ میں ہے ۔
انا لننصر رسلنا و الذین اٰمنوا فی الحیٰوة الدنیا و یوم یقوم الاشھاد
ہم اپنے رسولوں کی اور اسی طرح مومنین کی اس جہان میں روز قیامت جبکہ گواہی دینے والے شہادت کے لئے اٹھیں گے ، نصرت کریں گے ۔
نیز سورة حم السجدہ کی آیہ ۳۰ میں ہے :۔
ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملائکة الاتخافوا ولا تحزنوا و ابشر وا بالجنة التی کنتم توعدون۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس عقیدہ پر استقامت سے قائم رہتے ہیں ان پر آسمان کے ملائکہ نازل ہ وتے ہیں اور انھیں کہتے ہیں ڈرو نہیں اور غم نہ کھاوٴ تمہیں اس جنت کی خوشخبری ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔

 

۱۔ ”بلاغ مبین “ کیا ہے سوره نحل/ آیه 33 - 37
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma